محمد ریاض احمد
ہمارے ملک میں سیاستداں اور سیاسی پارٹیاں خاص کر حکمراں جماعتیں کسی اہم قومی مسئلہ کو پس پشت ڈالنے یا اس سنگین مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا کرتی ہیں یا پرانے مسئلہ کو کریدتے ہوئے گڑے مُردے اکھاڑنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ کالا دھن یا بلیک منی کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ نریندر مودی نے عام انتخابات سے قبل ہندوستان بھر میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم میں چیخ چیخ کر اعلان کیا کہ وہ اس رقم کو ہندوستان واپس لائیں گے ۔ مودی کی اس چیخ و پکار پر ہندوستان کی بھولی بھالی عوام نے بھروسہ کیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ جو کام پنڈت جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی ، پی وی نرسمہاراؤ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نہیں کیا وہ مودی کردکھائیں گے لیکن انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ بیرون ممالک کے بینکوں میں جمع کرکے رکھی گئی بلیک منی کا ہندوستان واپس لانا تقریباً ناممکن ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو بلیک منی کے بارے میں سیاستدانوں ، صنعت کاروں ، اعلی عہدیداروں سے لے کر عوام میں خود الجھن پائی جاتی ہے ۔
صرف ان افراد یا اداروں کے سوا جنھوں نے لاکھوں کروڑ روپئے غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کئے ہیں بلیک منی کی تفصیلات کوئی نہیں جانتا ۔ فی الوقت کوئی یہ نہیں جانتا کہ آخر بیرونی ممالک بالخصوص سوئز بینکوں میں کتنے ہندوستانیوں نے کتنی بلیک منی جمع کررکھی ہے ؟ کوئی یہ بھی بتانے کے موقف میں نہیں ہے کہ جو سیاہ دھن بینکوں میں جمع کرکے نہیں رکھا گیا اس کا استعمال کن شعبوں میں اور کہاں ہوا ہے ؟۔ حقیقت تویہ ہے کہ ہر کوئی اس مسئلہ پر ہوا میں تیر چلا رہا ہے ۔ عدالت عظمی کو بیرونی ممالک کی بینکوں میں سیاہ دھن رکھنے والوں کے بارے میں تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقات ٹیم (اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم) تشکیل دینے پر مجبور کرنے والے ممتاز قانون داں رام جیٹھ ملانی کا دعوی ہے کہ بیرونی ممالک کی بینکوں میں چند ہندوستانیوں نے 70 لاکھ کروڑ روپئے غیر قانونی طور پر جمع کررکھے ہیں ۔ بعض اداروں کا کہنا ہیکہ سوئز بینکوں اور دیگر ممالک میں جو سیاہ دھن رکھا گیا ہے
وہ 12 لاکھ کروڑ روپئے ہی ہے اور اگر اس میں سے حکومت 50 فیصد رقم بھی ملک واپس لانے میں کامیاب ہوتی ہے تو ہندوستان کی معیشت میں زبردست استحکام آئے گا ، بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور ڈالرس کے مقابلہ روپئے کی قدر 60 کی بجائے 50 ہوجائے گی ۔ اقتصادی شعبہ کے ماہرین کے خیال میں بلیک منی واپس لانا بہت مشکل ہے اگر حکومت نصف رقم بھی واپس لاتی ہے تو 2007 میں ڈالر کے مقابل روپئے کی جو قدر تھی وہ واپس ہوسکتی ہے یعنی فی الوقت ایک ڈالر تقریباً 60 روپئے کے مساوی ہے ۔ 50 فیصد بلیک منی ہندوستان واپس لانے پر ایک ڈالر 37 روپئے کے برابر ہوجائے گا تاہم ایسے کرشمہ کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ملک میں فی الوقت اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ آخر بیرونی بینکوں میں کتنی بلیک منی رکھی گئی ہے ۔ اس سلسلہ میں ASSOCHAM جیسے ادارہ نے اپنے ایک جائزہ میں بتایا ہے کہ بیرونی بینکوں میں ہندوستانیوں نے 2 کھرب ڈالرس یا 120 لاکھ کروڑ روپئے منتقل کئے ہیں ۔ ASSOCHAM کا یہ ایسا اندازہ ہے جسے مان لیاجائے تو سیاہ دھن ملک میں 2013-14 کے دوران جو قومی مجموعی پیداوار 114 لاکھ کروڑ (1.9 کھرب ڈالرس) تھی اس سے زیادہ ہوگا ۔ دوسری طرف سوئز نیشنل بینک کے تازہ ترین ڈاٹا کے مطابق سوئز بینکوں میں ہندوستانیوں نے جو رقم جمع کررکھی ہے وہ ڈسمبر 2013 تک 14000 کروڑ روپئے تھی جو 2012 میں ان بینکوں میں رکھی گئی رقم سے 40 فیصد کم ہے ۔
حال ہی میں بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کے ایک قریبی ساتھی ایس گرومورتی کا انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے گلوبل فینانشیل انٹیگریٹی آرگنائزیشن کے حساب کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان میں سیاہ دھن کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ 1948 اور سال 2008 کے درمیان کم از کم 500 ارب ڈالرس (30 لاکھ کروڑ روپئے) غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کئے گئے اسی طرح سال 2003 اور 2011 کے درمیان 350 ارب ڈالرس (تقریباً 21 لاکھ کروڑ روپیوں) کی بیرون ملک ناجائز طریقوں سے منتقلی عمل میں لائی گئی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں معاشی اصلاحات کے نفاذ کے بعد سیاہ دھن سب سے زیادہ بیرونی بینکوں میں جمع کیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاستداں ، بیوروکریٹس ، صنعت کار اور جرائم پیشہ ٹولیاں ہندوستان کی معیشت کو آزادی کے بعد سے ہی لوٹ رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1990 میں ہندوستان میں صرف دو ارب پتی تھے لیکن اب ہمارے ملک کے ارب پتیوں کی تعداد 65 ہوگئی ہے ۔
رشوت خوری ، اقربا پروری ، سیاست میں داغدار افراد کے سرایت کرجانے اور سب سے بڑھ کر سیاستدانوں اور حکومتوں پر صنعتی گھرانوں اور صنعت کاروں کے دباؤ کے نتیجہ میں اس لوٹ کھسوٹ کو کوئی نہیں روک سکا ۔ ASSOCHAM کے جائزہ میں واضح طور پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی میں بلیک منی لانے اور ملک کی دولت کی لوٹ میں مصروف افراد و اداروں کی حوصلہ شکنی کیلئے کم از کم 21 اسکیمات شروع کی گئی تھیں لیکن تمام اسکیمات ناکام رہیں ۔ اس کی سب سے اہم وجہ ہندوستان کا ناقص ٹیکس نظام ہے اگر یہ ٹیکس نظام مستحکم اور عوام دوست ہوتا تو ہندوستانی بیرونی ممالک میں سرمایہ مشغول نہیں کرتے ۔ لندن ، پیرس ، سوئزرلینڈ ، دوبئی وغیرہ میں جائیدادیں نہیں خریدتے ، جنیوا کی بینکوں میں کھاتے نہیں کھولتے ۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ بلیک منی حقیقت میں ہندوستان اور نریندر مودی حکومت کیلئے بلیک ہول بن گئی ہے ۔ ہندوستان سے جو رقم غیر قانونی طور پر منتقل کی گئی اگر وہ واپس ہوتی ہے تو ملک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے لیکن عام آدمی کی غربت کا نہیں بلکہ سیاستدانوں ، بیوروکریٹس اور صنعت کاروں کی غربت کا ۔ کیونکہ یہ لوگ خود کو ہمیشہ غریب ہی تصور کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی جن کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے دو سابق ججس کی قیادت میں SIT قائم کی ہے ۔ مودی حکومت کو اس مسئلہ پر تساہل برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ انھوں نے نریندر مودی کو ایک خط بھی لکھا ہے جس کا جواب دینے کی ہمارے وزیراعظم کو جو بلیک ہول کی طرح Communal Hole کیلئے کافی بدنام ہیں فرصت ہی نہیں ملی ۔ رام جیٹھ ملانی نے وزیر فینانس ارون جیٹلی کو بھی مکتوب لکھتے ہوئے صاف طور پر لکھا ہیکہ آپ بھی دوسروں کی طرح سچائی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سچ سامنے نہ آئے ۔ رام جیٹھ ملانی کی کوششوں کے نتیجہ میں حکومت نے سپریم کورٹ کو ان 627 ہندوستانیوں کے ناموں پر مشتمل فہرست حوالے کی جنہوں نے سوئز بینکوں میں اپنے اکاونٹس کھول رکھے ہیں جہاں تک بلیک منی کا سوال ہے اگر کوئی ہندوستانی غیر قانونی طور پر بیرونی ممالک کی بینکوں میں ٹیکس سے بچنے کیلئے رقم جمع کرائی ہے تو اس نے نہ صرف ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اپنے وطن عزیز سے غداری بھی کی ہے
اور اس معاملہ میں مسلمانوں کا دامن ہمیشہ صاف رہا ہے ۔ اس لئے کہ بیچارے مسلمانوں کے پاس اتنی دولت ہی نہیں کہ وہ غیر ملکی بینکوں میں رقم جمع کرنے کا تصور بھی کریں بلکہ وہ تو ملکی بینکوں میں رقم جمع کرنے کے بارے میں بھی سوچ نہیں سکتے ۔ حال یہ ہیکہ 90 فیصد مسلمان بینکوں میں کھاتے نہیں رکھتے ۔ ہم بات کررہے تھے بلیک منی کے سنگین مسئلہ کی ، اس سلسلہ میں ہمیں عالمی GDP پر طائرانہ نظر ڈالنی ہوگی ۔ عالمی جی ڈی پی تقریباً 72 کھرب ڈالرس ہے اور دنیا کے ارب پتیوں کی دولت 54 کھرب ڈالرس بتائی جاتی ہے جس میں سے کم ازکم 20 کھرب ڈالرس بلیک منی ہے ۔ یہ صرف رقم کی شکل میں نہیں بلکہ حصص ، رئیل اسٹیٹ ، بانڈس ، کشتیوں ، جہازوں ، کمپنیوں ، سونا اور پلاٹینم کی شکل میں ہے ۔ جہاں تک 20 کھرب ڈالرس بلیک منی کا سوال ہے اس میں زیادہ تر حصہ ایشیائی اور افریقی ممالک کا ہے ۔ بلیک منی کے بارے میں ہمیشہ مباحث ہوتے رہے ، 2011 میں حکومت نے NIPFP، NIFM اور NCERA جیسے اداروں کے ذریعہ مشترکہ اسٹڈی کرائی تاکہ ملک و بیرون ملک غیر محسوب دولت کا اندازہ لگایا جاسکے تاہم اس کی قطعی رپورٹ اب تک پیش نہیں کی گئی ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ سال 2002-2011 کے دوران سیاہ دھن کے معاملہ میں جو ممالک سرفہرست رہے ان میں ہندوستان کا نمبر 5 واں رہا ۔ کیونکہ ہمارے ملک سے اس مدت کے دوران 343.04 ارب ڈالرس باہر بھیجے گئے ۔ بتایا جاتا ہیکہ 2011 میں 84.93 ارب ڈالرس کی غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقلی عمل میں آئی جس کی بناء پر ہندوستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا ۔ یہ اعداد و شمار ترقی پذیر ممالک سے ناجائز دولت کا بہاؤ 2002-2014 نامی ایک رپورٹ میں پیش کئے ہیں ۔ بہرحال ایسا لگتا ہیکہ مودی حکومت سیاہ دھن کو واپس لانے کیلئے بظاہر اقدامات کرے گی لیکن ان کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ۔
mriyaz2002@yahoo.com