اس کی کامیابی کے درپردہ حقائق سے اپوزیشن ناواقف
ڈی کے سنگھ
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں 17 ویں لوک سبھا انتخابات کے موقع پر اکثریت کا یہ گمان تھا کہ سیاسی ،سماجی ،معاشی اور اخلاقی اعتبار سے ناکام ہوچکی مودی حکومت دوبارہ اقتدار میں نہیں آئے گی اور ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ معلق پارلیمانی حکومت بنے گی لیکن انتخابات کے بعد جو نتائج سامنے آئے ہیں اس میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی شاندار کامیابی نے سب کو چونکا دیا اور ساتھ ہی انتخابات کے نتائج کے شفاف ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات 2019 کے متعلق پہلے ہی کئی شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں اور اب اس حوالہ سے ایک سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چار ریاستوں کی کئی نشستوں پر ووٹ شماری جملہ رائے دہی سے زیادہ کی گئی ہے۔ جن نشستوں کے حوالہ سے یہ انکشاف ہوا ہے اس میں تین ہائی پروفائل نشستیں بہار کی پٹنہ صاحب، جہان آباد اور بیگو سرائے شامل ہے۔ ان تمام حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی انتخابات میں کیوں اور کیسے کامیاب ہوئی ہے؟۔ اس سوال کے ساتھ مزید کئی سوالات بھی منسلک ہیں جیسا کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ ہندوستان میں 2014 سے مودی لہر چل رہی ہے تو یہ سوال لازمی ہے مودی کی لہر کیوں چل رہی ہے؟ اگر ایسی کوئی لہر ہے تو نوٹ بندی کا اس پر کوئی اثر کیوں نہیں ہوا؟ اگر یہ مان لیاجائے کہ بی جے پی کی کامیابی میں آر ایس ایس کا کلیدی کردار ہے تو یہ سوال اْٹھ کھڑا ہوگا کہ آر ایس ایس کس طرح سے بی جے پی کی مدد کرتی ہے؟ یہ سوال بھی سامنے آئے گا کہ کیا فرقہ وارانہ کشیدگی کے اثرات انتخابات کی ہار اورجیت پر پڑتے ہیں؟ مزید اگریہ مان لیا جائے کہ بی جے پی ناقابل تسخیر ہے تو یہ سوال پوچھا جائے گا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو بہاراسمبلی انتخابات میں اسے کیوں شکست ہوئی تھی؟ کیو ں مدھیہ پردیش اور راجستھان اس کے ہاتھ سے نکل گئے؟ اوریہ کہ آئندہ بی جے پی کی کامیابی کا انحصار کن باتوں پر ہے؟
2017 میں ایک انگریزی کتاب ہاؤ دی بی جے پی ونس؟ یعنی بی جے پی کیسے کامیاب ہوئی ؟منظر عام پر آئی تھی، کتاب اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے بعد لکھی گئی تھی او راس میں بہار اسمبلی انتخابات کا تفصیلی حوالہ بھی شامل تھا۔ اس کتاب میں کسی سے اپنی وفاداری کا اظہار کیے بغیر غیر جانبداری کے ساتھ مصنف پرشانت جھا نے مذکورہ سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے اوراپنی اس کوشش میں وہ یقیناً کامیاب رہے ہیں۔ پرشانت جھا ایک صحافی ہیں، وہ آج کے نیپال پر ایک کتاب لکھ چکے ہیں، یہ ان کی دوسری کتاب ہے، اس کے لیے جہاں انہو ں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے رازداروں سے بات کی ہے وہیں عام لوگوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں اورملک بھر کا سفر کرکے بی جے پی کے عروج اور زوال کی بنیادی وجوہات کی تلاش بھی کی ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے جو سوال قائم کیا ہے یعنی بی جے پی کیسے جیتتی ہے؟ اس کا جواب دینے سے کہیں بھی بھٹکتی نہیں ہے اور غیرجانبداری سے ہندوستان کی سب سے طاقتور الیکشن مشین پر ایک نظر(یہ کتاب کا ضمنی عنوان ہے) دے کر اس کے اندرون کو عیاں کردیتی ہے۔2019 کے الیکشن میں مودی او ربی جے پی کی کامیابی کے بعد پرشانت جھا نے کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ ثابت ہوگیا ہے۔
