بی جے پی کی نفرت انگیز مہم

نفرتوں کے سوداگر نفرتیں ہی بانٹیں گے
ہم نے بویا ہے کیکر آم کیسے پائیں گے
بی جے پی کی نفرت انگیز مہم
مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے اقتدار پر آتے ہی ملک میں فرقہ واریت کا زہر تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں اور عناصر کو اپنی سرگرمیوں کو کھلے عام وسعت دینے کا لائسنس مل گیا ہے اور وہ دھڑلے کے ساتھ اپنے ایجنڈہ کو عملی شکل دینے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ سرگرم ان دونوں خود بی جے پی کے گورکھپور کے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ پہلے تو وہ لو جہاد کے نام سے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے لگے تھے اور اب انہیں اس ملک میں ‘ جس پر صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اور جس کے آثار آج بھی پوری شان کے ساتھ موجود ہیں ‘ مسلمانوں کی آبادی کھٹکنے لگی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ ایک قومی ٹی وی چینل کے پروگرام میں یہ کہتے ہیں کہ جہاں کہیں مسلمان دس فیصد سے زیادہ آبادی رکھتے ہیں وہاں فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے اور جہاں کہیں ان کی آبادی 35 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے وہاں غیر مسلم کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جس وقت سے بی جے پی نے اتر پردیش میں ہونے والے ضمنی انتخابات کیلئے یوگی آدتیہ ناتھ کو انتخابی مہم کی ذمہ داری سونپی ہے اس وقت سے ان کے لب و لہجہ میں تبدیلی آگئی ہے اور وہ کھلے عام فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے اور سماج کے دو بڑے طبقات میں منافرت کی دیوار کھڑا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ویسے تو لوک سبھا انتخابات سے قبل بھی اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں مظفر نگر میںفسادات بھڑکائے گئے اور اب ضمنی انتخابات کیلئے بھی بی جے پی اسی فارمولے کو اختیار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حالیہ وقت میں بہار ‘ مہاراشٹرا اور کرناٹک کے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نریندر مودی کی نام نہاد لہر کا اثر ختم ہوجانے کے بعد ایک بار پھر اپنی پرانی روش کو اختیار کرتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کیلئے سرگرم ہوگئی ہے اور اسی کے ایک حصے کے طور پر یوگی آدتیہ ناتھ زہریلی زبان میں اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔ ایک طرف خود وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یہ کہتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی فرقہ کے خلاف کوئی امتیاز نہیں برتا جائیگا لیکن دوسری طرف ان کے رکن پارلیمنٹ زہر افشانی میں مصروف ہیں۔ آئندہ دو تا تین برسوں میں ملک کی اہم ترین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور چند مہینوں میں ملک کی چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونگے۔ ضمنی انتخابات کی شکست سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کا حالیہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کا نشہ اترنے لگا ہے اور اسی لئے اس نے فرقہ پرستی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس طرح سے یوگی آدتیہ ناتھ زہریلی لہجے میں بیان بازی کر رہے ہیں وہ ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کیلئے سازگار نہیں کہا جاسکتا۔ بی جے پی شائد یہی چاہتی ہے کہ فرقہ پرستی کا زہر سماج میں ایک بار پھر سرائیت کر جائے اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے۔ یہ بی جے پی کی جانب سے دستور اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی کوشش ہے۔ اس کوشش کو پوری طرح ناکام بنانے کیلئے سماج کے تمام طبقات کو آگے آنا چاہئے۔ خاص طور پر انصاف پسند اور سکیولر ازم کی حامی طاقتوں کو اور ملک کے عوام کو بی جے پی اس طرح کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جس طرح سے بی جے پی نے مظفر نگر میں فساد بھڑکا کر سیاسی فائدہ حاصل کیا ہے اسے اب ملک کے کسی اور شہر میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کرتے ہوئے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔ اگر بی جے پی اپنے عزائم میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ملک کے سکیولر ازم کیلئے خطرہ ہوگا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی زبان اور ان کا لب و لہجہ انتہائی اشتعال انگیز ہے اور اس سے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان کے بیانات کے خلاف برہمی کا اظہار کیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے متنازعہ ریمارکس ایک برادری کے خلاف کھلے عام زہر افشانی ہیں اور حکومت کو واقعتا ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اقلیتی برادری میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہئے۔ حکومت اگر یوگی آدتیہ ناتھ جیسے فرقہ پرست عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے تو دستور کے تئیں اس کی عدم سنجیدگی کا ثبوت ملیگا کیونکہ دستور ہند میں ہندوستان میں تمام برادریوں کیلئے مساویانہ حقوق رکھے گئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور دوسری فرقہ پرست طاقتیں اس ملک میں مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے عزائم جہاں اقلیتی برادری کیلئے خطرناک ہیں وہیں اس ملک کے دستور اور قانون کے بھی مغائر ہیں اور ایسے عناصر کو قابو میں کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