غضنفر علی خان
ہر عروج کے بعد زوال کا آنا کائنات کے نظم مسلمہ اصول ہیں، کوئی سلطنت ، کوئی مملکت ، کوئی قوم اس عروج و زوال کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان میں کانگریس کی طوطی بولتی تھی ، اس کے مقابلہ میں نہ تو کوئی سیاسی پارٹی تھی اور نہ کوئی نظر یہ کام کرتا تھا ۔ رواداری ، تحمل پسندی کانگریس کی وسیع تر پالیسی کی خصوصیت تھی لیکن ملک میں زمانہ قدیم سے ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو رواداری اور وسعت پسندی کی سخت مخالفت کرتا تھا ۔ 1948 ء میں قومی رہنما آنجہانی گاندھی جی کے قتل کے بعد ان دونوں نظریات کا ٹکراؤ واضح ہوگیا ۔ آزادی کی تحریک میں صرف کانگریس ہی کا حصہ رہا ہے ۔ کوئی دوسری پارٹی یا دوسرا نظریہ کام نہیں کررہا تھا ۔ اکیلی کانگریس سیاسی میدان میں اپنے کرتب دکھاتے ہوئے 70 برس تک جمہوری ہندوستان پر حکمرانی کرتی رہی لیکن جو دوسری طاقت تھی جس کی نمائندگی ہندوتوا کی حامی آر ایس ایس کرتی ہے ، اس نے کبھی نچلا بیٹھنا نہ سیکھا اور طرح طرح سے صرف اپنے برائے نام وجود کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ، اپنے اور حکومت میں یہ کانگریس کی خوش بختی تھی کہ اسے بہترین قومی سطح کے لیڈرس ملے ۔ لیڈر اور پارٹی دونوں معاملوں میں کانگریس واحد جماعت رہی جو حکومت سازی اور حکمرانی کی حقدار رہی ہے ، البتہ کانگریس اس حقیقت کو نظر انداز کرتی رہی کہ ملک میں فرقہ پرست جماعتیں اور عناصر بھی ہیں ، ان کو نظر انداز کرتے ہوئے کانگریس اپنے نظریہ اور سیاسی فکر کو مستحکم نہ کرسکی ، اسی غفلت نے فرقہ پرست طاقتوں کو موقع فراہم کیا اور وہ آہستہ آہستہ عروج حاصل کرتی چلی گئیں ۔ ان طاقتوں کا یہ عروج کوئی اچانک حاصل ہونے والا عروج نہیں تھا بلکہ باقاعدہ طور پر ان طاقتوں نے یکے بعد دیگرے مختلف سیاسی مورچوں پر معقول اور موثر انداز میں حملے شروع کردیئے۔ پھر بھی کانگریس پارٹی اپنی حکمرانی کی نشہ میں اس کو بھی نظر انداز کرتی رہی ، نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے 70 سال بعد آج فرقہ پرست طاقتیں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں ۔ کانگریس پارٹی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ نہرو گاندھی خاندان کو ’’برگد کا پیڑ‘‘ سمجھتی رہی جس کے سایہ میں کوئی اور پیدا نہیں ہوسکتا۔ کانگریس کی یہ غلط فہمی تھی کہ اس خاندان کے علاوہ کوئی اور شخص قیادت نہیں کرسکتا۔ ہمیشہ خاندان ہی کے افراد اقتدار پر رہے۔ موجودہ صدر کانگریس راہول گاندھی اس خاندان کی چوتھی پیڑھی ہیں اور اگر آج بھی ہم جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس خاندان کے علاوہ اور کوئی شخص قیادت کا اہل نہیں ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس خاندان کے چوتھی پیڑھی نے جم کر حصہ لیا اور انتخابی مہم کے دوران یہ محسوس ہورہا تھا کہ چوتھی پیڑی یعنی نہرو کی پڑ نواسی پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی پارٹی کی عزت اور ناموس کو بچالے گی لیکن جیسے ہی 17 ویں لوک سبھا کے نتائج سامنے آئے اس وقت ہر کوئی حیرت زدہ ہوگیا کانگریس اتنی زوال رسیدہ ہوچکی ہے کہ 543 ارکان پارلیمنٹ میں اس کے اپنے 51 ارکان ہیں اور کانگریس ٹکٹ پر ہارنے والے بے شمار نمائندوں میں پارٹی کے صدر عالی مقام راہول گاندھی کا نام بھی سرفہرست ہے ۔ وہ اپنے خاندانی و آبائی انتخابی حلقہ امیٹھی سے ہزاروں ووٹوں کے فرق سے بی جے پی کی ایک امیدوار سمرتی ایرانی سے مقابلہ نہ کرسکے ۔
