محمد نعیم وجاہت
ہمارے سماج میں خاندان کا وجود بہت اہمیت رکھتا ہے، جو ہماری تہذیب اور اخلاقی معیار کی گواہی دیتا ہے۔ خاندان کے بڑے بزرگ اپنے چھوٹوں کی رہبری کرتے ہیں، بچوں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں اور مشکل وقت میں بہتر فیصلہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ آج بھی اگر ہم اپنے معاشرہ پر نظر دوڑائیں تو ایسے کئی خاندان مل جائیں گے، جن میں آنکھیں کھولنے والے اور بزرگوں کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے بچوں میں اخلاق پایا جاتا ہے اور ان کے رہن سہن میں کافی فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل بڑے خاندانوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے، یعنی بڑے خاندان بکھر کر چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں تقسیم ہو رہے ہیں، جس کا بچوں کی زندگی پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
ماضی میں بڑے خاندان کا تصور خوش آئند بات تھی، ایک ہی چھت کے نیچے دس تا پندرہ افراد ہنسی خوشی رہا کرتے تھے۔ خاندان کے تمام ارکان کے درمیان پیار و محبت ہوا کرتی تھی، خاندان کے افراد خوشی اور غم مل جل کر بانٹ لیا کرتے تھے اور اپنے جذبات کا ایک دوسرے کے سامنے اظہار کیا کرتے تھے، جس سے ان کی خوشی میں دوگنا اضافہ ہوتا تھا اور غم کی حالت میں ان کا غم بٹ کر دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا۔ اس کے برعکس اب ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، جن سے دل رنجیدہ ہوتا ہے اور دیکھنے سننے والوں کے دل سے آہ نکلتی ہے۔ اِس وقت ہم سب کو محاسبہ کی ضرورت ہے، کیونکہ بڑے خاندانوں کے بکھرنے کا اثر معاشرے پر پڑ رہا ہے۔ لوگ اس کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں، مگر اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
پہلے زمانے میں گھر کا ایک فرد کماتا تھا، باقی تمام لوگ کھاتے تھے، جس کی وجہ سے لوگوں کی کمائی میں کافی برکت ہوتی تھی۔ آج گھر کے بیشتر لوگ کما رہے ہیں، مگر ہمارے گھر برکت سے خالی ہیں، یعنی ہماری خود غرضی ہمارے خاندان کے لئے ناسور بن گئی ہے۔ زمانے کی تیز رفتار ترقی نے عوام کو مشین بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ پہلے خاندانوں کو دیکھ کر شادی بیاہ کے رشتے طے کئے جاتے تھے، جس میں بڑے بزرگوں کا اہم رول ہوا کرتا تھا، لیکن آج کل رشتے خاندان کو دیکھ کر کم اور ڈگریاں دیکھ کر زیادہ طے پاتے ہیں۔ ہمیں ڈگریوں اور بچوں کی پسند کی شادیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس موضوع پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں، اس وقت ہمارا موضوع ’’خاندان کا بکھراؤ اور اس کے منفی اثرات‘‘ ہیں۔
بڑے خاندان کا تصور آج مفقود ہو گیا ہے، تاہم چند بڑے خاندان آج بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا کوئی فیصد تو باقی نہیں رہا، لیکن ان خاندانوں کو دیکھ کر چھوٹے اور بڑے خاندانوں کا فرق ضرور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ پیار، محبت اور بڑوں کے ادب و احترام میں بھی کمی ہو گئی ہے، جسے ہماری تربیت کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔ گزشتہ اَدوار میں دادا دادی، نانا نانی، چچا چچی، ماموں ممانی، پھوپا پھوپی، خالہ خالو کے علاوہ رشتہ کے بھائی بہنوں کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوا کرتے تھے۔ تقاریب اور محفلوں میں سب ایک دوسرے کا تعاون کرتے تھے۔ گھروں میں بڑے بزرگوں کی موجودگی کو کافی اہمیت دی جاتی تھی، کیونکہ بچوں کی نگہداشت اور پرورش میں خاندان کے بڑوں کا اہم رول ہوتا تھا۔ اگر بچے کوئی غلطی کرتے تو وہ انھیں صرف ڈانٹتے نہیں تھے، بلکہ صحیح اور غلط کی تمیز بھی سکھایا کرتے تھے، جب کہ خاندان کے دیگر افراد بچوں کو اپنے بڑوں کی ہدایت پر عمل کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ اس سے بچوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا تھا اور اُن کے دِلوں میں اپنے بڑوں کا احترام مزید بڑھ جاتا تھا۔
بڑے بزرگ بچوں کو ڈانتے ضرور تھے، لیکن اسی طرح ان سے پیار اور محبت بھی کیا کرتے تھے۔ بچوں کو اپنے خاندانی حالات اور مرحوم بزرگوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے تھے، جس سے بچوں کے دِلوں میں ان کی چاہت پیدا ہوتی تھی۔ چھٹیوں کے دنوں میں تمام رشتہ دار ایک دوسرے کے یہاں آیا جایا کرتے تھے، جس سے آپسی میل جول میں اضافہ ہوتا تھا، خاندان کے بچے ایک دوسرے سے ملتے اور ان میں بے تکلفی پیدا ہوتی تھی، لیکن اب یہ سب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔
