مولانا قا ضی محمد عبدالحئی قاسمی
مال و دولت میں سب سے مقدم اپنا اور بیوی بچوں کا والدین اور دیگر اقارب کا حق ہے ، بعض لوگ ان کے بجائے دوسرے نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، جیسے مساجد کی تعمیر یا غریبوں اور مساکین پر صدقہ خیرات وغیرہ ، اس کے مقابلہ میں بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو اسے کوئی بڑا ثواب کا کام نہیں سمجھتے جبکہ شریعت نے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو بڑا ثواب اور بہترین صدقہ قرار دیا ہے۔
حضرت جابر بن سمرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال و دولت عطا کرے تو اسے چاہئے پہلے اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ، ( مسلم ) اس کے حسب مراتب دیگر رشتہ داروں ، فقراء اور مساکین پر خرچ کرے ، گویا مال و دولت میں سب سے مقدم خود اپنا اور بیوی بچوں کا ہی حق ہے۔
کئی روایات میں رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ خرچ کرنے میں اپنے عیال سے ابتدا کرو ، ( متفق علیہ ) ایک دوسری روایت میں مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا آدمی کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ ( ترمذی )
بیوی بچوں کا نفقہ اور معاشی ضروریات کی تکمیل ان کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام تو حقوق واجبہ میں سے ہے ، اس معاملہ میں کوتاہی اللہ کے نزدیک آدمی کو گنہگار اور مستحق سزا بنادیتی ہے ، ایک حدیث میں بیویوں کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، کہ شوہروں پر بیویوں کا حق ہے کہ ان کو کھلانے اور کپڑا پہنانے میں ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ ( ترمذی )
بیوی بچوں پر خرچ کرنا ایک عظیم نیکی ہے ، اخلاص کے ساتھ خوش دلی سے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوتا ہے ؛ بلکہ اللہ کے یہاں جنت کا مستحق بن جاتا ہے ، بعض روایات میں ایسے شخص کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی معیت اور رفاقت کی خوشخبری بھی سنائی، حضرت انسؓ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ، جس نے دولڑکیوں کی پرورش کی وہ اور میں اس طرح جنت میں داخل ہوں گے، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ فرمایا ، ( ترمذی) اْم المومنین اْم سلمہؓ کے پہلے شوہر ابو سلمہؓ تھے جن سے انھیں اولاد بھی تھی ان کے انتقال کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں آئیں ، انھوں نے اپنے بچوں کے بارے میں دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ابو سلمہؓ کے بچوں پر خرچ کرنے میں مجھے اجر ملے گا ؟ جب کہ وہ میرے بچے ہیں میں انھیں یوں ہی چھوڑ نہیں سکتی ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، ہاں ، جو کچھ تم ان پر خرچ کروگی اس کا تمہیں ضرور اجر ملے گا۔ ( متفق علیہ )
اْم المومنین حضرت عائشہؓ ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت میرے پاس کچھ مانگنے کے لئے آئی اس کے ساتھ دو بچیاں بھی تھیں ، اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا میں نے وہ کھجور اسے دے دی ، اس نے کھجور کے دو حصے کئے اور دونوں بچیوں میں تقسیم کردیئے ، خود کچھ نہ کھایا اور وہاں سے چلی گئی ، نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے اس عورت کا یہ واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جس کسی کو بھی بچیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گے۔ ( متفق علیہ )
اسلام نے نہ صرف بیوی بچوں پر خرچ کرنے کا حکم دیا ؛ بلکہ اپنے انتقال کے بعد بھی اولاد کی معاشی خوشحالی رکھتے ہوئے ایک تہائی سے زیادہ مالی وصیت کو غیر درست اور باطل قرار دیا ، یاد رکھو تم اپنے وارثوں کو مال دار اور خوشحال چھوڑ جاؤگے ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ، جان لو کہ تم اپنے مال کا جو بھی حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کروگے تو تمہیں اس کے خرچ پر ضرور ثواب ملے گا۔ ( متفق علیہ ) (سلسلہ جاری …)