فلیویا ایگنس، ایڈوکیٹ
اس ملک میں دلت مسئلہ ابھر رہا ہے۔ دلت مسئلہ سے زیادہ کوئی اور مسئلہ بی جے پی حکومت کو اقتدار سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ گجرات جل رہا ہے اور وہ یو پی میں مایاوتی پر تنقید کر رہے ہیں۔ تھوڑی سی اونچی ذات کی لڑکی کو اپنے عشق کے جال میں پھانسنے سے قاصر رہنے پر ممبئی کے لڑکے لاتیں کھا رہے ہیں۔ بی جے پی ایسی کارستانیاں جتنی زیادہ کرے گی ، لوگ اس سے اتنے ہی زیادہ دور ہوتے جائیں گے اور آخرکار وہ اقتدار کھودے گی۔ قانونی اصلاحات کیلئے ان کا پس منظر ضروری ہے ۔ ہندو قانون ازدواج 1960 ء میں ہندوؤں کے لئے بنایا گیا تھا ۔ دستور ہند کی دفعہ 44 ایک یکساں سیول کوڈ کا تقاضہ کرتی ہے اور دفعہ 14 تعصب نہ برتنے کا ۔ پانچ سال بعد ہندوؤں کیلئے یہ قانون منظور کیا گیا ۔ کیا یہ دستور کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔ قانون صرف ہندوؤں کے لئے ہی کیوں؟
ایسا اس لئے ہوا کیونکہ اونچی ذات کی ہندو خواتین بہت پسماندہ ہوگئی تھیں۔ مسلمان ، عیسائی اور یہاں تک کہ پسماندہ طبقات کی ہندو خواتین ان سے آگے بڑھ گئی تھیں۔ اونچی ذات کی ہندو خواتین کو بیٹی کی حیثیت سے جائیداد میں کوئی حق حاصل نہیں تھا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ صنعتی رشتے تبدیل ہورہے تھے اور ہندو خواتین کو بااختیار بنارہے تھے لیکن ایک سیاسی ایجنڈہ بھی تھا ۔ برصغیر کی تقسیم ہوئی ۔حکومت جانتی تھی کہ اگر وہ کوئی مسئلہ اٹھائے گی تو خود ملک کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو الگ تھلگ نہیں کیا گیا ۔ حکومت نے سمجھا کہ پرسنل لا ہندوؤں کے لئے فوری مدون کیا جانا چاہئے ۔
ایسا کرنے کیلئے انہوںنے قانون ہندوستان کے جال کو مزید وسیع کیا اور کہاکہ جو شخص بھی ہندوستان میں پیدا ہوا ہو اور جو مسلم ، عیسائی ، پارسی یا یہودی نہیں ہے ، وہ ہندو ہے ۔ مملکت کو حق ہے کہ وہ لوگوں کی کثیر تعداد کیلئے قانون سازی کرے۔
ایک مسلمہ شادی کیلئے کونسی تقریب ضروری ہے ۔ کنیا دان اور سپت پدی ، کنیا دان کیا ہے ۔ یہ دے دینا ہے ۔ ایک بار دے دیا جائے تو وہ بیٹی باقی نہیں رہتی۔ خاندان کا رکن برقرار نہیں رہتی۔ اسے واپس آنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ میں سوال کرنا چاہتی ہوں کہ ہندوؤں کے لئے قانون سازی کے ذریعہ کیا صنفی رشتے اس حد تک تبدیل ہوجاتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر یکساں سیول کوڈ کی عمارت تعمیر کی جائے۔
ہندو سماج میں اب بچپن کی شادی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تازہ ترینے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 10 سال سے کم عمر کے ایک کروڑ 20 لاکھ بچے شادی شدہ ہیں۔ ان کی 84 فیصد تعداد ہندو ہے۔ چنانچہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندو قانون خاص طور پر یہ خاص قانون جس کے تحت بچپن کی شادی پر امتناع عائد کیا گیا ہے ۔ صنعتی رشتوں کو تبدیل کرسکا ہے ۔ مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں ہے لیکن بمشکل بچپن کی کوئی شادی انجام پاتی ہے۔
اب ’’ڈوری‘‘ (جہیز)کو ہی لیجئے ۔ کیا آپ کے خیال میں ’’ڈوری‘‘ کا رواج ختم ہوچکا ہے کیونکہ قانون منظور کیا جاچکا ہے ۔ آپ کو صدمہ برداشت کرنے تیار ہوجانا چاہئے ۔ میں ’’ڈوری‘‘ کی مخالف بالکل نہیں ہوں کیونکہ ہندو سماج میں لڑکی کو باپ کے انتقال پرکچھ نہیں ملتا۔ اگر بیٹی کو کچھ دیا بھی جاتا ہے تو دراصل وہ داماد کو دیاجاتا ہے ۔
والدین اپنی بیٹیوں کی شادی ایسے خاندانوں میں کیوں کرتے ہیں جہاں مطالبات کا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے اور عدم تکمیل پر تشدد شروع کردیا جاتا ہے ۔ خواتین کی زیادہ سے زیادہ تعداد میں اموات واقع ہورہی ہیں۔ انہیں زندہ جلادیا جارہا ہے یا قتل کردیا جارہا ہے کیونکہ والدین انہیں اپنے گھر میں واپس لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کیا اس کے لئے قوانین میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ؟ ہم فخر کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی قانون میں اصلاحات کی گئی ہیں اور ہمیں ان اصلاحات کو توسیع دینا ہے ؟
سپریم کورٹ نے 2002 ء میں شمیم آراء مقدمہ میں اور دانیال لطیف بنام حکومت ہند مقدمہ میں مسلم خواتین قانون کے تحت ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے تقریباً 30 درخواستوں کی سماعت کی ۔ قومی کمیشن برائے خواتین اور خواتین کی دیگر کئی تنظیموں نے مداخلت کی ۔ درخواست گزاروں کی باقی آدھی تعداد نے اپیل کی جو شوہروں پر مشتمل تھی ۔ اگر قانون شوہروں کے حق میں تھا تو وہ سپریم کورٹ سے کیوں رجوع ہوئے تھے ؟ اس قانون کے تحت کئی عدالتیں یکمشت معاوضہ کی ادائیگی کے فیصلے سنا رہی ہیں جن کی سپریم کورٹ کی جانب سے توثیق کی جاتی ہے ۔
لیکن عدالتیں کسی بھی چیز پر امتناع عائد نہیں کرسکتیں۔ اگر آپ کو طلاق پر امتناع عائد کرنا ہے جس کا فرقہ مخالف ہو تو پھر آپ اس فرقہ کو شہید کا مرتبہ کیوں دے رہے ہیں ۔ مسلم بورڈ کو شہید کا درجہ کیوں دے رہے ہیں ۔