بمقابلہ 2014 ء کے اس بار بی جے پی کو 100 نشستوں کے نقصان کا اندیشہ کیوں ہے ؟

یوگیندر یادو
اگر آپ کو اندازہ ہو کہ ہندی پٹی میں بی جے پی کے ساتھ کیا حشر ہونے والا ہو تو پھر آپ کو 2019 ء کے انتخابی نتائج کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ کیا ہوسکتا ہے ؟ اس سے قبل کے مجھ سے سوال دریافت کیا جائے ، میں خود پیشن گوئی کردیتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ میں 2019 ء کے انتخابی نتائج کے متوقع نتائج کوا پنی پاکٹ میں لیا پھرتا ہوں اور اب صرف ایک سطر میں اس کا اظہار کرسکتا ہوں ۔ ’’پہلے بھوش (مستقبل) کی پیش قیاسی کرتا تھا لیکن اب بھوش(مستقبل) بناتا ہوں‘’۔ اگر بالفرض وہ پورا اترتا نہیں ہے تو پھر میرا جواب بالکل سرد ہوتا ہے کہ کیونکہ میرے پسندیدہ اعداد و شمار تک میری رسائی نہیں ہے۔ وہ راضی تو ہوتے ہیں لیکن پھر بھی زور دیتے ہیں تو پھر میں نہتا ہوجاتا ہوں۔ ایک سیاستداں ہونے کا المیہ یہ ہے کہ عوام مجھ تک صرف وہی بات گوش گزار کرتے ہیں جس کو صرف میں پسند کرتا ہوں چنانچہ آپ سے کم علم ہوتا ہے ‘‘ اور ان کی بے اعتنائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر ایک لمحہ کیلئے بھی یقین نہیں رکھے۔
اب ہم اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ آپ مجھ سے جاننا چاہتے ہیں کہ 2019 ء انتخابات کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں کیونکہ آپ کی دانست میں کوئی اور شخص موزوں نہیں ہے جس کا جواب دے سکے لیکن یاد رکھیں یہ ایک تعزیری انتباہ ہے کہ ’’مصنف ایک سیاسی جہدکار ہے جو اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر نہیں کرسکتا بلکہ حق پرست انسان کے روپ میں اپنے آپ کو پیش کرنا اس کا نصب العین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کو انتخابی رائے شماری کا ماہر ہونا ضروری نہیں ہے تاکہ 2019 ء کی انتخابی جنگ کے بنیادی خد و خال کی تہہ میں جائیں بلکہ آپ کو سیاست کی معمولی فہم و فراست کا حامل ہونا چاہئے ۔ ہاں لیکن آپ کو ماضی کے انتخابات کے خد و خال و نتائج کا علم خاص طور پر 2014 ء کے لوک سبھا نتائج سے بھرپور واقفیت ضروری ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ فی الوقت رائے عامہ کیا چل رہی ہے تو اس کے دو طریقہ میں ایک تو آپ انڈیا ٹوڈے کا ششماہی موڈ آف دی نیشن سیریز کا مشاہدہ کریں یا پھر ABP-CSDS موڈ آف دی نیشن سیریز پر نظر ڈالیں لیکن میری شخصی رائے میں CSDS-LOKNITI ٹیم کی جانب بے ترتیب دی گئی رپورٹ اس سلسلہ میں بہت ہی مصدقہ ہے (آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں CSDS-LOKNITI کا بانی رکن رہا ہوں لیکن میرا اب سے کوئی ربط نہیں ہے اور میرے نکل جانے کے بعد ان کے سروے اور رپورٹس میں کافی بہتری آگئی ہے) اگر آپ پچھلے چند ہفتوں سے جو تغیرات رونما ہوئے ہیں ان کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو تو انڈیا ٹوڈے کا ویکلی ٹراکر آف پولیٹکل اسٹاک اکسچینج اور ABP سی ووٹر کا جدید ترین سروے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ان جدید سروے سے میں پوری طرح متفق نہیں ہوں لیکن یہ سروے ان کمروں کی گپ شپ سے بہتر ہے جو سیاسی پیش قیاسیاں کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ انتحابی کارزار کو سمجھنے کیلئے ہندوستان کے پانچ علاقوں کے بارے میں جانکاری بہت ضروری ہے اور فی الوقت بی جے پی کی قسمت سازی پر ہم اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان پانچ علاقوں میں انتخابی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہے لیکن 2019 ء کے انتخابات کا تصفیہ ان میں سے ایک میدان جنگ کرے گا ۔ (یعنی ہندی بولنے والوں کا مرکزی علاقہ نہ کہ ہندوستان کا مرکز)
