ترکی کو ترقی کی بلندیوںپر پہنچانے والے رجب طیب اردغان

عامر علی خان
ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور مصطفی کمال کے عروج اور اس کی اسلام دشمنی پر اسلام دشمن طاقتوں خاص کر یوروپ میں جشن منائے جانے لگے ۔ ہر طرف یہی چرچا تھا کہ اب اس سرزمین پر جہاں صدیوں تک فضاؤں میں اذانیں گونجا کرتی تھیں مساجد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردی جائیں گی ۔ طلبہ دینی مدارس کی بجائے ایسے اداروں کا رخ کرنے لگیں گے جہاں انھیں پاکیزگی کی بجائے گندگی آزادی کے نام پر عیاشی کی تعلیم دی جائے گی لیکن سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ اولیاء کی اس پاکیزہ سرزمین پر دشمنان اسلام کی خواہشات جلد ہی دم توڑنے لگی ۔ لوگ بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے مذہب سے جڑے ہوئے تھے ۔ مصطفی کمال اتاترک کی لادینی اور اسلام پسندوں پر ظلم و بربریت کو دیکھ کر وہ بے چین ہواٹھے لیکن حالات اس قدر سنگین تھے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پارہے تھے ایسے میں چند دہوں تک ترکی میں اسلام پسندوں پر ایک عجیب قسم کا سکوت طاری تھا

لیکن اس سکوت اور خاموشی نے بہت جلد ایک چنگاری کی شکل اختیار کرلی اور 80 کے دہے میں وہ چنگاری ایک شعلہ میں تبدیل ہوگئی ۔ ایک ایسا شعلہ جس نے مصطفی کمال اتاترک اور اس کے مذہب بیزار حلیفوں اور مسلم دشمن طاقتوں کے خوابوں کو چکناچور کردیا ۔ ان کے ارمان جل کر خاک ہوگئے ۔ مصطفی کمال اتاترک نے کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اس کی تصاویر صرف سرکاری دفاتر تک ہی محدود ہو کر رہ جائیں گی اور عوام کے دلوں پر اسلام پسندوں کا راج ہوگا ۔ ترکی میں ایک ایسے وقت جبکہ لادینی کے اثرات زوروں پر تھے اور اسلام پسند عوام کا جینا دوبھر ہوگیا تھا آزادی نسواں کے نام پر عورتوںکو برہنہ کردیا گیا تھا ۔ تہذیب کے نام پر جوئے اور شراب خانوں میں داد عیش دی جارہی تھی ۔ بازاروں میں عصمت فروشی کی تعفن زدہ نعش پر شخصی آزادی کی پرت چڑھائی جارہی تھی استنبول کے کسی بازار میں ایک 13 سالہ لڑکا اپنے والدین اور ارکان خاندان کی مدد کیلئے لیموں کا شربت اور تل کے بن فروخت کررہا تھا ۔ مدرسہ کا یہ طالبعلم پڑھائی میں بہت آگئے تھا ۔ سنجیدگی اس کے چہرے سے جھلکتی تھی اس کے باوجود اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ استنبول کی سڑکوں پر لیموں کا شربت اور بن فروخت کرنے والا یہ لڑکا ایک دن ترکی میں نہ صرف اسلام پسندوں کو غلبہ دلائے گا بلکہ اپنے ملک کودنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کرے گا ۔

ہاں میں جس لڑکے کی بات کررہا ہوں وہ آج ترکی کے باوقار اور ذمہ دار عہدہ صدارت پر فائز رجب طیب اردغان ہیں ۔ دورہ ترکی کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ اس ملک میں صرف بلند و بالا عمارتیں ہی نہیں بلکہ وسیع و عریض مساجد ، باوقار تعلیمی ادارے ، سائنس و ٹکنالوجی کے تحقیقی مراکز بھی ہیں جو سارے عالم کیلئے باعث حیرت بنے ہوئے ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ سب کیسے ہوا ؟ اس کا جواب یہی ہیکہ ترکی کو رجب طیب اردغان اور ان کے ساتھیوں کی شکل میں دیانتدار سیاستدانوں حکمرانوں کی ایک ٹیم ملی ہے جو بڑی ہی تندہی کے ساتھ اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے عمل کو بڑی تیزی سے آگے بڑھارہی ہے ۔ ہم نے گذشتہ ہفتے اپنے مضمون میںکہا تھا کہ ترکی کی ترقی کے عمل کو سمجھنے کیلئے رجب طیب اردغان اور ان کے رفقاء کی حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ترکی اور وہاں اسلام پسندوں کی کامیابی کا راز دراصل ان کی اعتدال پسندی ہے ۔ رجب طیب اردغان اور ان کی پارٹی اے کے پی نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد پاک پر عمل کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ہم یہاں ’’شاید ، اگر ، مگر‘‘ جیسے الفاظ کا سہارا نہیں لیں گے بلکہ یقین سے کہیں گے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد مبارک پر عمل کے نتیجہ میں ہی رجب طیب اردغان کو ترکی میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دشمنوں کی تمام سازشوں اور خطرناک منصوبوں کو ان لوگوں نے اعتدال پسندی کے ذریعہ خاک میں ملادیا ۔ اگر اقتدار ملتے ہی رجب طیب اردغان اور ان کی پارٹی طالبان کی طرح اقدامات کرتے تو آج ترکی یوروپ میں فحاشی کا سب سے بڑا اڈہ ہوتا وہاں مسلمان تو ہوتے لیکن دین اسلام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔ جہاں تک رجب طیب اردغان کا سوال ہے وہ 26 فروری 1954 کو ترکی کے ایک ساحلی گارڈ احمد اردغان کے گھر پیدا ہوئے ۔

