استنبول۔ ترکی نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کوہ شام میں کردملیشیا وائی پی جی کی پشت پناہی بند کرے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کے ترجمان نے بھی کہاکہ ترک فوج کو عفرین کے علاقے سے نکالنے کے لئے کرد جنگجو امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ ریکسن ٹیلر سن نے کہاکہ ان کا ملک تری کے ساتھ مل کر شمالی شام کے حوالے سے اس کے سکیورٹی خدشات پر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔
انہو ں نے کہاکہ امریکہ ترکی کے دہشت گدوں سے دفاع کے حق کو تسلیم کرتا ہے اور اس نے صورتحال کو مستحکم بنانے کے لئے کچپ تجاویز بھی دی ہیں۔ ترکی اس ملیشیا کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور اسے کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کی ہی شاخ قراردیتا ہے جو آزاد کردستان کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم وائی پی جی تنظیم سے کسی قسم کے تعلق سے انکارکیاہے۔ کرد ملیشیا شمال مشرقی شام کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اور دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی اہم اتحادی ہے۔
انقرہ کا موقف ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ ختم ہوچکی ہے اس لیے یہ اتحاد ختم ہوجا چاہئے۔ ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالن کا کہنا تھا کہ ’ ہم اپنی سرحدو ں کے ساتھ شام میں’ پی کے کے‘ کی تنصیبات برداشت نہیں کرسکتے‘۔اسی دوران امریکی وزیردفاع جیمز میٹس نے ترکی سے مطالبہ کیاوہ شام میں اپنی عسکری سرگرمیوں میں احتیاط سے کام لے ۔
میٹس نے منگل کے روز کہاکہ شام میں کردملیشیا گروپوں کے خلاف ترک فوج کی زمینی کاروائیو ں سے دہشت گرد تنظیم اسلام اسٹیٹ یا داعش کے خلاف اپریشن سے توجہہ ہٹتی جارہی ہے۔ انقرہ حکومت نے ابھی حال ہی میں شامی شہر عفرین میں شامی کرد ملیشیا گروہ وائی پی جی کے خلاف ایک وسیع تر زمین آپریشن شروع کیاتھا۔ ترک صدر اردغان نے ساتھ ہی یہ بھی کہاتھا کہ ترک دستے عفرین کے بعد بھی بہت جلد منیج میں بھی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ایس اہی ایک اپریشن شروع کردیں گے۔