بشرنواز

کے این واصف
اردو ادب کے نیم تاریک جہاں میں جو چراغ ٹمٹما رہے ہیں وہ ایک ایک کرکے گل ہورہے ہیں۔ جس سے اردو ادب پر تاریکی آہستہ آہستہ غالب ہورہی ہے۔ اردو کے مستقبل سے مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ابھی (کے این واصف)
اردو والے اردو کے ایک قدآور ادیب اقبال متین کو رو کر بیٹھے ہی تھے کہ سرزمین دکن کے ایک اور بزرگ صاحب طرز شاعر بشرنواز نے داغ مفارقت دے دیا۔ قریبی ذرائع کے مطابق بشرنواز 8 جولائی (21 رمضان) کی رات سوئے۔ صبح سحری کیلئے اہل خانہ نے جب انہیں جگانے کیلئے آواز دی تو اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ کافی کوشش کے بعد کمرے کا دروازہ توڑا گیا تو بشرنواز اپنے بستر پر تو تھے لیکن ان کی روح پرواز کرچکی تھی۔ بشر نواز کا ایک شعر ہے
اسی امید میں خوابوں سے سجالی نیندیں
کبھی ممکن ہے کوئی خواب حقیقت بن جائے
اپنی نیندوں کو خوابوں سے سجانے والے اس شاعرکا پتہ نہیں کوئی خواب حقیقت بنایا نہیں مگر وہ کسی سنہرے خواب میں محو رہ کر جہان فانی سے سیدھے جہان لافانی چلا گیا۔ نہ کسی عزیز سے خدمت لی نہ کسی طبیب کو زحمت دی۔
بشرنواز 18 اگست 1935ء کو ولی اورنگ آبادی کی سرزمین، سکندر علی وجد اور قاضی سلیم جیسے قدآور شعراء کے وطن اورنگ آباد مہاراشٹرا (اس وقت کے حیدرآباد دکن) میں پیدا ہوئے۔ پچھلے 50 سال سے ہندوپاک کے جرائد اور ادبی رسائل میں اپنی تخلیقات شائع کراتے رہے۔ وہ ابتداء میں کمیونسٹ تحریک سے متاثر رہے جس کا اثر ان کی ابتدائی دور کی شاعری اور نثر میں نظر آتا ہے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے جڑے رہے۔ انہوں نے چند ہندی فلموں کیلئے نغمے بھی لکھے جس میں ڈائرکٹر ساگر سرحدی کی فلم ’’بازار‘‘ شامل ہے جس کے گانے بہت زیادہ مقبول ہوئے تھے۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کیلئے بھی ڈرامے لکھے۔ معروف ٹی وی سیریل ’’امیرخسرو‘‘ ان ہی کے زورقلم کا نتیجہ تھا۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ ’’رائیگاں‘‘ کے عنوان سے 1972ء میں منظرعام پر آیا تھا۔ اس کے علاوہ بشرنواز کی دیگر تخلیقات میں ’’اجنبی سمندر‘‘ شعری مجموعہ، ’’نیا ادب نئی نسل‘‘، تنقیدی مضامین ’’کروگے یاد‘‘ شعری مجموعہ شامل ہیں۔

