مذکورہ اعلان وادی میں برہمی کی وجہہ بن گیا ہے۔ بی جے پی کیایہی چاہتی تھی
اگر جاریہ انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو ایک بات سامنے آہی ہے کہ نریندر مودی وزیراعظم کے طور پر دوبارہ واپسی کرتے دیکھائی دے رہے ہیں‘ مگر بھارتیہ جنتا پرٹی(بی جے پی) اکثریت سے محروم ہونے کی وجہہ سے کمزور دیکھائی دے رہی ہے‘ اب وقت ہے کہ پارٹی منشور میں کئے گئے اعلانات کا ہم بغور جائزہ لیں۔ان میں سے ایک جو میں توجہہ کرانا چاہتاہوں وہ کشمیر پر تشویش کا ہے۔
یہ نظر انداز نہیں کئے جانے والے ایک سنجیدہ چیالنج آنے والی حکومت کے لئے جس کو موجودہ حکومت نے خراب انداز میں سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔سال2014کے تقابل میں ہوم منسٹری کے اعداد وشمار کے مطابق 300فیصد دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پی ٹی ائی نے نیشنل سکیورٹی گارڈ کے نیشنل بم ڈاٹا سنٹر سے ملی جانکاری کے حوالے سے خبر دی ہے کہ 330فیصد بم دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے۔جموں کشمیر کے اتحادی سیول سوسائٹی کے مطابق پچھلے سال کشمیر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچھلے ایک دہے میں سب سے زیادہ رہی۔
آرمی ذرائع کے حوالے سے پی ٹی ائی نے جانکاری دی ہے کہ مقامی کشمیریوں کی دہشت گردی میں شمولیت پچھلے ایک دہی میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ آج کشمیری نوجوان میں‘ لڑکیوں میں یہ غیرمعمولی بات ہے کہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے ائے سکیورٹی دستوں پر پتھر بازی کریں۔
ان کم عمربچوں میں خوف دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے ہم نے انہیں الگ کردیاہے۔ایسے حالات میں بی جے پی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ پارٹی 370کو ہٹادے گی اور 35اے میں تبدیلی لائیگی۔ بی ج پی حامیوں کو چھوڑ کر ہر کسی کا یہی ماننا ہے کہ یہ حالات میں کشیدگی پیدا کرے گا۔
یہ چیزوں کو بدتر بنانے کے لئے کیاجانے والا کام ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ کیابی جے پی اپنے منشور میں جو کہتی ہے وہ ایک سیاسی حربہ ہے تاکہ ملک کے دیگر رائے دہندووں کے ووٹ حاصل کرسکے؟ کیونکہ پچھلے ہفتہ ہے‘ کچھ خدشات تھے مگر پھر جنرک سکریٹری رام مادھو نے کچھ ایسا کردیا جس سے الجھن پیدا ہوگئی۔ اننت ناگ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مذکورہ مسئلے پرپارلیمنٹ فیصلہ دے گا۔
مذکورہ بی جے پی کشمیر میں ”ترقی کے ایجنڈے پر کام کرری ہے‘ لہذا اس پر تمام تر توجہہ مرکوز کرے“۔ پھرانہو ں نے انسانیت‘ جمہوریت او رکشمیریت کے متعلق اپنی بات کو آگے بڑھایا‘ جو دودہوں پہلے واجپائی کا فارمولہ تھا۔
امیت شاہ اور راجناتھ سنگھ نے وادی سے بہت دور بارہ بنکی او رلکھنو میں مذکورہ ارٹیکل کو ہٹانے کی بات کی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ 370پر بی جے پی کو موقف 1990کے دہی سے تبدیل ہوتارہا ہے۔ سال1996اور1998میں اس کو ہٹانے کی بات کہی گئی۔
سال1999اور2004اس پر بذریعہ ایل کے اڈونی(24مارچ2004)کو برسرعام یہ کہتے ہوئے خاموش کردیا کہ اس کو ہٹانے کی سفارش کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔
سال2009اور2014میں بی جے پی نے پھر ایک مرتبہ اس کو ہٹانے کی سفار ش کا فیصلہ کیا۔
سال2015میں ایک سال بعد پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی(پی ڈی پی) سے ان کے اتحاد کے بعد 370پر ان کی سنجیدگی غیرمعنی ہوگئی۔
اور اب سال2019میں وہ دوبارہ اس کو ہٹانے کی سفارش پر کاربند نظر آرہے ہیں