منطق بہت سادی سی ہے 2014 ء کے انتخابات کی کارکردگی کا موازنہ کریں تو بی جے پی کو مشرق میں چند ایک کامیابیوں کی توقع ہے اور یہ کامیابیاں مغرب جنوب اور شمال کے معمولی حصہ کے نقصان کی کسی حد تک پابجائی کرکرسکتے ہیں اور تمام توازن صرف اور صرف مرکزی ہندی علاقہ پر منحصر ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ بی جے پی کی حیثیت ہندی پٹی میں کیا رہے گی تو پھر آپ کے سامنے 2019 ء انتخابات کے نتائج صحیح صورتحال پیش کریں گے ۔ اب ہم قریب ہے، ان میدان جنگوں کا قریب سے جائزہ لیں گے تاکہ بی جے پی کی پریشانی کی وجوہات کو سمجھ سکیں۔

مشرق (88 نشستیں) : اس علاقہ میں 2014 ء کے مقابلہ میں بی جے پی کو کسی قدر سبقت مل سکتی ہے اور اس علاقہ میں وہ صرف گیارہ نشستیں جیت چکی ہے، چند اور نشستوں میں اضافہ کی امید ہے ۔ باوثوق انتخابی سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اڈیشہ میں کانگریس کی بدولت اور بنگال میں بائیں بازو کے باعث تائید میں اضافہ کا امکان ہے ۔ بی جے پی کانگریس کی طرح اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے کہ شمال مغرب علاقہ میں غیر معمولی حصول ووٹ اور مزید اضافہ کی پیش قیاسی کی ہے ۔ مشرق میں بی جے پی اپنی تعداد کو منوانا چاہتی ہے ۔ اب سوال صرف یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی اضافی ووٹوں کی مدد سے کتنی نشستوں میں اضافہ کرسکتی ہے ، اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اڈیشہ میں چوکھٹ پار کرچکی ہے لیکن بنگال میں نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی بنگال میں کسی حد تک بائیں بازو کے مساوی ہوجائے لیکن ممتا بنرجی کو چیلنج کرنے سے قاصر ہے ۔ آسام میں اصافہ کی توقع نہیں ہے لیکن شمال مشرق پہاڑی علاقوں کے کچھ نشستیںحاصل کرلے گی ۔ بہ حیثیت عمومی بی جے پی اس علاقہ میں 20 اضافی نشستیں حاصل کرسکتی ہیں ۔
مغرب (78 نشستیں) : جہاں تک مغربی علاقہ کا تعلق ہے اس علاقہ میں کوئی خاص تبدیلی کے آثار نہیں ہیں سوائے بی جے پی کو معمولی سے جھٹکے کے ۔ 2014 ء میں بی جے پی تمام چھ نشستیں جیت چکی تھیں لیکن اس کے بعد تین ریاستوں میں مخالف پارٹی رجحانات عوامل کارفرما رہے ہیں۔ گجرات میں دیہی بے چینی ، مہاراشٹرا میں کسان احتجاج جس کے باعث شیوسینا کے ساتھ خراب تعلقات اور گوا میں متوازی اور ناپاک سرکار ایسے عناصر ہیں جو علاقہ میں مخالف بی جے پی لہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سروے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں بی جے پی کو نقصان ا ٹھانا پڑسکتا ہے ۔ گجرات میں وزیراعظم بڑی حد تک پارٹی اعتماد بحال کرسکتے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں اگر شیوسینا ، بی جے پی کی تائید کرتی ہے تو این ڈی اے مشترکہ طورپر این سی پی ۔ کانگریس کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔ لہذا بی جے پی اس علاقہ میں اپنے 15-20 نشستیں کھوسکتی ہے۔

جنوب (132 نشستیں) : جنوب میں انتخابات نازک صورتحال پیش کرسکتے ہیں جس سے مستقبل کی سیاست کا نقشہ تغیر پذیر ہوسکتا ہے ۔ ان علاقوں میں لوک سبھا انتخابات میں مقامی اور شخصیاتی پہلوؤں پر زیادہ توجہ مرکوز ہونے کی توقع ہے لیکن راہول بمقابلہ مودی صدارتی انتخابات میں کوئی بھی صورتحال ناممکن ہے۔ اس علاقہ میں بی جے پی کو کوئی خاص اضافہ کی توقع نہیں ہے۔ جہاں پر پچھلے انتخابات میں بی جے پی صرف 22 نشستیں جیتی ہے جس میں سے 17 کا تعلق صرف کرناٹک سے ہے ۔ تمام امکانات اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ بی جے پی اس علاقہ میں سطحی حیثیت رکھتی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے AIADMK کو رجھانے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ جیہ للیتا اور کروناندھی کے گزرجانے کے بعد پہلے نازک انتخابات میں ڈی ایم کے سبقت لیکر بی جے پی کو صدمہ سے دوچار کردیا ہے ۔ سبری مالا مندر تنازعہ میں فرقہ وارانہ استحصال کی بدولت کیرالا میں کسی حد تک بی جے پی کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک نازک مسئلہ ہوگا لیکن اس کارڈ کی بدولت اس کے نمبرات میں کسی خاص اضافہ کی امید نہیں ہے ۔ آندھرا اور تلنگانہ علاقہ واری مسائل میں اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ جس کے باعث این ڈی اے یا بی جے پی آنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے کیونکہ چندرا بابو نائیڈو بی جے پی سے ا پنا ناطہ توڑ چکے ہیں۔ کرناٹک کے حالیہ ضمنی چناؤ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جی ڈی ایس اور کانگریس میں رشتہ مضبوط ہوچکا ہے جس میں دراڑ ناممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں بی جے پی ٹاملناڈو یا آندھرا میں ایک نئے سیاسی توڑ جوڑ کا ڈرامہ کھیلے گی لیکن اب تک کے آثار و قرائین ظاہر کرتے ہیں کہ اس علاقہ میں بی جے پی کو 5-10 نشستوں کی قطع پرید ہوگی۔
شمال (19 نشستیں) : شمالی علاقہ بھی کوئی علحدہ حیثیت نہیں رکھتا ہے اور صرف پنجاب و جموں و کشمیر ریاستیں اس علاقہ میں ہندی پٹی کے فریم میں منطق نہیں ہوئیں۔ اگر آپ مجالس مقامی اور آپ کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ صرف کانگریس کو پنجاب میں کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں لیکن پنجاب یا جموں و کشمیر کے نتائج قومی سیاست میں شاذ و نادر ہی کچھ اثر ڈالتے ہوں گے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کو 3-4 نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
چلئے اب ہم ان 317 نشستوں کے سروے کا جائزہ لیتے ہیں جو ہم نے انجام دیئے ہیں۔ 2014 ء میں بی جے پی ان میں سے 91 نشستیں جیت چکی ہیں اور موجودہ صورتحال کے حساب سے اس میں کوئی خاص تبدیلی کے آثار نہیں ہیں۔ بی جے پی جنوب میں خاص طور پر کرناٹک میں شکست سے دوچار ہوچکی ہے اور ہم مجموعی طور پر غیر ہندی علاقوں میں بی جے پی کی 80-90 نشستوں پر کامیابی کا اندازہ قائم کرتے ہیں۔ باالفرض یہ تعداد 91 ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کیلئے نہ جیت نہ ہار کے مساوی ہے ۔ اپنی آسانی کیلئے ہم انتخابی حساب میں بقیہ ہندوستان کو 2019 ء کے انتخابات کے ضمن میں نظر انداز کرسکتے ہیں ۔ اب سارا دارومدار بی جے پی کی ہندی پٹی والے علاقہ کی کارکردگی پر منحصر ہے ۔ اب ہم اس جانب توجہ گرتے ہیں ۔
ہندی مرکزی علاقہ (226 نشستیں) : یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر 2019 ء کے انتخابات بی جے پی کیلئے جیت یا ہار کا میدان جنگ ہے ۔ اس علاقہ میں بی جے پی 192 نشستیں (بشمول 203 نشستیں بہار و یو پی میں حلیف جماعتوں کے ساتھ) حاصل کی ہے اور یہی بی جے پی کیلئے مسئلہ کا باعث ہے اور بی جے پی 2014 ء کے اپنے نشانہ کو حاصل بھی نہیں کرپائے گی اور اشارہ ملتا ہے کہ اس علاقہ کے ہر مقام پر بی جے پی کا ایسا ہی حال ہوگا ۔ سوائے بہار کے استثنیٰ کے جہاں پر بی جے پی اپنی حلیف جے ڈی یو کی مدد سے اپنے نقصانات کی کم پابجائی کرسکتی ہے ۔ انتخابی سروے ظاہر کرتے ہیں کہ جھارکھنڈ ، ہریانہ و اترکھنڈ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں بہت ہی غیر مقبول ہیں اور اس غیر مقبولیت کی وجہ سے ان تینوں ریاستوں سے بی جے پی کی دس نشستیں کم ہوجاسکتی ہیں اور دہلی میں بھی پارٹی کی جیت کے امکانات نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ووٹرز کے رجحانات کا پتہ چل جائے گا ۔ ہر کوئی یقین رکھتا ہے کہ بی جے پی کو راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں سخت مسابقت کا سامنا ہے ۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج کے رجحانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمبلی نتائج لوک سبھا نتائج دونوں یکساں ہوں گے ۔ اگر اس طرح واضح ہوتا ہے تو ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو کم از کم تیس نشستوں کا نقصان ہوگا اور بی جے پی ان ہندی والی ریاستوں میں اپنی پچاس نشستوں میں کمی کے رجحانات محسوس کرتی ہے۔