بنگلہ دیش داخلی انتشار کا شکار

کلدیپ نیر

جب کبھی بھی میں بنگلہ دیش گیا میں نے یہ محسوس کیا ایک ادارہ یا دوسرا ادارہ اپنا اعتماد کھوچکا ہے ۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کی باری تھی ۔ اس بار عدلیہ نشانے پر ہے ، جہاں ایک بہت بڑے وکیل کو قتل کردیا گیا ۔

جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جو ملک حکومت کے استحصال کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اب وہ ملک اس عوام کے لئے ایک غیر مفید اور دور ازکار بن چکا ہے ۔ وہاں کے عوام اب اپنے وجود اور اپنی شناخت کے لئے جد و جہد کررہے ہیں ۔ یہاں کے عوام اب بھی فوجیوں کے زیر سایہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ فوج وہاں کے شب و روز کے امور میں دخل اندازی نہیں کرتی ہے ۔ لیکن یہاں ہم ایک ریٹائرڈ اعلی فوجی عہدیدار کی بات نقل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس نے کہا کہ ’’ہم نے یہاں ایک بار حکمرانی کا فریضہ انجام دیا تھا اور ہم نے یہ محسوس کیا کہ یہاں کے عوام یہاں کی الجھن کی شکار حکومت کے مقابلے ڈسپلن والی فوجی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہیں‘‘ ۔
آج بھی چیلنج کم و بیش اسی طرح کا ہے ،لیکن کسی دوسری شکل میں ۔ وزیراعظم شیخ حسینہ اقتدار کو خود اپنی ذات تک محدود اور مرکوز رکھنا چاہتی ہیں ، وہ نہایت اہم اور کلیدی عہدوں پر اپنے وفاداروں کو فائز کررہی ہیں ۔ انھوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور جو ان کی حکمرانی کا موجودہ طریقہ ہے وہ وہاں کے عوام کے مفاد کے مغائر ہے ۔ وہاں کے عوام اپنے حقوق اور اختیارات سے بخوبی واقف ہیں اور آزادانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اپنی آزادی کے امتیازات سے اچھی طرح باخبر ہیں ۔

وزیراعظم شیخ حسینہ کا پارلیمنٹ پر کنٹرول ہے ۔ بغیر سوچے سمجھے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے عوامی لیگ کے لئے کھلی جگہ فراہم کردی اور یہ وہ پارٹی ہے جو بنگلہ دیش پر حکمرانی کررہی ہے ۔ شیخ حسینہ نے پارلیمنٹ میں 60 فیصد سے زائد نشستیں حاصل کیں ۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ تازہ انتخابات ملک کے لئے زیادہ بہتر ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بہت اچھا سامنے نہیں آیا ۔ یہاں تک کہ جن ارکان پارلیمنٹ کی کبھی کوئی شناخت نہیں تھی ، لیکن جب وہ منتخب ہو کر آئے تو انھوں نے یہ احساس دلایا کہ ان کی مقبولیت کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل ہوئی ۔
یہ نہایت برا ہوا ۔ حالانکہ الیکشن کے آغاز میں برسراقتدار پارٹی کو اپنی بے یقینی اور منفی نتائج کا احساس ہورہا تھا ، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ وہاں کے الیکشن کے بارے میں لوگوں کے نظریات بھی جدا جدا ہیں ۔ مجھے خدشہ اس بات کا ہے کہ حسینہ جو اپوزیشن سے سخت نفرت کرتی ہیں ،ممکن ہے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے اور اقتدار پر قابض رہنے کے بعد شاید وہ اپنی اس ذہنیت میں تبدیلی لائیں ۔ عوام کو اس بات پر بھروسہ ہے کہ موجودہ وقت میں جو حالات پیدا ہوگئے ہیں اس سے نمٹنے میں حکومت کی انتظامیہ کامیاب ہوگی جیسا کہ ماضی میں حالات کو سدھارنے اور صورت حال کو کنٹرول میں لانے کے لئے کامیاب ہوئی تھی ۔
موجودہ سیاسی منظر نامہ میں عدلیہ کی خود مختاری اور آزادی کی بحالی ضروری ہے ۔ حالانکہ ایک صحافی جو کم و بیش دو دہائیوں سے عدلیہ کے امور پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس موضوع پر اخبارات میں لکھتے آرہے ہیں ، انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’’عدلیہ کے بیشتر حصے میں کرپشن نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں‘‘ ۔ فیصلے فروخت ہونے لگے ہیں ۔ ججس کے فرزندان انہی عدالتوں میں اپنی حصہ داری نبھاتے ہیں ،جہاں ان کے والد یا چچا عدلیہ کے امور سنبھالتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کی صورت حال کافی بگڑ چکی ہے ۔

