عام انتخابات 2014ء ۔ انتخابی تجزیہ
نئی دہلی ۔ 11 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ملک میں 9 مرحلوں میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے 4 مرحلے مکمل ہوچکے ہیں۔ اس طرح 543 پارلیمانی حلقوں میں سے 111 حلقوں میں رائے دہی کا عمل پورا ہوچکا ہے جبکہ 12 مئی کو رائے دہی کا آخری مرحلہ منعقد ہوا اور پھر 16 مئی کو 16 ویں لوک سبھا کے انتخابی نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشیل میڈیا میں نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہونے اور کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے کے صفائے کی پیش قیاسیاں کی جارہی ہیں۔ اب تک جتنے بھی سروے یا اوپنین پول سامنے آئی ہیں اس میں بی جے پی کی کامیابی اور کانگریس کی شکست ظاہر کی گئی ہے
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ فی الوقت ہندوستان میں اخلاقی صحافت کی بجائے ’’زر خرید صحافت‘‘ کو اسی طرح فروغ دیا جارہا ہے جس طرح سنگھ پریوار فرقہ پرستی کو فروغ دے کر ہندوستان کے پرامن ماحول میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی کوشش کررہی ہے۔ میڈیا بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی باتیں کررہا ہے لیکن آثار قرائن سے اس بات کا پتہ چل رہا ہیکہ 543 رکن پارلیمنٹ میں بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے یا کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے یا وفاقی اتحاد کسی کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہوگی اور کوئی بھی اتحاد اکثریت حاصل کرنے کیلئے درکار 272 کے جادوئی عدد تک نہیں پہنچ سکے گا۔ آر ایس ایس کو اس بات کی غلط فہمی ہیکہ مودی ملک کے 81.45 کروڑ رائے دہندوں کی تائید پارٹی کے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم اس کا یہ انداز خام خیالی ہی ثابت ہوگا۔ ویسے بھی بی جے پی قائدین کو اچھی طرح معلوم ہیکہ 272 کے جادوئی عدد تک پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
زمینی حقائق سے پتہ چلتا ہیکہ بی جے پی جس نے 430 امیدوار میدان میں اتارے ہیں، 160 تا 190 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جبکہ اس کے 28 سے زائد حلیف جماعتیں زیادہ سے زیادہ 30 تا 32 نشستیں ہی حاصل کرپائیں گی۔ ان حالات میں اسے تشکیل حکومت کیلئے مابعد انتخابات مزید جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ ایسے میں وہ کشکول گدائی لئے ٹاملناڈو میں جیہ للیتا کی اے آئی اے ڈی ایم کے یا کروناندھی کی ڈی ایم کے، اڈیشہ کی بیجو جنتادل، ہریانہ میں چوٹالہ کی آئی ایس ایل ڈی اور آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر سی اور کے سی آر کی ٹی آر ایس کے ہاں پہنچ سکتی ہے۔ جہاں تک جیہ للیتا کی پارٹی سے بی جے پی کی مابعد انتخابی مفاہمت کا سوال ہے جیہ للیتا خود عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی خواہاں ہے۔ وہ وفاقی اتحاد پر نظریں جمائے ہوئے ہے جو غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی اتحاد ہے۔ جیہ للیتا کو امید ہیکہ اے آئی اے ڈی ایم کے، مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس اور یو پی میں مایاوتی کی بہوجن سماج وادی پارٹی (تینوں خواتین سربراہوں کی جماعتیں) تقریباً 100 نشستیں حاصل کریں گی۔
ان حالات میں بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کیلئے جیہ للیتا کسی خاتون کو عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز کرنے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بائیں بازو کی جماعتوں اور کانگریس سے تشکیل حکومت میں تعاون کرنے کی خواہش کریں گی لیکن عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے ان کی خواہش میں دیگر دو خواتین مایاوتی اور ممتابنرجی رکاوٹ بن سکتی ہیں کیونکہ دونوں بھی چاہتی ہیںکہ اس مرتبہ اس باوقار عہدہ پر کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود فائز ہوں۔ واضح رہیکہ ہندوستان کے 81.45 کروڑ رائے دہندوں میں خواتین رائے دہندوں کی تعداد تقریباً نصف ہے جبکہ ان انتخابات میں 10 کروڑ نئے رائے دہندوں کا بھی اضافہ ہوا جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اب رہی بات وائی ایس آر سی اور ٹی آر ایس کی تو اس سلسلہ میں مابعد انتخابات ٹی آر ایس، بی جے پی سے اتحاد کرنے میں سب سے آگے ہوسکتے ہیں جبکہ جگن موہن ریڈی بھی بی جے پی کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی کے سی آر ماضی میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرچکے ہیں۔ اگر کے سی آر بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے میں شامل ہوتے ہیں تو وہ ایسی کشتی میں سوار ہوں گے جہاں ان کے کٹر سیاسی حریف تلگودیشم کے چندرا بابو نائیڈو بھی بیٹھے ہوں گے۔
فی الوقت بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے میں جو 28 سے زائد پارٹیاں شامل ہیں، ان میں تلگودیشم 25 نشستوں پر، شیوسینا 21 ، ڈی ایم ڈی کے 14، شرومنی اکالی دل 10 ، جی ایم کے 8، ایم ڈی ایم کے 7، ایل جے پی 7، آر ایل ایس پی 3 ، اپنا دل 2، ہریانہ جان ہٹ کانگریس 2، سوامبھی مانی یکشا 2 کے علاوہ دیگر پارٹیاں ایک ایک نشست پر مقابلہ کررہی ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 7 اپریل تا 12 مئی منعقد ہونے والے یہ عام انتخابات ہندوستان کی تاریخ میں سب سے طویل ترین انتخابات ہیں جن کے انعقاد پر 35 تا 50 ارب روپیوں کے مصارف آرہے ہیں۔ اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کے مصارف امریکی انتخابات سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ 2012ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے 7 ارب ڈالرس خرچ کئے تھے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانے 5-8 ارب ڈالرس خرچ کرسکتی ہیں۔ اس کے باوجود ایک بات طئے ہیکہ بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس مرتبہ بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اور ملک میں مخلوط حکومت ہوگی۔