ابتدائی تعلیم مدرسہ میں حاصل کی انھیں بچپن سے ہی اس بات کا ملال ہوا کرتا تھا کہ ترکی میں 98 فیصد سے زائد مسلمانوں کی آبادی کے باوجود یہاں شعائر اسلام کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ عوام کو جان بوجھ کر بے دینی کے تباہ کن غار میں ڈھکیلا جارہا ہے ۔ یونیورسٹی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس پروفیشنل فٹبال کھلاڑی نے اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامک ویلفیر پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر 1994 میں اس پراٹی کے امیدوار کی حیثیت سے میئر کے انتخابات میں مقابلہ کیا۔ عوام نوجوان رجب طیب اردغان کی اعتدال پسندی سے کافی متاثر ہوئے اور انھیں بھاری اکثریت سے کامیابی عطا کی اس کامیابی نے رجب میں ملک و قوم کی خدمت کا ایک نیا حوصلہ جوش و جذبہ پیدا کیا ۔ میئر کی حیثیت سے اردغان نے استنبول کو ایک مثالی شہر میں تبدیل کردیا ۔ انھوں نے استنبول بلدیہ کی آمدنی میں عوام پر بوجھ ڈالے بنا کئی گنا اضافہ کیا جس کے ساتھ ہی عوام میں ان کی مقبولیت تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی ۔ ڈسمبر 1997 میں رجب طیب اردغان نے جو مذہب بیزاروں سے بیزار تھے ترکی کے ایک اسلام پسند شاعر کی تحریر کردہ ایک نظم پڑھ ڈالی جس میں ترکی کے مسلمانوں اور اسلام کی عظمت کو واضح کیا گیا تھا ۔ اس نظم میں شاعر نے دشمنان اسلام کو خبردار کرتے ہوئے جو کہا تھا اس کا انگریزی ترجمہ اس طرح ہے

The Mosques are our barracks,
The domes our Helmets,
The Minarates our bayonets and
Faithful our soldiers
اردو ترجمہ :مساجد ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں
گنبدیں ہماری کلاخوو (فوجی ٹوپی)
میناریں ہمارے سنگین (سرنیزہ) اور اہل ایمان ہمارے سپاہی ہیں
رجب طیب اردغان کے اس نظم کے پڑھنے کے ساتھ ہی ترکی میں مذہب بیزاروں اور اسلام دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے وہ تڑپ اٹھے انھیں حقیقت میں مساجد مسلمانوں کی فوجی چھاونیاں ان کی گنبدیں سلطنت عثمانیہ کی مسلم افواج کی آہنی ٹوپیاں نظر آنے لگیں ۔ مساجد کی بلند و بالا میناروں کی شکل میں وہ نیزوں کی وہ نوک دیکھ رہے تھے جو دشمن کا سینہ چیر کر آر پار ہوجاتی ہیں ۔ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ رجب طیب کا اس طرح کی انقلابی نظم پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ فوج میں اسلام پسندوں کا غلبہ ہونے والا ہے ۔ اس نظم پر رجب طیب اردغان کو دس ماہ کی سزا سنائی گئی ساتھ ہی انھیں استنبول کے میئر کے عہدہ سے بھی سبکدوش ہونے پر بھی مجبور ہونا پڑا ۔ انھوں نے چار ماہ سزا کی تکمیل بھی کی ۔ 2001 میں اردغان نے AKP کی بنیاد ڈالی اس پارٹی کو عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا 2002 ، 2007 اور 2011 کے انتخابات میں انھوں نے پارٹی کی کامیابی میں غیر معمولی رول ادا کیا ۔

