بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں قمر الزماں کی اپیل مسترد، سزائے موت برقرار

ڈھاکہ ، 3 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) بنگلہ دیشی عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے ایک رہنما کیلئے سزائے موت کا حکم برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے جماعت کے قائد مطیع الرحمان نظامی اسمیت ایک اور رہنما کو بھی سزائے موت کا حق دار قرار دے دیا گیا تھا۔ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے آج بروز پیر محمد قمرالزماں کی اپیل مسترد کرنے اور ان کیلئے سزائے موت برقرار رکھنے کے فیصلے کا مطلب یہ ہے اب اس سزا پر عمل در آمد آئندہ چند ہی ماہ کے دوران متوقع ہے۔ 1971ء میں پاکستان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب پر محمد قمرالزماں کو بنگلہ دیشی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے 2013ء میں موت کی سزا کا حق دار قرار دیا تھا۔ فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کو ملکی عدالت عظمیٰ نے 3 نومبر کو مسترد کر دیا۔ بعد ازاں وکیل دفاع تاج الاسلام نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر نظر ثانی کیلئے درخواست دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل محب عالم کے بقول سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے امکانات کم ہی ہیں اور جیسے ہی قید خانے کے حکام کو اس فیصلے کے بارے میں پتہ چلے گا، اس پر عمل در آمد کیا جا سکتا ہے۔ 62 سالہ جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل قمرالزمان پارٹی کے ایسے دوسرے سینئر رہنما ہوں گے، جن کی سزائے موت پر عمل در آمد ہو سکتا ہے۔ اگرچہ تاحال پیر کو سنائے جانے والے فیصلے کے بعد کسی فوری ناخوش گوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے تاہم جماعت کی طرف سے چہارشنبہ سے اڑتالیس گھنٹوں کی ہڑتال کال دی گئی ہے۔ اس مقدمے کے تناظر میں ڈھاکا میں سکیورٹی کے کافی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ دارالحکومت کی سڑکوں پر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ڈھاکا کی پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر سیف الرحمان کے بقول حکام کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ محمد قمرالزماں کو جنگ آزادی کے دوران وسیع پیمانے پر قتل عام، تشدد، اور اغواء کی متعدد وارداتوں میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ مقدمے کی کارروائی سہاگ پور نامی ایک سرحدی گاؤں سے متعلق تھی، جس میں قریب 120 نہتے کسانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کارروائی کے سبب سہاگ پور کا نام ’ولیج آف ووڈوز‘ یا بیواؤں کا دیہات پڑ گیا تھا۔ مقدمے کی سماعت میں تین بیوا عورتوں نے قمرالزمان کے خلاف گواہی دی تھی۔ مقدمے کے دوران استغاثہ نے قمرالزمان پر البدر نامی ملیشیا کے منتظم ہونے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