ترکاری کی فروخت پر نزع سپریم کورٹ کا پہلا مقدمہ

راویش کمار
جب کبھی ہم سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے تعلق سے بات کرتے ہیں تو مخاطب کے تبصرے اور وکلاء کی جانب سے بڑے وکیلوں کے دلائل ہی جج کے دلائل ہوتے ہیں۔ لیکن کئی بار ہم حقوق کے تعلق سے درخواست گزار کے سوال کو فراموش کرجاتے ہیں، جو بہت معمولی ہوسکتا ہے بمقابل مملکت جسے ہم اکثر حکومت کہتے ہیں۔ یہ چیز بدلتی نہیں ہے، یہ اسے محدود کرتی ہے اور مملکت کو جو اپنے وجود کا اثر کھوتی اور پاتی رہتی ہے، باہر کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس طرح کی کئی لڑائیاں آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ لڑی گئیں اور بہت معمولی وکلاء کی مدد کے ساتھ لڑی گئی، جن میں کوئی خاص نام نہیں ہے۔ جب ہندوستان کا دستور 1950ء میں لاگو ہوا، تب مملکت کا ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا گیا، لیکن عوام کیلئے ضرور کچھ تبدیل ہوا، وہ انھیں حاصل ہوئے حق کی تائید اور برقراری کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے۔
1958ء میں سپریم کورٹ کی بلڈنگ 17 ایکڑ اراضی پر تعمیر کی گئی، اور بلڈر کے ذہن میں یہ ضرور رہا ہوگا کہ یہ انصاف کا اعلیٰ ترین اور قطعی ادارہ ہے۔ گنیش بھیکاجی دیولیکر اس کے آرکیٹکٹ رہے جنھیں پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے اولین ہندوستانی سربراہ بننے کا موقع ملا تھا۔ قبل ازیں، سپریم کورٹ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت میں کام کرتا تھا جہاں سیاسی بادشاہوں کے بادشاہ میٹنگس منعقد کرتے تھے۔ وہاں ججوں کا ریکارڈ روم سپریم کورٹ کے نچلے حصے میں ہے، جہاں کئی ریکارڈ جیسے فیصلوں کی نقول، اُن کے ساتھ منسلکہ ثبوت، پٹیشن کی نقول اور اُن کی زبان پائے جاتے ہیں۔ حالیہ عرصہ تک اس ریکارڈ روم کو کسی اسکالر کی رسائی نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہاں جانے کا کوئی باقاعدہ سسٹم نہیں ہے، یعنی اگر آپ وہاں جانا چاہیں تو کس سے اجازت طلب کریں یہ واضح نہیں ہے۔ روہت ڈے پہلے اسکالر ہیں جن کو 2010ء میں سپریم کورٹ کے ریکارڈ روم کو جانے کا موقع حاصل ہوا۔
1950ء میں جب دستور نافذ العمل ہوا، عوام اس بات پر شاکی ہوئے کہ دستور انگریزی میں تحریر ہے، اسے بنانے والے لوگوں کے موقف کا تاثر جانے کیا رہا ہوگا، اور اب انھیں مان لینا چاہئے کہ دستور وجود میں آچکا ہے، اس لئے اسے سمجھیں اور جدوجہد کریں۔ یہ عوام کا معاملہ نہیں ہے، شاید ایسا ہوسکتا ہے کہ عوام عدالت کو جانے سے گریز کریں گے، جو ہنوز برطانوی غلبہ والی عمارتوں میں کام کررہی تھی۔ ایسا بالکل نہیں ہوا۔ درحقیقت روہت ڈے کی ایک کتاب منظرعام پر آئی، A People’s Constitution – The Everyday Life of Law in Indian Republic. یہ کتاب اس اعتبار سے دلچسپ ہے کہ اس میں وکلاء اور ججوں کے بارے میں کچھ نہیں، اُن (روہت) کی اسکالرشپ اور شیکسپیئر کے حوالے جات کم ہیں، یہ تو عام لوگوں کا معاملہ ہے جنھوں نے دستور پر عمل آوری کے چند روز میں ہی اپنے حقوق کیلئے مطالبہ کیا۔ خیرسگالی ہوا ہوگئی۔ ہم جانتے ہیں کہ دستور 1950ء میں نافذ ہوا، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دستور کو کس طرح لوگوں نے قبول کیا، کس طرح انھوں نے خود اپنے حقوق کو سمجھا، اور مملکت کو وضاحت کی کہ آپ کے حدود کیا ہیں۔
