کے این واصف
ہندوستان اپنی تاریخی عمارتوں یا آثار قدیمہ کی دولت کے اعتبار سے ایک متمول ملک ہے ۔ ملک کے طول و ارض میں صدیوں سے کھڑی ہماری تاریخی عمارتیں ملک کا بیش بہا خزانہ ہے، جن میں سے تاج محل کو تو عجائبات عالم میں شامل رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور یہ عمارتیں محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ہیں، جو ان کی نگہداشت کرتا ہے۔ فن تعمیر کے اعتبار سے یہ عمارتیں اپنی مثال آپ ہیں۔ دلی ، یو پی ، بہار ، حیدرآباد ، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے کچھ شہروں میں یہ تاریخی عمارتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں،جنہیں دیکھنے کیلئے ملکی بلکہ غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔
پچھلے دو ماہ سے ہم نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کر کے ان عمارتوں کی عکس بندی کی ہے جو ہمارے Indian Architectural Heritage پراجکٹ کا حصہ ہے ۔ اس پراجکٹ پر ہم 2000 ء سے مسلسل کام کر رہے ہیں اور اس سال ہم نے اس پراجکٹ کی عکس بندی کا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے اور کو جلد ہی ہم اسے ایک کتاب کی شکل دینے کے خواہاں ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہوئیں، ان تاریخی عمارتوں کی خوبصورت تصاویر کی نمائش کا اہتمام بھی کریں گے ۔ ویسے ہم نے 2005 ء سے اب تک مملکت سعودی عرب کے مختلف شہروں میں ہندوستانی سفارت خانہ ہند ریاض اور ہندوستانی قونصلیٹ جدہ کے تعاون سے اپنی تصویروں کی متعدد بار نمائش کی ہے ہیں جسے ہندوستانی کمیونٹی کے علاوہ دنیا بھر کے سفارت کاروں اور دیگر ممالک کے عام شہریوں نے دیکھا اور سراہا ۔ یہاں ہم سابق سفیر ہند ایم او ایچ فاروق اور تلمیذ احمد اور موجودہ قونصل جنرل ہند متعین شکاگو امریکہ ڈاکٹر اوصاف سعید کا خصوصی شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جن کے تعاون سے ہماری ان نمائشوں کا اہتمام ہوسکا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ Indian Architectural Heritage کے عنوان سے جاری ہمارے اس پراجکٹ سے بڑا فائدہ ہندوستانی سیاحت کو پہنچا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے محکمہ ٹورازم نے اس سلسلے میں آج تک ہماری کوئی مدد کی نہ ہمارے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون کیا ۔ اس پراجکٹ کے بڑے حصے کو ہم نے خود اپنے بل بوتے اور کچھ حد تک ریاض کے کچھ مخیر اصحاب کے تعاون سے مکمل کیا ہے لیکن اب جو بڑا کام باقی ہے وہ نئے تصویروں کی نمائش کا اہتمام کرنا اور کتاب کی اشاعت عمل میں لانا ہے جس کیلئے ایک بڑا سرمایہ درکار ہے۔
اپنے پراجکٹ کی تکمیل میں ہم نے پچھلے 14 سال میں ملک کے بہت شہروں اور ان میں موجود تاریخی عمارتوں کا دورہ کیا اور ان کی عکس بندی کی ہے ۔ ان تاریخی عمارتوں کے دورے کے موقع پر عکس بندی کے دوران پیش آئے کچھ مسائل ہم یہاں محکمہ آثار قدیمہ کے ارباب مجاز کو پیش کرنا چاہتے ہیں ۔
تاریخی عمارتوں کے اطراف کے ماحول کو خوبصورت اور سیاحوں کیلئے پرسکون بنانے کیلئے محکمہ آثار قدیمہ ان عمارتوں کے اطراف شجر کاری کرتاہے ۔ بہترین سبزازار (لانز) بنائے جاتے ہیں، جو ان عمارتوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ درخت ماحول کو ٹھنڈا رکھتے ہیں اور سیاحوں کو چند لمحے درختوں کے سائے میں آرام لینے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں لیکن یہ شجرکاری کرنے سے ارباب مجاز کو ایک مصور (فوٹو گرافر) کے زاویہ نظر سے بھی دیکھنا چاہئے کیونکہ عمارت کے بہت قریب اگائے گئے شجر چند سال بعد پھل پھول کر بڑے گھنے اور تناور ہوجاتے ہیں جو دیکھنے میں تو بھلے لگتے ہیں مگر ہم عمارت کو ایک فاصلے سے دیکھنا چاہیں اور اس کی تصویر کشی کرنا چاہیں تو یہ تناور درخت عمارت کے آدھے سے زیادہ حصے کو چھپا دیتے ہیں۔ عام سیاح جو ان عمارتوں کو اپنے موبائیل فون یا چھوٹے کیمرہ میں قید کرتے ہیں ان کیلئے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وہ سیاح جن کا شوق (Hobby) فوٹو گرافی ہے اور کسی خاص مقصد کیلئے تصویر کشی کر رہے ہیں تو یہ درخت ان کیلئے پریشانی اور خلل کا باعث بنتے ہیں کیونکہ کسی پر شکوہ اور بلند عمارت کی تصویر لینا ہو تو فوٹو گرافر کو ایک قابل لحاظ فاصلے سے تصویر کشی کرنی ہوتی ہے ۔