اس کی وجہ ان کے اعتدال پسندی بتائی جاتی ہے ۔ مارچ 2003 میں ان پر پابندیاں ختم کئے جانے کے بعد وہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے اور بڑے ہی تدبر و فراست سے کام لیتے ہوئے اپنے ناقدین کوبھی خاموشی کردیا ۔ شاید رجب طیب اردغان کی پسندیدہ شخصیت شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اردغان جیسے جانبازوں کیلئے ہی کہا تھا۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ولایت ، پادشاہی ، علم اشیاء کی جہاں گری
یہ سب کیا ہیں فقط ایک نکتہ ایماء کی تفسیریں
ویسے تو سال 2001 سے ہی رجب طیب اردغان نے ترکی کی معیشت کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کا عزم کرلیا تھا اپنے دور وزارت عظمی میں انھوں نے ملک میں معاشی اصلاحات کا آغاز کردیا ۔ ان کی حکومت کی غیر معمولی معاشی پالیسیوں کے باعث 2002 تا 2012 ترکی میں بیرونی سرمایہ کاروں کا طوفان امڈ آیا ۔ ملک کی قومی مجموعی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی ۔ فی کس آمدنی میں 43 فیصد کا اضافہ ہوا ۔ رجب طیب اردغان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بقول اسلام دشمنوں کے ترکی میں اسلام اور خلافت عثمانیہ کا احیاء کیا ہے ۔ دشمنوں کے یہ ریمارکس دراصل اردغان کیلئے ایک اعزاز ہے ویسے بھی رجب طیب اردغان کو اس قدر اعزازات حاصل ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا مقابلہ دوسرے ملک کے وزرائے اعظم یا صدور نہیں کرسکتے ۔ انھیں کم ازکم 30 باوقار جامعات کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں عطا کی گئی ہیں جبکہ وہ دو ملکوں بشمول جنوبی کوریا کی اعزازی شہریت بھی رکھتے ہیں ۔ 2014 کے صدارتی انتخابات میں انھوں نے 52 فیصد ووٹ حاصل کئے اور ویژن 2023 کا اعلان کیا ۔ مغربی طاقتوں اور یہودیوں کے زیر اثر میڈیا کی لاکھ کوششوں اور پروپگنڈہ کے باوجود اردغان کو ترک عوام اس لئے بھی پسند کرتے ہیں کہ انھوں نے ترک قوم کی عظمت و وقار کوبلندکرنے والے اقدامات کئے مثال کے طور پر 2002 اور 2003 میں جب اردغان عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے تھے اس وقت ترکی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا تھا ۔ وہ اپنے ہاتھ میں کاسہ گدائی لئے بڑی حیرت و یاس کے ساتھ عالمی طاقتوں کی جانب دیکھ رہا تھا لیکن اردغان نے سب سے پہلے کاسہ گدائی کو توڑ ڈالا ۔

اس کے ٹوٹنے کی آوازوں سے یوروپ پر حیرانی چھاگئی ۔ اس وقت ترکی پر آئی ایم ایف کے 23.5 ارب ڈالرس کا قرض تھا تاہم ان کی غیر معمولی بصیرت اور دور اندیشی نے 2012 تک اس قرض کو 10.9 ارب ڈالرس تک پہنچادیا اور اب تو ترکی پوری طرح آئی ایم ایف کے جال سے باہر نکل آیا ہے اردغان فی الوقت آئی ایم ایف کو قرض دینے کا ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں ۔ اردغان کی کامیاب حکمت عملی اور معاشی پالیسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2002 میں ترکی سنٹرل بینک میں بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر 26.5 ارب ڈالرس تھے ۔ 2011 میں وہ 92.2 ارب ڈالرس تک پہنچ گئے ۔ انھوں نے ترک قوم میں تعلیم کو فروغ دینے کیلئے کئی اقدامات کئے ۔ 2002 تا 2012 سارے ملک میں یونیورسٹیز کی تعداد 98 سے بڑھا کر 186 کردی گئی ۔ چند سال قبل ترکی میں 26 طیرانگاہیں ہوا کرتی تھی لیکن اب ان کی تعداد بڑھ کر تقریباً 55 ہوگئی ۔ ملک میں سڑکوں کا جال پھیلایا گیا ۔ ریلوے کو زبردست ترقی دی گئی ۔ 2014 کی مردم شماری کے مطابق ترکی کی آبادی 77695904 ہے ۔ رجب طیب اردغان کی قیادت میں عوامی بہبود کو اولین ترجیح دی گئی جس کے نتیجہ میں اسے قومی مجموعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی 17 ویں بڑی معیشت کا موقف حاصل ہوگیا ہے ۔ 2011 میں ترکی کی برآمدات 143.5 ڈالرس تھیں جو 2012 میں 163 ارب ڈالرس تک پہنچ گئیں ۔ ترکی کا شمار دنیا کی بڑی آٹو موٹیو انڈسٹریز میں ہوتا ہے جہاں سالانہ لاکھوں گاڑیاں بنائی جاتی ہیں ۔ اس شعبہ میں ترکی کو عالمی سطح پر 6 واں مقام حاصل ہے ۔ شپ یارڈس ، جہاز سازی ، بندر گاہوں کی تعمیر اور امکنہ کے ساتھ ساتھ بھاری مشینوں کی تیاری کے شعبہ میں ترکی کی ترقی قابل رشک ہے ۔ اب تو حکومت نے 2023 تک ملک میں تین نیوکلیئر پاور اسٹیشن تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔
سلسلہ جاری ہے