مغربی یوپی میں جلال آباد کے محمد یٰسین سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے کیونکہ جلال آباد میونسپلٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ ترکاریاں فروخت کرنے کیلئے کسی ایک شخص کو لائسنس حاصل ہوگا اور وہ لائسنس کسی ہندو کو دیا گیا۔ یٰسین نے کیس اس طرح بنایا تھا کہ یہ تمام لوگوں کی گزربسر کے حقوق پر حملہ ہے۔ کسی کو کیونکر لائسنس دیا جائے گا اور ماقبل فروخت ترکاریوں کو مسترد کردیں گے۔ یہ قطعی دعوے کے ذریعے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اپنے حقوق کے تعلق سے عدالت کو پہنچنے والوں کے پہلے بیاچ میں محمد یٰسین بھی شامل تھے۔ انھوں نے یہ مقدمہ جیت لیا۔
نومبر یوم دستور کا مہینہ بھی ہے۔ یوم دستور کو ہم اُن لوگوں کی نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے بناتے اور جو اس کا اطلاق کرتے ہیں، لیکن آج ہم اسے ان لوگوں کی نظروں سے دیکھیں گے جو اسے آزماتے اور بس آزماتے رہتے ہیں۔ وہ کون تھے جنھوں نے دستور پر عمل درآمد سے چند ماہ قبل منتخب حکومت کو چیلنج کیا تھا۔ وہ ابتدائی ماہ میں یاددہانی کراتے رہے کہ ٹھیک ہے، ہم نے اس حکومت کیلئے ڈیڑھ سال جدوجہد کی، حکومت میں صرف وہی لوگ ہیں جن کے پیچھے ہم چلا کرتے تھے، جیل جایا کرتے تھے، لیکن دستور کا احساس تو دستور کا احساس ہی رہے گا۔ اس معاملے میں مفاہمت نہیں کریں گے۔ ہزاروں لوگ جو اپنے حقوق کی خلاف ورزی کے سوال کے ذریعے عدالت تک پہنچے، ان کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ ہندوستان کے عوام نے اپنی زندگی میں کبھی دستور کو نہیں دیکھا ہے۔ اس بات پر بھی مملکت کے خلاف مقدمہ کافی بڑھا۔ 1950ء میں زائد از 600 رٹ پٹیشن کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی جبکہ اس سے قبل برطانوی وفاقی عدالت نے صرف 169 کیسوں کی سماعت کی تھی۔ وفاقی عدالت ہند کی تشکیل 1937ء میں ہوئی، جس نے صرف تین ججوں کے ساتھ کام کیا۔ 1962ء تک سپریم کورٹ میں سماعت کی گئی عرضیوں کی تعداد 3,833 ہوگئی۔ ان 12 برسوں میں یو ایس سپریم کورٹ میں صرف 960 معاملے سنے گئے۔ امریکہ کی اعلیٰ ترین عدالت کی تاریخ زائد از 100 سال قبل کی ہے۔
عدالتیں مصنفین کو یکے بعد دیگر رٹ پٹیشن پر ہدایات دے رہے تھے، جو حکومت کے ساتھ بے چینی کا موجب بنی، کہ یہ اُن کے اپنے لوگ ہیں جن کے خلاف کیس درج ہورہا ہے، جو ہندوستان کے عوام کی بڑی تعداد میں عوام الناس نہیں ہیں۔ مقدمہ کی شروعات کامیابی سے ہوئی۔ کیا یہ عمدہ اور دلچسپ نہیں کہ عوام نے دستور پر عمل آوری کے چند ہفتوں اور مہینوں میں اسے منظور کرلیا اور اس کے ساتھ جینے لگے؟ دستور کو متعارف کرانے کے 15 سال کے اندرون سیول سوسائٹی اور حکومت کا دو تہائی کیسوں میں ٹکراؤ ہوا۔ زائد از 40 فیصد معاملوں میں عوام نے حکومت سے مقدمہ جیتا۔ 3272 فیصلوں کے منجملہ 487 میں حکومت کے بنائے گئے قوانین کے دستوری جواز کو چیلنج اور منسوخ کیا گیا۔ دنیا میں اس طرح کی چند حکومتیں ہوں گی جو عوام کو دیئے گئے حقوق کا دفاع نہیں کرسکتی ہیں۔
