عامر علی خان
ساری دنیا بالخصوص یوروپ میں معاشی انحطاط کے باعث کئی ممالک کی صفتیں تباہ و تاراج ہوگئیں ۔ خوشحال ملک دیوالیہ ہوگئے اور بے شمار ملک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے جال میں پھنس کر رہ گئے جس نے زبردستی ایسے اصلاحات نافذ کروائے جس سے کئی علاقوں میں عوامی انقلاب برپا ہوئے لیکن ترکی پر اس معاشی انحطاط کا زیادہ اثر نہیں ہوا وہ پہلے ہی عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے جال سے نکل چکا تھا ۔ ترکی فی الوقت ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے ۔ اپنے حالیہ دورۂ ترکی کے دوران ہم نے دیکھا کہ ترک عوام ڈسپلن کے پابند محنتی اور دیانت دار ہوتے ہیں ان میں جہاں قوم پرستی کا جذبہ پایا جاتا ہے وہیں اخوت اسلامی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔ چونکہ کئی صدیوں سے سرزمین ترکی اولیاء صوفیاء کا مسکن رہا اس لئے وہاں کے لوگ تشدد میں یقین نہیں رکھتے وہ اپنے اخلاق و کردار صلاحیتوں کے ذریعہ دوسروں کے دل فتح کرلیتے ہیں ۔ ویسے بھی انہی لوگوں کو فاتح کہا جاتا ہے جو لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ترک عوام اور حکمرانوں کے دل اخوت اسلامی کے جذبہ سے سرشار ہیں اس کا ثبوت فلسطین ، شام ،عراق ، پاکستان اور برما (مائنمار) ہیں جہاں کے مسلمانوں پر جب بھی مصیبت و آفت آئی حکومت ترکی اور ترک عوام نے بھرپور مدد کی ۔ ترک حکمراں ہمیشہ سے ہی مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں ۔ مائنمار میں بدھسٹ دہشت گردوں نے سرکاری سرپرستی میں روہنگیائی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا ۔ برما کے شہروں ، گاؤں ، دیہاتوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا اس وقت عالمی سطح پر سب سے پہلے جس شخص کی آواز اٹھی وہ رجب طیب اردغان ہی تھے ۔ صدر ترکی کی اہلیہ نے اپنے ارکان خاندان کے ہمراہ مائنمار پہنچ کر تباہ حال روہنگیا مسلمانوں کے آنسو پونچھے ۔ مسلمانوں کی حالت زار پر ان کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے ۔
خلافت عثمانیہ سے لیکر آج کی تاریخ تک دیکھا جائے تو ترک حکمرانوں نے ہمیشہ جرأت مندی و بیباکی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے یوروپی حکومت بھی انگشت بدنداں رہ گئیں ۔ آپ کویاد ہوگا کہ سال 2008 میں غزہ پٹی پر اسرائیل نے درندگی ، سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانیت کو شرمسار کردیا تھا ۔ نہتے فلسطینیوں پر حملے کے فوری بعد داوس فورم میں موجودہ صدر رجب طیب اردغان نے اس وقت کے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو للکارتے ہوئے انسانیت کے خلاف اسرائیلی جرائم کو برسرعام بے نقاب کردیا تھا ۔ رجب طیب اردغان کی دیدہ دلری جرأتمندی و بیباکی پر شمعون پیریز اور اسرائیل کے دیگر حلیف تلملا اٹھے اور اجلاس کے کنوینر نے رجب طیب اردغان کے خطاب کو وہیں روک دیا جس پر انہوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ اس واقعہ نے وہ دن یاد دلادیئے جب ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے یوروپ کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور علاقہ کے بیشتر ممالک کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا ۔ یوروپ میں بازنیطن سلطنت کا خاتمہ ، سلطنت عثمانیہ کے عروج کا آغاز ثابت ہوا ۔ ڈاوس فورم میں اسرائیل کے خلاف رجب طیب اردغان کی حق گوئی و بیباکی کا مشاہدہ کرتے ہوئے یوروپی اقوام کو ایک زبردست جھٹکہ لگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ ترکی میں پھر ایکبار خلافت عثمانیہ کا احیاء ہورہا ہے ۔ ترکی کی موجودہ حکومت نے مصطفی کمال کے تقریباً اسلام دشمن قوانین کو ان ہی کے تیار کردہ مذہب بیزاری کے تابوت میں دفن کردیا ۔ 1923 میں جب ایک عالمی سازش کے تحت خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا اس وقت سے کچھ عرصہ قبل تک بھی خواتین کے حجاب پر وہاں پابندی عائد تھی ۔ یونیورسٹیز میں طالبات حجاب کا اہتمام نہیں کرسکتی تھیں ، ہاں عریانیت ناچ گانے فحش حرکات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تھا ۔ لیکن آج ترک عوام بے حیائی و بے شرمی کے دلدل سے باہر نکل آئے ہیں ۔
