بی جے پی ۔ نہ تیری دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی

غضنفر علی خان
بی جے پی کے دور حکومت مسلمان جن مصائب سے گذر رہے ہیں وہ سب کو دکھائی دے رہے ہیں۔ نہ صرف مسلم طبقہ کو بلکہ اس ملک کے تمام سیکولر طاقتوں کو بھی لب کشائی پر مجبور کردیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اگربی جے پی پر تنقیدکی جاتی ہے تو اس کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی سے وفاداری اور اس کی طرف داری ہی ملک سے محبت کا ثبوت ہے۔ اگر کوئی بی جے پی کی مخالفت کرتا ہے تو اُسے کیوں مخالف ہندوستان سمجھا جارہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ خیال عام نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص طبقہ کا انداز فکر ہے۔ یہ طبقہ فی الحال اقتدار پر ہے تو ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ عام ہندوستانی کے علاوہ کئی بیرونی ممالک میں یہ موضوع بحث بن گیا ہے کہ کیوں ہندوستان سے انہیں یہ شکایت ہوگئی ہے۔ ایک سے زیادہ بار کیوں سابق صدر امریکہ بارک اوبامہ کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ’’ہندوستان کی بقاء یہاں کے متنوع تمدن کی بقاء میں ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مختلف مذاہب ایک دھاگہ میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ کیوں ایمنسٹی انٹرنیشنل یا پھر امریکی تنظیم برائے مذہبی تحمل پسندی کو یہ کہنے کی ضرورت پڑی کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی خطرہ میں ہے۔ بات چھوڑیئے امریکہ کی‘ آج اس ملک میں گوشے گوشے سے مذہبی عدم تحمل پسندی کے خلاف آواز اُٹھ رہی ہے۔ اقلیتیں بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں۔ لیکن بی جے پی کے لیڈر امیت شاہ اور وزیر اعظم مودی اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ ہندوستانی عیسائی برادری کے مذہبی پیشوا نے اپنی برادری سے باقاعدہ اپیل کی تھی کہ ان کا طبقہ ایسی پارٹی کو ووٹ نہ دے جو مذہبی آزادی کا گلہ گھونٹتی ہے؟آخر کتنے حقائق سے آنکھ چرائی جائے گی۔ بی جے پی اور اس کی سرپرست اعلیٰ آر ایس ایس، سنگھ پریوار کے دوسری چھوٹی چھوٹی تنظیمیں جو صاف طور پر برملا یہ کہتی ہیں کہ وہ لوگ جو رام مندر کی از سر نو تعمیر کے مخالف ہیں اس ملک سے چلے جائیں۔ مثال کے طور پر حالیہ عرصہ میں وشوا ہندو پریشد کے ایک لیڈر نے سرینگر میں کہا تھا کہ رام مندر کا مسئلہ ابھی عدالت میں زیر دوران ہے اس کی سماعت پوری نہیں ہوئی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ مسلمانوں نے بار بار یہ کہا تھا کہ وہ عدالت کے کسی بھی فیصلہ کو تسلیم کریں گے جبکہ عدم تحمل پسند گروہ رام مندر کی اسی جگہ تعمیر کی رٹ لگاتے ہوئے گویا ہندو تنظیموں کو عدالت کے فیصلہ پر بھروسہ نہیں ہے۔ مسلمانوں نے توطئے کرلیا ہے کہ وہ قانون اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی فیصلہ کو مان لیں گے۔
غرض ایسے واقعات ہورہے ہیں کہ ملک کی تمام اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کرتشویش کی بات یہ ہے کہ یہ احساس دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ ابھی گذشتہ ہفتہ اُتر پردیش کے متنازعہ چیف منسٹر نے ایک نئی مشکل اس وقت کھڑی کردی جبکہ وہاں حکومت نے پابندی لگادی ہے کہ کوئی نماز کسی میدان، پارک یا کھلی جگہ پر ادا نہ کی جائے۔ کمال ہے مسلمان سال میں کتنی مرتبہ اجتماعی نمازیں ادا کرتے ہیں، دو عیدین اور ایسی ہی خصوصی نماز کے زمروں میں یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے کیوں قانون کو بڑی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں کونسی قانونی رکاوٹ ہے، کونسا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ نظم وقانون میں نمازوں سے خلل پیدا ہوتا ہے یہ بات حکم نامہ میں کہی گئی ہے۔ اب جبکہ بڑی جماعت کے ساتھ نماز میدان میں یا کھلی جگہ نہ پڑھی جائے تو آخر کہاں ادا کی جائے ۔ خانگی کمپنیوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اسٹاف کو میدان اور پارکس میں ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس سے پہلے بھی یوگی آدتیہ ناتھ چیف منسٹراُتر پردیش نے ایسے کئی اقدامات کئے ہیں جن سے مسلم طبقہ میں بے چینی اور اپنے غیر محفوظ ہونے کا احساس پیدا ہوگیا۔ اُتر پردیش ہی کے مقام دادری میں محمد اخلاق کا ہجومی تشدد میں المناک قتل کی واردات اور اس کے بعد بہلول خان، محمد جنید وغیرہ کا اس ہجومی تشدد میں قتل جیسے واقعات ہوئے ہیں۔ یو پی کے بلند شہر میں اسی ہجومی تشدد میں ایک پولیس انسپکٹر کو قتل کردیا گیا۔ دن دھاڑے قتل غارتگری کے واقعات ہورہے ہیں۔ مظفر پور، گجرات کو کیسے کوئی انسان دوست فرد بھول سکتا ہے۔ سوال ہندو یا مسلمان کا نہیں ہے سوال انسانی زندگی کا ہے، کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ اب انسانی جان اس کی زندگی بے حد سستی ہوگئی ہے۔ جہاں چاہے وہاں لوٹ مار، قتل جیسی وارداتیں ہورہی ہیں۔ عیسائی طبقہ بھی اس عدم تحمل پسندی اور زیادتی سے تنگ آگیا ہے پھر بھی اقلیتوں سے یہ امید کی جارہی ہے کہ وہ غیر محفوظ ہونے کا احساس بھی ختم کردیں۔ اس پر ذرا سی آواز کا بلند کرنا ان فرقہ پرستوں کو ناگوار گزرتا ہے۔ مسلمانوں کو بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا وطن عزیز چھوڑ کرچلے جائیں۔ حالانکہ اس وطن کی آبرو بڑھانے میں مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ہمیں وطن چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کا مشورہ دینے والوں سے زیادہ ملک کے دشمن کوئی اور نہیں،یہی فرقہ پرست طاقتیں ہیں جو ملک کے شیرازہ کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
ایسی ہر ناپاک کوشش کا ہندوستانی مسلمان ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان تنہا ان کا مقابلہ کر نہیں سکتے بلکہ ان کو عقل و ہوش سے کام لیتے ہوئے فرقہ پرستوں کو شکست دینے کیلئے ملک کی سیکولر طاقتوں کا ساتھ دینا پڑے گا۔ ان باتوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ فرقہ پرست سے بہت زیادہ کھلے ذہن اور مذہبی آزادی اور فراغ دل ہندو بھی ہمارے ملک میں رہتے ہیں۔ اب یہ سیکولر پارٹیوں کی ذمہ داری ہے وہ تمام اہل وطن کے ساتھ ہونے والی ان زیادتیوں کے مقابلہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے خلاف صف آرا ہوجائیں۔ مسلمانوں کو بھی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا پڑیگا۔ وہ اگر ریت کے ذروں کی طرح رہیں گے تو ان کو روندنے کی کوشش جاری رہے گی لیکن اگر مسلمان ایک ہوکر اپنے مسلکی تنازعات کو ختم کردیں، وطن چھوڑ کر ہم نہیں جانے والے۔

ہم نہ آئیں گے واعظ تیرے بہکانے میں
اس میخانہ کی مٹی رہے گی میخانہ میں
وطن چھوڑ کر جن کو جانا تھا وہ تو تقسیم کے وقت ہی چلے گئے، ہم جو آج اس ملک میں ہیں اس عہد کے ساتھ ہیں کہ ہم اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر کہیں اور جانے والے نہیں ہیں۔ عزم اور استقلال سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مٹھی بھر فرقہ پرستوں سے خوف کھانے کی ضرورت نہیںبلکہ پامردی، ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ عقل مندی اور فراست سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں دوبارہ صفوں میں کچھ ایسے بی جے پی کے وفادار بھی پیدا ہوں گے جو چند روپئے ، عہدہ کیلئے ہم سے دغا کریں گے۔ ہر دور میں ایسے عناصر رہے ہیں ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم آج عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بی جے پی اور نریندر مودی چاہے کچھ کہیں ہمیں اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے باعزت ہندوستانی باشندوں کی طرح جینے کا حق ہے اور یہ حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ایک سخت امتحان کا مرحلہ ضرور ہے، امتحان میں وہی قومیں ضرور کامیاب ہوتی ہیں جو ماضی کی ناکامیوں سے آئندہ کی کامیابیوں کیلئے خود کو تیار رکھتی ہیں۔