بڑے خاندانوں کے بکھرنے کا ایک اثر یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ رشتوں میں کڑواہٹ پیدا ہو گئی ہے، یہاں تک کہ اب بھائی بھائی ایک چھت کے نیچے رہنے کی بجائے علحدہ گھر بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اب تو بڑے بزرگ بھی اپنے بچوں کو ایک چھت کے نیچے رکھنے میں بے بس نظر آرہے ہیں، کیونکہ موجودہ نسل دادا یا والد کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک اپنے بڑوں کے فیصلوں کا احترام باقی ہے۔ اب تو حالات بالکل برعکس نظر آرہے ہیں، کیونکہ اب والدین اپنے بچوں کو سمجھانے کی بجائے ان کے مشوروں پر عمل کر رہے ہیں، جس کے سبب ہماری دوریوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات تو تسلیم کی جاسکتی ہے کہ کمپیوٹر کے دَور کے بچے بہت اڈوانس ہو گئے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بڑے بزرگ ناکارہ ہو گئے ہیں، جب کہ موجود دَور میں ایک باپ کی ذمہ داری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر والدین اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اسے بخوبی نبھائیں تو ان کا خاندان خوشحال رہے گا۔
اس سلسلے میں سب سے اہم کارنامہ خواتین انجام دے سکتی ہیں، افراد خاندان کو متحد رکھنے اور ان کے درمیان محبت کو پروان چڑھانے میں وہ اہم رول ادا کرسکتی ہیں، کیونکہ گھر کو بنانے اور بگاڑنے میں خواتین کا اہم رول ہوتا ہے، لہذا مرد حضرات کے ساتھ خواتین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بہتر معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنا مکمل تعاون پیش کریں۔ خاندان کے بکھراؤ کا اثر زیادہ تر بچوں میں دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ زمانے کی ضروریات کے لحاظ سے آج شوہر اور بیوی دونوں مل کر کما رہے ہیں۔ جب دونوں ملازمت کریں گے تو اپنے بچوں کو وقت بھی کم دے سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ان کی مجبوری ہو، لیکن اس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ بچے اپنے بڑوں کی تربیت اور والدین کی شفقت سے محروم ہو رہے ہیں۔ جب والدین ملازمت کی غرض سے گھر سے باہر رہتے ہیں تو بچوں کو ملازمہ یا ملازم کے سپرد کردیا جاتا ہے، یا پھر بچوں کو گھر میں مقفل کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو ٹیلی ویژن دیکھنے یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کی ہدایت دی جاتی ہے، تاکہ وہ ان کاموں میں مصروف رہیں اور غیر موجودگی میں کسی طرح کی ہنگامہ آرائی نہ کریں۔ یہ سب کرکے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی، مگر بچوں پر اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ کبھی کبھی ماں باپ کی غیر موجودگی میں یہ بچے آپس میں لڑ جاتے ہیں اور بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، جس کا اثر چھوٹوں میں یہ دیکھا گیا کہ وہ اپنے بڑوں کا احترام نہیں کرتے۔ شام میں والدین جب گھر واپس ہوتے ہیں تو ان کے سامنے شکایتوں کا انبار لگ جاتا ہے، لیکن وہ بچوں کو تنبیہہ کرنے یا انھیں صحیح تربیت دینے کی بجائے معاملہ کو رفع دفع کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں میں غلطیوں اور ندامت کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے اوروہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہی صحیح ہے۔
ان حالات سے متاثرہ بچوں میں ایک نفسیاتی مرض یہ پیدا ہو رہا ہے کہ وہ ضدی ہو جاتے ہیں، کیونکہ بچوں کو گھر میں تنہا رکھنے کے لئے انھیں کھلونے یا ان کے من پسند کھانے کی اشیاء فراہم کرنے کا لالچ دیا جاتا ہے، جس کا اثر بچوں پر غلط مرتب ہو رہا ہے اور وہ اپنی بات یا خواہشات منوانے کے لئے ضد کرنے لگتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب بچے اپنی بات منوانے کے لئے اپنے والدین کو بلیک میل کر رہے ہیں، جب کہ یہ رُجحان معاشرہ کے لئے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔
آج کل یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ بچوں کی پرورش و پرداخت میں والدین کی ترجیحات الگ الگ ہو گئی ہیں، یعنی دونوں کسی ایک بات پر اتفاق نہیں کرتے، جس کا فائدہ بچے غلط اُٹھا رہے ہیں۔ جس بات کو ماننے کے لئے والد تیار نہیں ہوتے، اسے والدہ سے منوا لیتے ہیں اور جو بات والدہ نہیں مانتی، اسے والد سے منوا لیتے ہیں۔ یعنی بچوں کی خواہش پوری کرنے میں بھی ماں باپ کے درمیان تضاد پایا جا رہا ہے۔ دراصل والدین اپنے اپنے کاموں میں اتنے زیادہ مصروف ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہے، جب کہ دُنیا کے سامنے وہ یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے بہت زیادہ فکرمند ہیں اور یہی سبب ہے کہ ہم دونوں مل کر ملازمت کر رہے ہیں۔ مگر وہ اس بات پر توجہ نہیں مرکوز کرتے کہ ان کی اس بے توجہی کا اثر ان کے بچوں کی زندگی پر کتنا پڑ رہا ہے۔ تعلیم کے معاملے میں والدین اپنے بچوں کو کسی کی تقلید کا مشورہ ضرور دیتے ہیں، لیکن ان کی اخلاقی گراوٹ پر ان کی نظر بالکل نہیں جاتی، جس کی وجہ سے بچوں میں ذمہ داری کے احساس کا فقدان پیدا ہو رہا ہے۔ گھر کے بڑے بزرگوں اور والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنانے کی فکر کریں اور صحت مند معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں اہم رول ادا کریں۔