یہ کام عمارت کے قریب جاکر wide angle lens استعمال کر کے درمیان میں حائل ہونے والے درختوں کو نظر انداز کر کے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس سے عمارت کی تصویر کا زاویہ بگڑ جاتا ہے ۔ ایسی عمارت کی تصویر پوری کی پوری کیمرہ میں ریکارڈ تو ہوجاتی ہے لیکن اس کی شکل بگڑی ہوئی (Distorted) نظر آتی۔ ایسی تصویر کسی اعلیٰ مقصد یعنی مقالہ یا مضامین کے ساتھ شائع کرنے یا ان کو نمائش میں پیش کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ لہذا تاریخی عمارتوں کے اطراف کے ماحول کو پرفضاء بنانے اور شجر کاری کے ذریعہ خوبصورت بناتے وقت اس کو فوٹو گرافر کے زاویہ نظر سے بھی دیکھا جانا چاہئے کیونکہ ان مقامات پر ملک اور بیرون ملک سے ایسے ہزاروں فوٹو گرافر آتے ہیں جو ان پر شکوہ عمارتوں کی صحیح زاویہ میں تصویر بنانا چاہتے ہیں مگر عمارت کے آگے اونچے اور تناور درخت ہوں تو صحیح زاویہ میں تصویر کشی ممکن نہیں رہتی۔ یہاں ہم چند مصروف تاریخی عمارتوں کے نام لینا چاہیں گے ۔ جہاں شجر کاری کی گئی ہے اور یہ درخت عمارت سے کافی دور اُگائے گئے ہیں جو پروفیشنل فوٹو گرافرز کے کام میں مشکل پیدا نہیں کرتے ۔ ان عمارتوں میں ہمایوں کا مقبرہ (دہلی) اعتماد الدولہ کا مقبرہ (آگرہ) صفدر جنگ کا مقبرہ (دہلی) قطب مینار(دہلی) گول گنبد (بیجا پور) وغیرہ شامل ہیں۔ لگتا ہے کہ یہاں شجر کاری فوٹو گرافر کے زاویہ نظر کے مطابق کی گئی ہے ۔ مگر ہماری مایہ ناز عمارت تاج محل کے اطراف جو شجر کاری کی گئی ہے ان میں اکثر درخت اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ اب ایک قابل لحاظ فاصلے سے تاج محل کی مکمل عمارت نہیں دیکھی جاسکتی ۔
یہی حال بی بی کا مقبرہ اور اورنگ آباد کا بھی ہے۔ قطب شاہی حیدرآباد جو آج سے چند سال قبل تصویر کشی کیلئے بے حد موزوں تھے اب نہیں رہے۔ قلی قطب شاہ کی گنبد کے قریب ایک قطار میں تاڑ کے درخت (Palm Trees) لگائے گئے ہیں جس سے اب اس گنبد کی صحیح زاویہ میں تصویر کشی ممکن نہیں رہی۔ گنبد کے بڑے حصے کو یہ درخت چھپادیتے ہیں۔ سات گنبدان قطب شاہی ریاستی آثار قدیمہ کے تحت ہیں۔ ان گنبدوں کے اطراف کا ماحول بھی اب کوئی خوشگوار اور خوبصورت نہیں رہا جبکہ یہاں آنے والے سیاحوں سے کیمرہ استعمال کرنے کی فیس تک وصول کی جاتی ہے جبکہ سارے ہندوستان کی تاریخی عمارتوں کے پاس یہ طریقہ نہیں ہے۔ ہر جگہ صرف ویڈیو کیمرہ استعمال کرنے کیلئے فیس وصول کی جاتی ہے مگر Still کیمرہ استعمال کرنے کی کوئی فیس نہیں لی جاتی ۔ یہ فیس سیاحوں پر غیر ضروری ٹیکس کی طرح ہے جسے ختم کیا جانا چاہئے ۔ ایک آخری بات ، عثمانیہ یونیورسٹی کا شمار بھی ملک کی خوبصورت اور پرشکوہ عمارتوں میں ہوتا ہے ۔ آرٹس کالج کی بلڈنگ کے سامنے ایک حوض ہے جس میں فوارے لگے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ حوض پانی سے بھرا رہتا تھا اور اس کے فوارے بھی کام کرتے تھے جو اس عمارت کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے تھے۔ مگر افسوس کہ آج اس حوض سے پانی غائب ہے اور اس میں کچرا پڑا ہے جو اس بلڈنگ کے آگے ایک بدنما داغ لگتا ہے ۔ یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے کیونکہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد آنے والے سیاحوں کی اس فہرست میں شامل رہتی ہے جن عمارتوں کو دیکھنے سیاح حیدرآباد آتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جو تاریخی عمارتوںکیلئے بڑھ رہا ہے، وہ ہے غیر مجاز قبضوں کا جو ان عمارتوں کیلئے خطرہ ہے۔ بیدر میں مدرسہ محمود گاواں اب آبادی کے بیچ آگیا ہے اور اس سے متصل اور اس کے مقابل ہمہ منزلہ عمارتیں تعمیر ہونی شروع ہوگئیں ہیں جو اس تاریخی عمارت کے منظر کو تباہ کر رہی ہیں۔ ناجائز قبضوں کو روکا نہیں گیا تو ہماری کچھ تاریخی عمارتوں کا حال عظیم شاعر میر بابر علی انیس کے مقبرہ کا سا ہوجائے گا ۔ لکھنو شہر کے قدیم علاقہ میں واقع اس مقبرہ کے اطراف آبادی اس بے ڈھنگے انداز میں پھیل گئی ہے کہ اب میر انیس کے مقبرہ تک پہنچنے کیلئے اتنی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے جس میں سیکل رکشا کا گزرنا مشکل ہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ کو ایسے تمام مقامات کے تحفظ کیلئے فوری اقدام کرنے چاہیں جہاں ناجائز قبضے ہوئے ہیں یا جن کے قریب آبادیاں ہونے لگی ہیں ورنہ ہم اپنے تاریخی ورثوں سے محروم ہوتے جائیں گے ۔