پرشانت جھا نے اپنی کتاب کو 8 ابواب میں منقسم کیا ہے اس میں پہلا باب تعارف کا ہے یعنی اپنی ساری بات انہوں نے سات ابواب میں کی ہے اورپوری کتاب کو 228 صفحات میں سمیٹ دیا ہے۔ کتاب کے مواد کا نچوڑتعارف کے باب میں کروایاگیا ہے اور اسی نچوڑکو آگے کے ابواب میں تفصیلی طور پر ، اعدادوشمار اور واقعات کے ذریعے بیان کیاگیا ہے۔ کتاب کا دوسرا باب مودی ہواکے عنوان سے ہے چونکہ کتاب کا ڈھانچہ اترپردیش کے 2017 کے اسمبلی انتخابات پرکھڑا کیاگیا ہے اس لیے بات وہیں سے شروع کی گئی ہے۔ پرشانت جھا لکھتے ہیں نہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی تھی، نہ ہی ریاستی لیڈر تھے، نہ ہی امیدوار تھے او رنہ ہی یہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ تھا۔ بی جے پی کے لیے اترپردیش کو صرف ایک شخص نے جیتا، وزیر اعظم نریندر مودی نے۔ پرشانت جھانے مودی ہوا کا ذکر کرتے ہوئے یوپی کے شہروں، گلیوں، دیہاتوں میں مودی کی حمایت کرنے والوں سے یہ سوال بار بار دریافت کیا ہے کہ انہوں نے مودی کی حمایت کیوں کی؟ ان کے بقول اس سوال کا انہیں کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا بس ایک شخص پر ان کا غیر معمولی اعتقاد تھا، اس کی نیت اور ا سکے ایمان پر اعتماد تھا۔ لیکن یہ اعتقاد او ربھروسہ بڑی ہی احتیاط اور ہوشیاری سے بنائی گئی ساکھ اور ایک نئی امیج کا نتیجہ تھا۔2002 میںگجرات کے مسلم کش فسادات اسی سال ہوئے تھے مودی کوہندو ہردیہ سمراٹ بنایاگیا پھر انتہائی ہوشیاری کے ساتھ مودی کی امیج وکاس پرش کی بنائی گئی اور2007 کے بعد اس امیج کو اْجاگر کیاگیا۔گجرات ماڈل کا خوب ڈھول پیٹا گیا اور ان دونوں ہی امیجوں کی بنیاد پر2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے تاریخی کامیابی حاصل کی، پھر 2017 میں یوپی پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی بنیاد بھی ان ہی دونوںامیجوںپرکھڑی ہوئی۔ اب تیسری بات ہوئی ہے نریندر مودی آج غریبوں کے نیتا ہیں، اس کے ساتھ ہی ان کے دونوں ہی پرانے اوتاربھی برقرار ہیں، اس طرح مودی نے سوٹ بوٹ کی سرکار کے الزام کو مکمل طو رپر مسمار کردیا ہے۔ جہاں ہندو لیڈر کے طو رپر اورگجرات ماڈل کے معمار کے طو رپر مودی کی ساکھ بنائی گئی وہیں گجرات پر13 برسوں کی حکومت کا تجربہ بھی مودی کے کام آیا جبکہ راہول گاندھی کو انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ مودی ایک ایسے قائد کے طو رپر سامنے لائے گئے جو پاکستان کو سبق دے سکتا تھا اور اعلیٰ ذات کی خواہشات کی تکمیل بھی کرسکتا تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کو اس حد تک پروان چڑھایاگیاکہ نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کے برے اثرات نظر انداز کرکے لوگوں کے ووٹ بی جے پی کو گئے۔ انہیں یہ لگا کہ کالا دھن واپس آئے گا تو ان ہی کے کام آئے گا۔ عوام کے ذہنوں میں بی جے پی یہ بات بٹھانے میں کامیاب رہی کہ بدعنوان دولت مند اسٹبلشمنٹ کے خلاف یہ ایمانداری کی جنگ ہے۔ بی جے پی نے اجولا اسکیم سوچھ بھارت اورجن دھن اکائونٹس کا فائدہ اْٹھایا، گاؤں، غریب اورکسان کا نعرہ لگایا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ راہول گاندھی کے تمام نعرے بے کار گئے۔ میں بی جے پی صدر کی یوپی میں بالخصوص اور دوسری ریاستوں میں بالعموم بی جے پی کی تنظیم سازی بھی کامیابی میں شامل ہے۔ امیت شاہ ایک فرقہ پرست لیڈر تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے نظریے سے قطع نظر یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے جس طرح بی جے پی کو یوپی او رپھر دوسری ریاستوں میں اپنے قدموں پر کھڑا کیا وہ کانگریس یا کسی دوسری سیکولر پارٹی کا کوئی قائد نہیں کرسکا۔ ضلع اور تعلقہ کی سطح سے بوتھ کی سطح تک بی جے پی کو متحرک کرنا اور اس طرح سے کرنا کہ وہ لوگوں کو نظر آئے ایک بڑا کام تھا، ایک ایسا کام جس نے بی جے پی کو عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنادیا اوران لوگوں میں بھی بی جے پی نے جڑیں پکڑلیں جو بی جے پی سے پہلے دور تھے۔ سوشل انجینئرنگ بھی بی جے پی کی کامیابی میں اہم رول ادا کرچکی ہے ۔ امیت شاہ او نرریندر مودی کی ان ذاتوں کو بی جے پی کے د امن میں سمیٹنے کی کوششیں قابل ذکر ہے جو سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اورکانگریس سے اس لئے ناراض تھیں کہ ان کے بقول یادو برادری اور جاٹو برادری اور مسلمانوں کو ساری مراعات حاصل تھیں اور وہ سماج وادی پارٹی ، بی ایس پی، اور ایس پی کو ووٹ دینے کے باوجود بھی محروم تھے۔ پچھڑوں ،نچلے طبقات اور دلتوں کو بی جے پی نے کس ہوشیاری سے اپنے ساتھ ملایا اس کی تفصیلات بھی بے حد دلچسپ ہیں۔ کئی جگہ انہیں یہ احساس دلایاگیا کہ انہیں اعلیٰ ذات پر فوقیت دی جائے گی، ان میں جو بااثر تھے انہیں بی جے پی میں عہدے دیے اوراسٹیج پر ساتھ بٹھایاگیاتاکہ یہ واضح پیغام جائے کہ بی جے پی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔امیت شاہ نے دھیرے دھیرے پارٹی کو کم مراعات یافتہ افراد کی پارٹی میں تبدیل کیا، ساتھ ہی ان کی حمایت بھی حاصل رکھی جو مراعات یافتہ تھے۔بی جے پی نے اوبی سی کو زیادہ سے زیادہ ٹکٹ دے کر تمام ذاتوں کو پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ہندو ایکتاکی ڈور میں باندھ دیا۔
زیادہ تر انتخابی مقابلوں میں بی جے پی کو سنگھ کی مدد حاصل رہی ہے لیکن آر ایس ایس نے اپنے پورے تنظیمی ڈھانچے ،ذرائع ،افراد اورسنگٹھن کو متحرک کرکے جس بڑے پیمانے پر 2014 میں بی جے پی کی مدد کی، ویسی پہلے کبھی نہیں کی تھی۔سنگھ کا کام بظاہر سیدھا سادا ہے، گھروں سے رائے دہندگان کو نکال کر بوتھوں تک پہنچانا، لیکن اس آسان کام کیلئے، جو سیاسی نتائج کو تبدیل کرسکتا ہے، صحیح رائے دہندگان کو شناخت کرکے، ان تک ذاتی طور پر پہنچنے ، انہیں قائل کرنے، سازگار سیاسی ماحول تیار کرنے، تنظیمی مدد کرنے، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں پارٹی کمزور ہو او رطلباء ، مزدوروں، خواتین اور قبائلیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر تنظیمی کام کرکے ان کے نیٹ ورک کو متحرک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور آر ایس ایس یہ کام بغیر سامنے آئے کرتی چلی آئی ہے۔2014 اور2017 میں اس نے یہ کام بڑے پیمانے پرکیا۔ لیکن صرف امیج ، ساکھ ، مضبوط تنظیمی ڈھانچے، سوشل انجینئرنگ یا آر ایس ایس کی بڑے پیمانے پر مدد سے ہی کوئی انتخابات نہیں جیتا جاسکتا۔ پرشانت جھا کے مطابق الیکشن جیتنے کیلئے ہندو مسلم عناد بی جے پی کیلئے ایک اہم عنصر ہمیشہ رہا ہے۔کتاب کا چھٹا باب دی ایچ ایم ،چناؤیعنی ہندو مسلم چناؤ کے عنوان سے ہے۔ پرشانت جھا نے اس باب میں پوری تفصیل کے ساتھ بی جے پی کی ان حرکتوں سے پردہ اْٹھایا ہے جو وہ ہندوؤں اورمسلمانوں میں فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کرنے کیلیے جائز سمجھ کر کرتی چلی آئی ہے اور2019 میں بھی کیا ہے۔ پرشانت جھا لکھتے ہیں کہ اپنے اس مقصد کیلئے بی جے پی پروپیگنڈے اور جھوٹ کا سہارا لیتی چلی آئی ہے۔ وہ مسلم مخالف فسادات میں ملوث رہی ہے او راس کے نتیجے میں جو غصہ اور تشویش پیدا ہوئی ہے اس کا فائدہ اْٹھا تی رہی ہے۔ بی جے پی چھوٹے پیمانے پر لیکن نا ختم ہونے والی کشیدگی پیدا کرتی اورپہلے سے پائی جانے والی کشیدگی کو مزید ہوا دیتی ہے تاکہ دوستوں، پڑوسیوں، دیہاتوں اور ورکروں میں مذہبی بنیاد پر دراڑ پیدا ہوجائے۔
ا س طرح بقول مصنف بی جے پی کی جھولی میں ووٹ بھی آگرتے ہیں اوراسے ہندو سماج کو متحدکرنے کا موقع بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ جھا (مصنف) مظفر نگرفسادات کی مثال دیتے ہیں، یہ فسادات جھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ تھے۔ جھوٹے ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے تھے او ربی جے پی کو یہ سب کرنے میں کسی طرح کی شرم نہیں محسوس ہوئی تھی۔ ہندو مسلم دشمنی کو ہوا دینے میں بی جے پی کا یہ پروپیگنڈہ خوب کام آیا کہ اس ملک میں وہ سیاسی پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی چلی آرہی ہیں اور ہندوؤں کو نظر انداز یہ وہ پروپگنڈہ تھا جس نے بہت سارے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اْکسایا اوراس کے نتیجے میں بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوا۔ ایک پروپیگنڈہ ہندوؤ ں کے غیر محفوظ ہونے کا بھی تھا مثال کیرانہ کی لے لیں۔ یہ جھوٹ پھیلایاگیا کہ مسلمانوں کے ظلم سے تنگ آکر ہندوکیرانہ چھوڑکر دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کومسلم نواز پارٹی کے طور پر پیش کیاگیا ، بی جے پی نے خود کو ہندوؤںکا محافظ قرار دیا۔ لوجہادکے نعرے نے بھی ہندوؤں کے غیر محفوظ ہونے کے احساس میں شدت پیداکی اوربقول پرشانت جھا بی جے پی سارے جھوٹے پروپیگنڈے ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ کرتی رہی۔ 2017 میں بی جے پی ہندوؤںکو یہ احساس دلانے میں کامیاب تھی کہ یوپی کو مسلمانوں یعنی دہشت گردوں سے بچانے کیلئے ہندوئوں کو جاگنا اور بی جے پی کو ووٹ دینا ہوگا لیکن (مصنف) پرشانت جھا اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اگر اپوزیشن اپنے کارڈ صحیح طو رپر کھیلے تو ہندوکارڈ بی جے پی کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے، جیسے کہ 2015 میں بہار میں ہوا، بی جے پی وہاں لالو اور نتیش گٹھ بندھن کے مقابلے ہاری تھی۔
آج بی جے پی حاوی ہے تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہے، بلاشبہ گزشتہ تین برسوں کے دوران کئی جگہ وہ ہاری ہے او راس کی بہت ساری کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ بی جے پی کی ہار اور جیت کا انحصار کانگریس اور علاقائی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد اور سیکولر وسماجی انصاف کی ان جگہوں پر جنہیں وہ خالی چھوڑ چکی ہیں دوبارہقابض ہونے کیلئے پر تول رہی ہے۔ بصورت دیگر بی جے پی جیتتی رہے گی اور مودی وزیر اعظم کی گدی پر بیٹھے رہیں گے۔ بی جے پی کی تازہ جیت یہ ثابت کرتی ہے کہ کانگریس اور علاقائی سیاسی پارٹیوں نے گزشتہ ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