صابر علی سیوانی
تبصرہ نگاری ایک فن ہے۔ کوئی بھی فن آسانی سے کسی شخص کے حصے میں نہیں آتا ہے۔ اس کے لئے بڑی مشق و مزاولت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے اسرار و رموز اور نکات و جہات کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دیدہ ریزی، ریاضت اور محنت اس کے تین بنیادی کردار ہوتے ہیں۔ ان تین کرداروں کو اگر کوئی شخص اپنی زندگی کا حصہ بنائے تو وہ شخص کسی بھی فن کی بلندی پر پہنچ سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شخص اس فن سے جنون کی حد تک وابستگی رکھتا ہو۔ تبصرہ نگاری کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے لیکن آج کل سب سے آسان کام اسے ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ تبصرہ کسی حد تک تنقید کا فریضہ بھی انجام دیتاہے۔ اس لئے یہ آسان بھی نہیں ہے۔
تبصرہ کا لغوی معنی تصریح، تفصیل اور توضیح ہوتا ہے۔ یہ تینوں الفاظ ایک دوسرے سے بیحد قریب معلوم ہوتے ہیں۔ کسی بھی کتاب پر تبصرہ لکھنا دراصل اس کتاب میں موجود مواد کی توضیح و تصریح کے ضمن میں آتا ہے۔ تبصرہ نگار کتاب کے متن کے حوالے سے اختصار کے ساتھ تعارفی گفتگو کرتا ہے۔ مصنف کی فکر و نظر، تلاش و جستجو، اُسلوب بیان اور ندرتِ اظہار کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے۔ وہ کتاب کے صُوری اور معنوی خوبیوں کو اُجاگر کرتا ہے اور کتاب و طباعت اور جلد سازی کی خوبیوں کو بھی بیان کرتا ہے تاکہ قاری بیک نظر زیرتبصرہ کتاب میں موجود تمام مضامین سے آشنا ہوسکے۔ قاری اگر اس کے تبصرے سے متاثر ہوتا ہے تو کتاب کی خریداری کے متعلق ذہن بناتا ہے اور اگر وہ علم شناس اور ادب فہم ہوتا ہے تو وہ اس سے استفادے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے۔ تبصرہ دراصل کسی کتاب کا وہ تعارفی خاکہ ہوتا ہے جس سے قاری کو کتاب کی نوعیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور کتاب کی افادیت سے بھی وہ باخبر ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن دنوں جو تبصرے لکھے جارہے ہیں، کیا وہ تبصرہ نگاری کے فن کے تقاضوں کو پورا کرپاتے ہیں، اس کا جواب نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ نئی کتابیں جو منظر عام پر آتی ہیں، ان میں سے چند نسخے صاحبِ کتاب اپنے بہی خواہ، دوست اور ہم مزاج ادیب و شاعر کی خدمت میں ارسال کرتا ہے اِس فرمائش کے ساتھ کہ ذرا زوردار تبصرہ لکھئے، کیوں کہ گزشتہ سال جب آپ کی کتاب شائع ہوئی تھی تو میں نے بھرپور تبصرہ لکھا تھا جسے ادبی حلقوں میں کافی پسند کیا گیا۔ ادبی اعتبار سے مقروض ادیب اس کتاب پر نہایت عالمانہ تبصرہ لکھنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس کوشش میں یہ بھول جاتا ہے کہ کتاب میں مواد کی نوعیت کیا ہے اور کتاب معیاری بھی ہے کہ نہیں۔ بس قصیدہ خوانی کے زیور سے آراستہ تبصرہ کا ایک ملغوبہ تیار ہوجاتا ہے۔ اس تبصرہ کو یا تو مصنف اپنے توسط سے کسی مقبول مع خاص ادبی رسالے کو روانہ کردیتا ہے، جس کے مدیر سے اس کے اچھے مراسم ہوتے ہیں یا خود مبصر اپنے طور پر ملک کے چند مؤقر رسائل اور معتبر اخبارات کو بھیج دیتا ہے۔ یہ تبصرہ مصنف کی جان و بیان کی خامی، تن آسانی، سطحی مواد آوری اور دور ازکار و بے سود مضامین کی نشاندہی سے یکسر پاک ہوتا ہے۔ کیوں کہ سچ لکھنے اور سچ برداشت کرنے کی نہ تو مبصر کو عادت ہوتی ہے اور نہ ہی مصنف کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کتاب کا تبصرہ تو ضرور شائع ہوتا ہے لیکن اس کتاب کے تبصرے کے ساتھ انصاف نہیں ہوپاتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک رجحان یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تھوڑا بہت ادب سے ذوق رکھنے والا شخص صاحبِ کتاب بننا چاہتا ہے۔ چنانچہ پہلے تو وہ کتابوں پر تبصرے لکھنے سے اپنی ادبی نگارش کا آغاز کرتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے تاریخ ادب اُردو کی بعض اہم کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے چند نامور ادبیات شخصیت پر مضامین لکھنے کی ابتدا کرتا ہے۔ چونکہ وہ زبان و بیان پر عبور نہیں رکھتا اس لئے کتاب سے من و عن مواد نقل کرکے اپنے نام سے اخبارات یا رسائل کی اشاعت کے لئے بھیج دیتا ہے اور یہ سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ایک سال کے اور اُس کے پاس اتنے مضامین جمع ہوجاتے ہیں کہ کتاب تیار ہوسکے۔ اب وہ اپنی ریاست کی اردو اکاڈمی میں مضامین کے مجموعے کو جزوی مالی تعاون کی درخواست کے ساتھ داخل کرتا ہے۔ ماہرین ادب اس غیر معیاری اور سطحی مضامین کے مجموعے کو جزوی مالی تعاون کی سفارش کرتے ہیں، جو ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ اب نوآموز مضمون نگار نہایت فرحت و شادمانی کے ساتھ کسی کمپوزر سے ٹائپ کراکے دہلی کے کسی مشہور پبلشر کو بھیج دیتا ہے اور یوں کتاب چھپ کر منظر عام پر آجاتی ہے۔ اب مصنف اپنی حصولیابی کا ڈنکا پیٹتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ اپنے دوست و احباب اور ادب نواز اصحاب کی خدمت میں نہایت احترام و خلوص کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ چند دنوں تک یہ کتاب ان افراد کے دیوان خانوں کی زینت بنی رہتی ہے اور پھر کسی ایسی جگہ وہ کتاب پہنچادی جاتی ہے، جہاں دوبارہ ہاتھ نہ جاسکے۔
آج کل اخبارات و رسائل میں جو تبصرے شائع ہورہے ہیں وہ ایک روایتی انداز کے حامل ہوکر رہ گئے ہیں۔ پوری کتاب پڑھنے کی ضرورت بھلا کہاں۔ مبصر تو بس کتاب کی سرسری ورق گردانی کرتا ہے۔
تبصرہ لکھتے وقت یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جس مقصد کے تحت کتاب لکھی گئی ہے اس کی تکمیل ہوتی ہے کہ نہیں اگر نہیں ہوتی ہے تو مبصر کو یہ بھی بتادینا چاہئے کہ کتاب اپنے اصل محور سے دور جاچکی ہے۔ غیر ضروری انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال سے احتراز کرنے کا مشورہ بھی تبصرے میں شامل ہونا چاہئے کیوں کہ بہت سے فاضل مصنفین اپنی قابلیت کا دھونس جمانے کے لئے عام افردو الفاظ کے لئے انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ان الفاظ کے نعم البدل اُردو میں موجود ہیں اور خوب مستعمل ہیں۔
آج کل کے تبصروں میں تبصرے کا ایک چوتھائی حصہ مصنف کی حصولیابی تعارف نامہ اور اس کے اعزازات و انعامات پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبصرہ کا نصف سے زاید حصہ مضامین کے عنوانات لکھنے اور اس کتاب کی ستائش میں صرف ہوجاتا ہے اور باقی کا آخر حصہ یہ لکھنے میں پورا ہوجاتا ہے کہ ’’یہ کتاب ادب کے ذخیرے میں ایک اہم اضافہ کا درجہ رکھتی ہے اس کے لئے مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں‘‘۔ حالانکہ تبصرے میں کتاب کے گیٹ اپ، جلد سازی، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، قیمت، ملنے کے پتے وغیرہ کا ذکر بہت کم ہی ہوتا ہے۔ تبصرہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر اور جامع ہو۔