وزیراعظم شیخ حسینہ نے ججس کی تقرری میں ہنگامہ برپا کردیا ہے ۔ بنگلہ دیش کے دستور کے مطابق صدر ججس کی تقرری وزیراعظم کی رائے لے کر اور اس کی منظوری کے بعد ہی عمل میں لاسکتا ہے ۔ شیخ حسینہ نے رضامندی اور رائے کا مطلب اپنی خود مختاری اور خودپسندی تصور کرلیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جن وکلاء نے بھی برسراقتدار حکومت کی تھوڑی بہت بھی حکم عدولی کی ، اسے اس کے عہدے سے برخاست کردیا گیا یعنی ججس کے عہدے سے انھیں ہٹادیا گیا ۔ مبینہ طور پر یہ بات سامنے آرہی ہے کہ عدالتوں میں جو فیصلے ہوتے ہیں وہ دولت کے بل پر کرائے جاتے ہیں ۔ اس لئے اب عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری خطرے میں پڑگئی ہے ۔ کوئی بھی تقرری کو چیلنج نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ چاہے مرد ہو یا عورت اسے دشمنوں کی صف میں شمار کیا جانے لگے گا یا دشمن کی حمایت کرنے والے کے طورپر اسے دیکھا جانے لگے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اپنی جانب جم غفیر کو راغب کررہی ہے اور لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آرہے ہیں ۔ لیکن جو لوگ بھی پارٹی لیڈر ان کو سننے آرہے ہیں یہ ضروری نہیں وہ ان کے حامیوں میں سے ہیں ۔ برسراقتدار پارٹی کی تنقید ہر شخص کی زبان پر ہے ۔ یہاں کے عوام مہنگائی کی مار سے پریشان ہیں اور افراط زر بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ۔

اس کے سب سے اہم اور وفادار حامی وہ لوگ ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔ ان کی بنیاد پرستی آج بھی وہاں اثر انداز ہے اور حیرت انگیز طور پر پاکستان موافق عناصر بھی وہاں کسی نہ کسی حد تک کام کررہے ہیں ۔ ایک مصدقہ رپورٹ یہ بھی ہے کہ ان کی تعداد 20 فیصد تک جاپہنچی ہے ۔ کسی بھی تضاد کے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عوامی لیگ کے جو اصل حامی ہیں ، ان کی تعداد 30 تا 35 فیصد تک ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے روابط دوستانہ ہیں اور اس کا کریڈٹ شیخ حسینہ کو جاتا ہے ، کیونکہ انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہوئی تلخی کو کم کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ ہندوستان مخالف دہشت گردانہ سرگرمیاں بنگلہ دیش کی جانب سے نہیںہورہی ہیں ، اور یہ بات نئی دلی کیلئے کسی نہ کسی حد تک خوش آیند ضرور ہے ۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جس وقت بنگلہ دیشی اپنی آزادی کے لئے جد و جہد کررہے تھے ، اس وقت ان میں آئیڈیالوجی کی کمی تھی ۔ لوگوں نے اسے اپنے لئے ایک بہترین وقت تصور کیا ۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ وہاں پاکستان کے خلاف کسی قسم کی تلخی نہیں پائی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس نے بنگلہ دیشیوں کی آزادی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں پیدا کیں ۔ بیشتر بنگلہ دیشیوں کا یہ کہنا ہے کہ ’’ہمارے دل میں پاکستانیوں کے لئے ہمدردی ہے‘‘ ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی وجہ سے آج بنگلہ دیش میں کئی طرح کی مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگ پاکستانیوں کے مقابلے کافی پسماندہ ہیں اور انھیں مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا ہے ۔