سپریم کورٹ ریکارڈ روم کا جائزہ لینے آمادہ نہیں ہے، کئی چیزیں ضرور باہر آنا چاہئے۔ ان عرضیوں کے ذریعے جب عوام کی روداد منظرعام پر آئیں گی، دستور عوام میں ظاہر ہونے لگے گا۔ آپ کو حوصلہ بھی ملے گا کہ اُس دور میں کیوں لوگ عدالت کی سیڑھیاں چڑھا کرتے تھے ، آپ کیوں پس و پیش کرتے ہو۔ ایسا کرنے میں لوگ اعلیٰ عدالتوں کے قیام کا موقع فراہم کریں گے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عدالت کی سیاست بدستور وکلاء اور حکومتوں کے درمیان گھومتی رہے گی اور عدالت کے ذریعے ہندوستان کی جمہوریت کو کبھی وسعت نہیں ملی۔ ہم بڑے وکلاء کا رول جانتے ہیں، مگر عام وکیلوں نے بھی اس میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ ہندوستان میں دستور پر عمل آوری کے وقت وکلاء کا فقدان نہیں تھا۔
جب ہندوستان آزاد ہوا، تب 72,425 وکلاء تھے۔ آبادی کی تعداد بھلے ہی آبادی کے معاملے میں کم تھی، لیکن امریکہ کے بعد سب سے زیادہ وکلاء ہندوستان میں تھے۔ جب چین کو 1957ء میں آزادی ملی، وہاں صرف 3,000 وکلاء تھے۔ آج ایسا نہیں کہ دستوری و قانونی عمل رک گیا، عوام اپنے حقوق کے تعلق سے پس و پیش میں مبتلا ہوگئے ہیں، بلکہ اُس وقت رکھی گئی بنیاد کا نتیجہ ہے کہ آج بھی ایسے وکلاء ہیں جو عام لوگوں کے حقوق کیلئے لڑنے آگے آتے ہیں اور دستور کو پھلنے پھولنے اور اپنے دور میں اسے بلند حوصلہ رکھنے کیلئے ’آکسیجن‘ میں کمی نہیں ہونے دیتے ہیں۔
کیرالا کی عام لڑکی ہادیہ نے طاقتور این آئی اے کیخلاف اپنا کیس تیار کیا اور سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی۔ اُس نے ’لوو جہاد‘ کے بوگس نظریہ کی بھرپور مخالفت کی، حالانکہ نیوز چیانلوں نے جارحانہ روش اختیار کی، لیکن وہ سپریم کورٹ کی سیڑھیاں چڑھتی رہی، اس قانونی لڑائی میں اسے دونوں فریقوں کے خلاف کامیابی ملی۔ نہ صرف این آئی اے کیخلاف بلکہ کیرالا ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مقابل بھی، جس میں اُس کی شادی کو باطل قرار دیا گیا تھا۔ سوائے ہادیہ، تمام معلومات جس کا ہم نے ابھی تک تذکرہ کیا وہ سب روہت ڈے کی کتاب سے لئے گئے جو انگریزی میں ہے۔ یہ کتاب جو ’ پرنسٹن پبلکیشنز‘ نے طبع کی، 524 روپئے میں دستیاب ہے۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جب کبھی میں کسی کتاب کا نام لیتا ہوں، اس کی قیمت اور اس کے پبلشر کی جانکاری ضرور دیتا ہوں۔
لہٰذا، ہندوستان کے عوام تیار تھے اور بس دستور کے منتظر تھے۔ جب یہ لاگو ہوا، عوام نے اسے ان لوگوں سے سمجھا جنھوں نے اسے بنایا۔ اُس وقت بھی حکومتوں کے سربراہان جارحیت پسند تھے۔ اس کتاب کے مصنف اور تاریخ داں روہت ڈے سے بہ نفس نفیس ملاقات ہوئی۔ وہ ییل یونیورسٹی میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
ravish@ndtv.com