اب حال یہ ہیکہ صدر اور وزیراعظم ، وزراء کی بیویاں آپ کو باحجاب نظر آئیں گی ۔ اس کی سب سے بہترین مثال صدر رجب طیب اردغان کی اہلیہ آمینہ اردغان ، ان کی دو بیٹیاں اسری اور سمیہ ہیں جو مکمل حجاب کا اہتمام کرتی ہیں ۔ ترک پارلیمنٹ میں بھی برقعہ پوش یا اسکارف اوڑھی خواتین نظر آتی ہیں ، یونیورسٹیز میں بھی برقعہ پوش طالبات حصول علم میں مصروف ہیں ۔ یہ بات تو میرے مشاہدہ میں شہری علاقوں کی ہے جبکہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اضلاع میں اسکارف اور مساجد میں مرد حضرات کی موجودگی شہری علاقوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے ۔ ترکی میں جہاں کبھی اسقاط حمل عام بات تھی آبادی میں مسلسل اضافہ کے باوجود موجودہ حکومت نے اسقاط حمل کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ رجب طیب اردغان کی حکومت چاہتی ہے کہ ترک اپنی آبادی بڑھائیں ۔ ان کے خیال میں اسقاط حمل دراصل شکم مادر میں اولاد کا قتل ہے ۔ کچھ عرصہ قبل آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس کانفرنس کے موقع پر ایک میڈیا نمائندہ کے سوال پر اردغان نے جو جواب دیا تھا اس کی عیسائی رہنما بھی تائید کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ رجب طیب اردغان نے کہا تھا ’’آپ جنین کشی کریں یا نومولود کو پیدائش کے بعد موت کی نیند سلادیں یہ قتل ہی ہوگا ۔ ان کے اس بیان سے مغربی ممالک میں جہاں ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں ایک ہلچل مچ گئی تھی ۔ رجب طیب اردغان اور حکومت ترکی نے فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت کے خلاف آواز اٹھائی کبھی بھی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا ۔ وہ وقفہ وقفہ سے دنیا کے سامنے اسرائیلی مظالم و بربریت کا بھانڈا پھوڑتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں یہودی انھیں اپنا سب سے خطرناک دشمن سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے زیر اثر میڈیا انھیں خلافت عثمانیہ کے احیاء کی کوششوں میں مصروف حکمران سے تعبیر کرتا ہے ۔ اگست 2014 میں رجب طیب اردغان نے بے شمار فلسطینی خواتین کی شہادت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینی ماؤں کو اس لئے شہید کررہا ہے کیونکہ وہ فلسطینیوں کو جنم نہ دے سکیں۔ اسرائیل نومولود و شیرخوار فلسطینیوں کی جانیں اس لئے لے رہا ہے تاکہ وہ بڑے نہ ہوں اور نوجوانوں کو اس لئے شہید کررہا ہے کہ تاکہ وہ اپنی ارض مقدس کا دفاع نہ کرسکیں ۔
ایک مرحلہ پر اردغان نے یہ کہتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر ہیبت طاری کردی تھی کہ یہودیوں کو اسی خون میں ڈبویا جائے گا جو وہ بہارہے ہیں ۔ رجب طیب اردغان کے خیال میں غزہ کو اسرائیل نے ایک اوپن ایر قید خانہ میں تبدیل کردیا ہے جبکہ یہودیت انسانیت کے خلاف ایک جرم کی مانند ہے ۔ سردست ترک حکمرانوں اور عوام کی اسلام پسندی سے سارا یوروپ پریشان ہے لیکن رجب طیب اردغان اور ان کے ساتھی کے علاوہ ہماری ملاقات جن جن عہدیداروں سے ہوئی تمام کے تمام نے اپنی اعتدال پسندی و میانہ روی کے ذریعہ یوروپ کو یہ قائل کراتے کہ اسلام تو ظلم کے صفایا ، مظلوم کی مدد کیلئے آیا ہے ۔ اس مذہب میں بربریت کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ یہاں تو رحم ہی رحم ہے ۔ ایک مرحلہ پر رجب طیب اردغان نے یہ کہہ کر بھی یوروپ کے اسلام دشمنوں کی نیندیں اڑادیں کہ کوئی طاقت بھی یوروپ میں اسلام کے عروج کو روک نہیں سکتی ۔ انھوں نے اسلامو فوبیا کوایک جرم قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ ترکی کو یوروپی اقوام بیمار یوروپ کہتے ہیں اس بارے میں رجب طیب اردغان یوروپی طاقتوں کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترکی یوروپ کا بیمار نہیں بلکہ اسکا علاج ہے ۔ بہرحال اگر ہم خلافت عثمانیہ سے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ترکوں نے اسلام دشمن سازشوں کو فوری بھانپ کر اس کے سدباب کی کوششیں ضرور کی ہیں ۔ رجب طیب اردغان مسلم ملکوں کو دشمنوں کی سازش سے خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور اسلامی ملکوں کے خلاف سنگین منصوبوں اور سازشوں پر عمل ہورہا ہے اور یہ سب کچھ مغرب کی ایما پر کیا جارہا ہے ۔ مسلمان مسلمان کا قتل کررہے ہیں ۔ اس پر مسلم حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ میں نے دورہ ترکی کے بارے میں اپنے پہلے مضمون میں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے یوروپ میں تقریباً 1000 برسوں تک پوری آن و شان اور پروقار انداز میں حکومت کی ۔
روم جیسی طاقتور سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا اور سارے یوروپ میں اپنی نصرت و کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے یوروپ میں مسلمانوں کے عروج میں سلطنت عثمانیہ کا اہم رول ہے ۔ 13 ویں صدی کے اوائل میں غازی عثمان نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ڈالتے ہوئے اپنی فتوحات کا آغاز کیا تھا۔ بایزید اول، سلطان محمد فاتح دوم اور سلطان سلیم اول نے سلطنت عثمانیہ کو اس قدر مستحکم کیا کہ عیسائی ملکوں کے حکمران ان کے سامنے آواز نہیں اٹھاسکتے تھے ۔ خلافت عثمانیہ کے دوران جو 538 برس تک جاری رہی 33 خلفاء نے مغرب و مشرق میں کئی ملکوں کو اپنے زیر تسلط کرلیا ۔ سلطان سلیمان کی 1520 تا 1566 حکمرانی کے دوران سلطنت عثمانیہ یوروپ اور مشرق میں سب سے طاقتور ترین حکومت بن گئی تھی ۔ ان کے دور کو سلطنت عثمانیہ اور اسلامی تاریخ کا سنہرا دور بھی کہا جاتا ہے ۔ غیر مسلم اس بہادر سلطان کو Suleman the Magnificent (سلیمان ذیشان) اور مسلمان انھیں قانونی سلطان (انصاف کرنے والا) کہتے تھے کیونکہ انھوں نے رعایا کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچانے کیلئے کئی قوانین وضع کروائے تھے ۔ سلطان سلیمان کے والد سلطان سلیم اول نے اپنی سلطنت کو 1510 تک زبردست وسعت دی اور بیشتر عرب دنیا کو اپنے تسلط میں لایا ۔ مغرب میں شمالی افریقہ اور جزیرۃ العرب اور مشرق میں فارس (موجودہ ایران) کی سرحدوں تک ان کی حکومت وسعت اختیار کرگئی تھی جہاں تک خلافت عثمانیہ کا سوال ہے 1258 میں منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی و بربادی کے بعد ایک طرح سے خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا ۔ عباسی خلیفہ قاہرہ مصر میں رہنے لگے تھے اور انھیں مملوک سلطنت کا تحفظ حاصل تھا ۔ اس وقت خلیفہ ایک رسمی خطاب بن کر رہ گیا تھا ۔ ایسے وقت سلطان سلیم نے خلافت کی اہمیت و طاقت کو واضح کیا ۔ سلیم اول کے فرزندوں سلطان سلیمان ذیشان کو 26 سال کی عمر میں اسلامی سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملا ۔ سلطان سلیمان اور خلافت عثمانیہ کو سب سے بڑا چیلنج ہنگری سے تھا اور بلگریڈ قلعہ فتح کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا لیکن مسلمانوں کے اس بہادر خلیفہ نے بلگریڈ قلعہ کو اپنی خصوصی حکمت عملی کے ذریعہ فتح کرلیا ۔ چونکہ سلطنت عثمانیہ کے تمام حکمران سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حنفی المسلک تھے اس لئے ہرمعرکہ میں سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگوں کی انھیں رہنمائی حاصل رہی ہے ۔ اگرچہ خلافت عثمانیہ کو غیر معمولی وسعت حاصل ہوئی تھی لیکن پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا ۔ اس وقت روس برطانیہ اور فرانس جرمنی کے حریف تھے ۔ دوسری طرف عربوں نے خلافت عثمانیہ کے مخالفین کا بھرپور ساتھ دیا اور قوم پرستی کے نعرے لگائے گئے ۔ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ عراق ، شام ، مصر اور حجاز ، ترکی کے تسلط سے آزاد ہوگئے ۔ خلیفہ عبدالحمید دوم نے 33 سال حکومت کی لیکن ان کے دور میں بھی سربیا یونان بلغاریہ وغیرہ نے بھی خود مختاری کا اعلان کردیا ۔ عثمان اول نے 1299 میں جب شمال مغربی اناطولیہ میں سلطنت ترکی کی بنیاد ڈالی تھی اس وقت ان کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا ہوگاکہ ایک دن ان کی طاقتور سلطنت کے شیرازے بکھر جائیں گے ۔
بلقان کی جنگوں میں داد شجاعت دینے والے سلطان مراد اول کے ذہن میں بھی جنھوں نے 1362 اور 1389 کے درمیان حکمرانی کی یہ کبھی نہیں آیا ہوگا کہ آنے والی صدیوں میں خلافت عثمانیہ کا نام ونشان مٹادیا جائے گا ۔ یہ خلافت عثمانیہ کے خلیفہ ہی تھے جنھوں نے 1453 میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کو فتح کرتے ہوئے بازنطین حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد دوم کو سلطان محمد فاتح کہا جانے لگا اور آج دشمن بھی اس سلطان کا نام عزت و احترام سے نام لیتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں سلطان سلیمان ذیشان کا ذکر کیا ان کے دور میں سلطنت عثمانیہ نے جنوب مشرقی یوروپ ، مغربی ایشیاء قضتصاص ، شمالی افریقہ کو زیر نگوں کرلیا گیا تھا ۔ غرض سلطنت عثمانیہ کو 1299 تا 1453 زبردست عروج حاصل ہوا ۔ اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے ترکی کو ساری دنیا کا ایک مثالی ملک بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جہاں تک ترکی کا سوال ہے اس کی ایک قدیم تاریخ ہے چھٹی صدی عیسوی میں منگول کے ترک یہاں آباد ہوئے اور پھر آٹھویں صدی میں اس سرزمین پر اسلام کی روشنی پھیل گئی ۔ زوال خلافت عباسیہ کے بعد ترک کے سلجوق قابض ہوگئے جس کے بعد عثمانی ترکوں نے ایشیا کوچک کا علاقہ چھوڑ کر اس سرزمین کو اپنا گھر بنالیا اور پھر 1299 میں عثمان اول نے عثمانیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی ۔ سلطنت عثمانیہ اس کے بعد آگے ہی بڑھتی گئی لیکن ان لوگوں کا سترھویں صدی سے زوال شروع ہوگیا اور 1912 میں ہنگری ، کریمیا ، یونان ، بلغاریہ ، بوسنیااور البانیہ وغیرہ ترکی کی حکمرانی سے آزاد ہوگئے اور پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ صرف ترکی تک محدود ہو کر رہ گئی اور پھر مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ کرادیا ۔ اس وقت خلیفہ عبدالمجید دوم حکمران تھے ۔ خلافت عثمانیہ کے تحفظ میں سب سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں نے آواز اٹھائی ۔ 1919 میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد شوکت علی نے گاندھی جی کے تعاون سے خلافت تحریک کا آغاز کیا ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ علی برادران کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی خلیفہ عبدالمجید دوم نے اپنی صاحبزادی شہزادی درشہوار کی شادی نواب میر عثمان علی خان کے فرزند اعظم جاہ بہادر سے اور شہزادی نیلوفر کی شادی شہزادہ معظم جاہ بہادر سے طے کروائی ۔ بہرحال آثار وقرائن سے ایسا لگ رہا ہے کہ خلافت کا احیاء ہونے والا ہے اور اس معاملہ میں پھر ایک بار ترکی اہم رول ادا کرے گا ۔ مشرق وسطی اور دنیا کے حالات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ یمن میں جس طرح سعودی عرب کی زیر قیادت اتحادی حوثی باغیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں ایسے ہی ترکی کی قیادت میں مسلم ممالک شامی صدر بشار الاسد حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع کریں گے اور پھر ساری دنیا بالخصوص علاقہ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا ۔