ویجویل سنٹر اورنگ آباد نے بشرنواز پر ایک بہت خوبصورت ڈاکیومنٹری فلم تیار کی جو You Tube پر دستیاب ہے جو بشرنواز کی حیات و کارناموں پر روشنی ڈالتی ہے۔ بشرنواز کو ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ کے علاوہ حکومت مہاراشٹرا نے ان کی ادبی خدمات نے اعتراف میں باوقار سرکاری اعزاز ’’پلوتسوسماں سے بھی نوازا تھا۔سنا کہ ابتدائی منزل میں اردو کے عظیم شاعر و کمیونسٹ قائد مخدوم محی الدین نے بشرنواز کو حیدرآباد کے ادبی میدان میں متعارف کرایا تھا۔ بشرنواز ایک عرصہ عوامی زندگی یا سرگرم سیاست سے بھی جڑے رہے۔ وہ تین مرتبہ اورنگ شہر کے بلدیہ کونسلر منتخب ہوئے۔ انہوں نے یہ کام بھی اصول پسندی اور دیانتداری سے کیا جبکہ عام مشاہدہ تو یہ ہیکہ عوامی قائد اپنے عوام اور علاقے کی ترقی سے زیادہ خود کو اٹھاتے ہیں۔ بشرنواز نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ میدان سیاست میں ہر بے حیثیت و بے وقعت شخص مختصر سے عرصہ میں گاڑیوں اور کوٹھیوں کا مالک بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں رشوت خوری اور بے ایمانی نہ جرم رہی نہ اسے بری نظر سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ہمارے سماج میں آج صرف وہی ذی حیثیت اور قابل قدر ہے جس کے ہاں دولت ہے۔ چاہے وہ کسی طرح سے حاصل کی گئی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ عوامی زندگی میں رہ کر یا سماجی خدمت انجام دیکر یہ سوچنا کہ اس سے ہمیں کیا ملا  یہ سب سے بڑی بدبختی ہے۔ خدمت خلق تو عبادت ہے۔ بشرنواز اپنی ادبی زندگی میں بھی اسی طرح بااصول رہے۔ وہ ایک زندہ ضمیر قلمکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی شاعر کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ اس کا قاری یا سامع اسے سن کر یہ کہے کہ یہ تو میرے دل کی بات ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی رشتوں کو جوڑے اور مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ فنکار، ادیب و شاعر ہی انقلاب لا سکتے ہیں اور انہیں اس جدوجہد میں لگے رہنا چاہئے۔

اردو کے چند ہی قلمکار ہوں گے جن کی کتابیں انگریزی یا دیگر یوروپی زبانوں کے ادیبوں کی کتابوں کی طرح فروخت ہوتی ہیں یا جس کی رائلٹی سے ان کو بڑا مالی فائدہ ہوتا ہوگا۔ اردو والے بے چارے تو شاید ان کی کتاب کی چھپائی کا خرچ نکل آئے تو وہ سجدہ شکر بجا لاتے ہوں گے۔ یہ ناقدری ہماری ادبی دنیا کا رواج ہوگئی ہے۔ نہ ادب کی کوئی قدر و منزلت ہے نہ ادیب کا کوئی مقام و منصب۔ بقول بشرنواز
زندگی تھی کسی بازار کا منظر جیسے
ہم بھی ماتھے پہ سجائے ہوئے قیمت نکلے
ہمیں اردو کے ان قلمکاروں کی جو ناقدری کے اس ماحول میں بغیر صلہ و منفعت اپنی زبان کا حق ادا کئے جارہے ہیں۔
بشرنواز سے میرا کوئی زیادہ ربط ضبط تھا نہ دوستی۔ یہ 1960ء کی دہائی کی بات ہے میں اپنی نوعمری کے زمانے میں ہمارے والد (خواجہ غیاث الدین عزیز) کے دوست معروف شاعر و ایڈیٹر ماہنامہ ’’صبا‘‘ سلیمان اریب کے گھر پر جہاں ہمیشہ فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ اسی کہکشاں میں میں بشرنواز کو دیکھا کرتا تھا۔ 1969 میں سلیمان اریب کے انتقال کے بعد یہ سلسلے ختم ہوگئے۔ بشرنواز کیونکہ حیدرآباد نہیں بلکہ اورنگ آباد میں رہتے تھے اس لئے بعد میں ان سے حیدرآباد کی ادبی محفلوں میں زیادہ نظر نہیں آتے تھے۔ سنہ 2006ء میں ہم نے بشرنواز کو کوئی 40 سال بعد سفارتخانہ ہند ریاض کے سالانہ مشاعرے میں دیکھا اور فوری پہچان بھی لیا کیونکہ ان کے بال اور داڑھی سفید ہونے کے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ملاقات پر جب ہم نے یہ ذکر کیا کہ ہم انہیں برسوں پہلے سلیمان اریب کے گھر دیکھا کرتے تھے تو بڑے خوش ہوئے اور پھر بہت دیر تک حیدرآباد کی طرحدار شخصیات، حیدرآباد کی ادبی ماحول و محافل پر گفتگو کی۔ ریاض کے جانے کے بعد دو چار بار ان سے فون پر گفتگو رہی مگر پھر کبھی ان سے شخصی طور پر ملاقات کا موقع میسر نہیں آیا اور پچھلے ہفتہ اطلاع ملی کہ بشرنواز اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ رحمتوں کی برسات کے ماہ مبارک رمضان میں بشرنواز کا انتقال ہوا۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر رحمتوں کی برسات کا سلسلہ جاری رکھے۔ (آمین)
KNWASIF@yahoo.com