تبدیلیٔ مذہب کا تنازعہ

کے پرتاپ ریڈی ۔ سینئر ایڈوکیٹ
یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کا ایک نیا تنازعہ پورے ملک میں شروع ہوچکا ہے ۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے جبکہ پوری دنیا دانشوری ، سائنٹیفک اور ٹکنالوجیکل ترقی کی جانب گامزن ہے تو ہمارا ملک نہایت فضول تنازعہ کا شکار ہوچکا ہے اور سماج کے کچھ طبقات اور خاص طور پر وہ لوگ جن کا تعلق اکثریت سے ہے ، اس طرح کے تنازعات کو ہوا دینے میں پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ لوگ اس ملک کو ایک بار پھر عہد وسطی میں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا منفی اثر ہمارے دستوری ہدف پر پڑے گا اور اس کا خاص طور پر ملک کے اتحاد اور سالمیت پر نہایت مضر اثرات واقع ہوسکتے ہیں ۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس بیماری کو ہمارے سماج کے دانشور افراد اچھی طرح پہچان رہے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے دانشوروں کی تعداد ایسی ہے ، جو اس بیماری کے علاج کی تدبیر سوچ سکتے ہیں ۔ اب ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بیماری کے ازالہ کے لئے سنجیدگی سے کوشش کریں ۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بیماری کے علاج کی تمام کوششیں اس بات پر مرکوز ہوتی ہیں کہ بیماری کی جڑ کیا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ جاننے کی کوشش کی جانی چاہئے تبھی ہم اس بیماری سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ورنہ یہ بیماری ہمارے پورے معاشرے کو تہس نہس کرکے رکھ دے گی ۔ بیماری کی جڑ یا اس کی وجوہات جاننے کے لئے ہمیں اپنے ملک میں موجود ذات پات کے نظام کو سمجھنا ہوگا کیونکہ آج بھی پورے ملک میں ذات پات کی لعنت پوری طرح سرایت ہوچکی ہے ۔ چھواچھوت ہندو مذہب میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اچھوت لوگوں کی حالت کیا ہے ۔ ماضی میں اچھوت لوگوں کی کیا حالت تھی ۔ انھیں تمام شہری حقوق سے محروم کردیا گیا تھا ۔ انھیں مرے ہوئے جانوروں کے ساتھ رہنے کے لئے مجبور کیا جاتا تھا ۔ یہاں تک کہ اگر وہ اونچی ذات کے لوگوں کے گاؤں میں روزمرہ کی مزدوری یا لیبر ورک کے لئے آتے تھے تو انھیں مجبور کیاجاتا تھا کہ وہ اپنے پیٹھ پر جھاڑو باندھ کر آئیں تاکہ ان کی تذلیل کی جاسکے ۔ کیونکہ ان اونچی ذات والوں کا ماننا تھا کہ جس راستے سے اچھوت گزرتے ہیں وہ راستے ناپاک ہوجاتے ہیں ، اس لئے وہ خود ہی ان راستوں کو ان جھاڑوؤں سے صاف کرتے واپس جائیں ، جن راستوں سے ہو کر وہ گاؤں کو آئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انھیں گاؤں میں آنا ہوتا تھا جو اونچی ذات والے افراد کی آبادی پر مشتمل تھا تو وہاں انھیں اپنی پیٹھ پر جھاڑو باندھ کر آنا پڑتا تھا ۔ اس طرح کی چند ایسی مثالیں جو غیر انسانی رویے کا اظہار کرتی ہیں ۔ ان اچھوتوں (پنچما) کے ساتھ جو برہمن ذات کے ہندو ہوا کرتے تھے اسی طرح کا غیر انسانی سلوک روا رکھتے تھے ایسی اور بھی بہت سی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں ، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے اونچے طبقات والے ان اچھوتوں کے ساتھ کس طرح ذلیل حرکتیں کیا کرتے تھے ۔

یہاں ہندوستان میں ہم اسلام اور عیسائیت کے آغاز کے بارے میں روشنی ڈالیں گے ۔ جب پرتگالی ، ڈچ اور انگریز تاجرین ہندوستان میں سترہویں صدی میں آئے تو عیسائی مشنری کی قیادت سینٹ تھومس کیا کرتے تھے ، انھوں نے دوسری صدی میں جیسس کرائسٹ کے مساوات کے پیغام کو ہندوستان میں دوسری صدی میں پیش کررہے تھے ۔ اسی طرح نام نہاد مسلم حکمراں نے تیرہویں صدی میں اسلامی اقتدار ہندوستان میں قائم کیا ۔ ہندوستان میں عرب تاجرین چھٹی اور ساتویں صدی میں آئے اور اپنے ساتھ مساوات اور برابری کا پیغام لے کر آئے ۔ پیغمبر اسلامﷺ کے انصاف ، انسانی ہمدردی اور آپسی پیار و محبت کے پیغام کے ساتھ یہ لوگ ہندوستان میں داخل ہوئے ۔ جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور کتاب ’’دی ڈسکوری آف انڈیا‘‘ کے باب ششم صفحہ 224 پر ہندو مسلم کلچر کے فروغ اور ہندو عرب تعلقات کے بارے میں نہایت اہم بات لکھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :۔