اس میں شک نہیں کہ راہول گاندھی کیرالا کے ایک اور حلقہ سے بھی مقابلہ کر رہے تھے جہاں سے انہیں کامیابی حاصل ہوئی ۔ یہ کوئی بہت بڑی کامیابی اس لئے نہیں سمجھی جاسکتی ہے کہ اصل مقابلہ امیٹھی سے تھا ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی سب ہی نے شمالی ہند کے ان دونوں حلقوں امیٹھی اور رائے بریلی سے کامیابی حاصل کی تھی ، اپنے آبائی حلقہ سے فرار ہوکر ایک اجنبی اور دراز کے جنوبی ہند حلقہ سے راہول گاندھی کی کامیابی اتنی ہی غیر اہم ہے جتنی کہ کانگریس کے اور امیدواروں کی دوسرے حلقوں سے نا کامی ہے ۔اب راہول گاندھی ورکنگ کمیٹی میں بڑی شرمندگی اور ندامت کے ساتھ استعفیٰ پیش کر رہے ہیں۔ ’’بعد از خرابی خواجہ بیدارشد‘‘ سب کچھ ہونے کے بعد ان کا عہدہ پر برقرار رہنا یا مستعفی ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ اصولاً تو کانگریس کی قیادت کے پورے ڈھانچہ کو بدل دینا چاہئے ۔ موجودہ قیادت سچ پوچھئے تو بی جے پی کی قیادت یعنی مودی کے مقابل کوئی دم خم نہیں رکھتی۔ ان انتخابات سے پہلے ضرور یہ احساس تھا کہ شاہد و داشتی اور خاندانی روایات کے تحت راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کوئی کرشمہ دکھائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ اب پارٹی کے مختلف گوشوں سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ تمام سینئر لیڈرس کو مستعفیٰ ہوکر پارٹی کے کم عمر لیڈرس کو فرائض سونپی جانی چاہئے لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ کانگریس پار ٹی کے کم عمر نوجوان لیڈرس میں کوئی اس قابل نہیں ہے کہ جو قومی سطح پر پا رٹی کی نمائندگی کرسکے ۔ را ہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے دخل کے باوجود پارٹی کا ایسا حشر کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا ۔
ایک گوشہ سے یہ بات بھی کہی گئی کہ جب تک کانگریس پا رٹی نرم ہندوتوا کا کارڈ کھیلتے رہے گی ، اس وقت بی جے پی کو شکست نہیں دے سکے گی ۔ سخت ہندوتوا کا نظریہ کانگریس اپنا نہیں سکتی کیونکہ یہ نظریہ پا رٹی کے بنیادی اصولوں کے عین برعکس ہے تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہندوستان متضاد سیاسی نظریوں میں تقسیم ہوگیا ہے ۔ ہندوتوا کے حامی مودی اور ان کی پارٹی میں تمام مہم کے دوران ملک کے ہندو بھائیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی۔ اب یہ صورتحال ہے کہ ہندوستان میں ہندو ووٹرس بلا شبہ بی جے پی کی گرفت میں ہیں یا کم از کم وہ بی جے پی کے علاوہ کسی اور پارٹی کو اپنے ووٹ کا حقدار نہیں سمجھتے ۔ اگر ایسی صورت میں کانگریس اگر سخت ہندوتوا کارڈ کھیلے گی تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ پارٹی کی قیادت کون کرے اور کب تک کرے اس کا فیصلہ کانگریس کو کرنا ہے ۔ جہاں تک پالیسی کا تعلق ہے ، اس کو عوام میں زیادہ مقبول بنانا پارٹی کا کام ہے۔ فی الحال ایسے کوئی آثار تو نہیں دکھائی دے رہے ہیں کہ کایا پلٹ ہوجائے گی ۔ کم از کم پانچ ، دس سال میں کچھ ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے یعنی ہندوستانی عوام میں سیکولر فکر کو از سر نو پروان چڑھانا بہت مشکل کام ہے ۔ اگرچہ کہ یہ کام ناممکن نہیں ہے لیکن اس کو ممکن بنانے کیلئے جس اخلاص نیت کا مادہ چاہئے وہ کانگریس میں بھی نظر نہیں آتا ۔ انتخابات کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک میں مسلم رائے دہندوں کی اہمیت باقی نہیں رہی ۔ کم از کم بی جے پی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف ہندو رائے دہندوں کے بل بوتے پر چناؤ جیت سکتی ہے ۔ یہ بھی انتخابات کا ایک درد ناک پہلو ہے۔ صرف مسلم قیادت یہ کہہ سکتی ہے کہ ’’یا رب تیرے یہ سادہ لوح بندے کدھر جائیں‘’ اور اپنے سیاسی ، سماجی ، معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے کس کے پاس رجوع ہوں، کیا مسلم سماج آئندہ چار پانچ سال میں کوئی موثر قیادت پیدا کرسکتا ہے ، اگر نہیں تو پھر ساری قوم کو دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنا پڑے گا ۔ اللہ ہم پر رحم و کرم کا معاملہ کرے ۔