’’ہندوستان اور عرب کے درمیان تعلقات میں کسی طرح کی کشیدگی نہیں پائی جاتی تھی ۔ ہندو عرب کے رشتے تجارت کے ذریعے فروغ پائے ۔ سفارت خانوںکا تبادلہ عمل میں آیا ۔ یہ تجارتی اور ثقافتی روابط نہ صرف شمالی حد تک محدود تھے بلکہ ہندوستان کی جنوبی ریاستوں نے بھی اس میں حصہ داری نبھائی ۔ خاص طور پر ہندوستان کے مغربی ساحلی علاقوں کے راشٹرا کوتاز نے نہایت اہم رول ادا کیا ۔ ہندوستان میں عربوں کے تجارتی روابط میں مسلسل بہتری آنے اور دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے قریب آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانیوں کو اسلام کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ مشنریز کو بھی اپنے مذہب کی تعلیمات کو فروغ دینے کاموقع حاصل ہوا ۔ ہندوستان میں ان کا استقبال کیا گیا ۔ ہندوستان میں مسجدوں کی بھی تعمیر عمل میں آئی ۔ کسی بھی ریاست یا کسی بھی شخص نے اس کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی اس وقت کسی طرح کا مذہبی جھگڑا پایا جاتا تھا ۔ سارے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے ۔ ہندوستان کی یہ قدیم روایت رہی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو ان کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی حاصل تھی ۔ یہاں اسلام سیاسی طاقتوں کے عروج سے صدیوں پہلے آچکا تھا‘‘ ۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ برسوں سے ستائے گئے اچھوت (پنچما) برادریوں سے تعلق رکھنے والوں نے جب عیسائیت اور اسلام کے درس مساوات اور انسانیت کے پیغام کو سنا تو وہ اس سے کافی متاثر ہوئے اور وہ ان دونوں مذاہب کے قریب ہونے لگے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے ان مذاہب کو قبول کرلیا جن میں مساوات ، ہمدردی ، انسانیت کا درس ملتا تھا ۔ اس بات کے امکانات پائے جاتے ہیں کہ عیسائی مشنریز نے ہمارے ملک کے اچھوتوں کو مفت تعلیم اور رہنے کو گھر فراہم کیا ، لیکن اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے زبردستی ہندوؤں (اچھوتوں) کا مذہب تبدیل کرلیا ہو اور انھیں عیسائی بنایا ہو۔

سنگھ پریوار ان دنوں جو کچھ بھی کررہا ہے اور جس طرح کی وہ دلیلیں پیش کررہا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد کو زبردستی مسلمان اور عیسائی بنایا گیا تھا ، اس لئے اب ہم انھیں واپس اپنے دھرم میں لانا چاہتے ہیں ، بالکل خلاف عقل بات ہے ۔ دوسری بات یہ کہ سنگھ پریوار جو اس وقت پورے ملک میں تبدیلیٔ مذہب کی بات کررہا ہے اور جس طرح کی دلیل دے رہا ہے ، وہ بے بنیاد ہے ۔ دراصل سچائی یہ ہے کہ جن اچھوتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا ۔ جنھیں ستایا جاتا تھا ، ذلیل کیا جاتا تھا ، اس طبقہ نے برہمنوں کے ظلم و جبر سے تنگ آکر اپنی مرضی سے اسلام اور عیسائی مذہب قبول کیا ۔ اس میں کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں کی گئی ، کبھی کبھی یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ کچھ مسلم حکمرانوں نے کچھ برہمنوں کو زبردستی اسلام میں داخل کیا تھا ، لیکن ٹھیک اسی طرح دوسری جانب کچھ برہمنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہی برہمن اور اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے خود کو’’شدھی‘‘ کے ذریعہ دوبارہ اپنا مذہب قبول کرلیا ۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سنگھ پریوار جو دعوی کررہا ہے کہ ہم مذہب تبدیلی نہیں کرارہے ہیں ،بلکہ ان ہندوؤں کو اپنے گھر واپس لارہے ہیں ، جو برسوں قبل زبردستی مسلمان یا ہندو بنادئے گئے تھے ، یہ قطعاً درست نہیں ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ستائے ہوئے نچلی ذات کے ہندوؤں نے مجبوراً دوسرے مذاہب کو قبول کیا تھا ۔