بدل لے بھیس چاہے لہجہ اپنا خوشنما کرلے

رشیدالدین

دہشت گردی…نوجوانوں کو مودی کا کلین چٹ
این آئی اے کی زعفرانی ملزمین سے ہمدردی… مسلم نوجوان جیلوں میں

’’ہندوستانی نوجوانوں نے کامیابی کے ساتھ بنیاد پرستی کی مزاحمت کی ہے جس سے دنیا کے کئی حصے متاثر ہیں‘‘۔ یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کے ہیں جنہوں نے علماء اور مسلم دانشوروں سے ملاقات کے موقع پر دنیا بھر میں دہشت گردی میں اضافہ کے پس منظر میں اس رائے کا اظہار کیا ۔ وزیراعظم نے دراصل اعتراف کیا ہے کہ ملک کے نوجوان بالخصوص مسلم نوجوان دہشت گردی سے متاثر نہیں ہوئے اور اس نظریہ کو قبول نہیں کیا۔ وزیراعظم نے ایسے وقت اس حقیقت کو قبول کیا اور اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے ، جب زعفرانی تنظیمیں اور زعفرانی ذہنیت کے پولیس عہدیدار کسی بھی واقعہ کے ساتھ ہی مسلمانوں کی طرف شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں میں سنگھ پریوار کی ذہنیت کچھ اس طرح سرائیت کرچکی ہے کہ تحقیقات کا آغاز ہی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے ہوتا ہے ۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے ہندوستانی نوجوانوں کی دوری کی بات کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم نے کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر ذمہ دار عہدہ پر فائز شخص کا بیان محض ہوائی نہیں بلکہ سرکاری اطلاعات کی بنیاد پر ہوگا۔ انٹلیجنس اور دیگر سراغ رساں اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر نریندر مودی نے ہندوستانی نوجوانوں کی ستائش کی ہوگی ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو ہندوستانی نوجوانوں نے مسترد کردیا اور ان کے جال میں نہیں پھنسے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں سرگرم تنظیمیں ہندوستانی مسلمانوں کو راغب کرنے میں ناکام ہوگئی جس کے نتیجہ میں ہندوستان دہشت گردی سے عملاً پاک ہے ۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی سابق میں اعتراف کرچکے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ میں ہندوستانی نوجوان نہیں ہیں۔ نریندر مودی کو یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑی کہ ملک کی روایت ، سماجی ڈھانچہ اور تاریخی ورثہ اس قدر مضبوط ہے کہ دہشت گرد اور ان کے اسپانسرس کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ وزیراعظم کا یہ بیان محض سیاسی مقصد براری کیلئے نہ ہو بلکہ حکومت اور تحقیقاتی اداروں کو اس کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے ۔ صرف قول سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعہ نریندر مودی نوجوانوں کو دہشت گردی کے لیبل سے آزاد کریں۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے ، اسلام کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام اور دہشت گردی کو جوڑنے والے دراصل اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہیں ۔ مسلم دشمنی اور مخالف اسلام ذہنیت کے حامل افراد اور تنظیموں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کسی مذہب کو نشانہ بنانا مقصد ہو تو پھر ذہنیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

اب جبکہ وزیراعظم نے خود تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردی سے ہندوستانی نوجوانوں کا تعلق نہیں تو  پھر گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے الزامات کے تحت جیلوں میں محروس سینکڑوں نوجوانوں کے مقدمات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے رہائی ملنی چاہئے ۔ برسوں تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد عدالتوں سے برات مل رہی ہے اور تحقیقاتی ایجنسیاں الزامات ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے کہ محض شبہ کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ وزیراعظم مسلمانوں کی حب الوطنی کا بھی اعتراف کرچکے ہیں لیکن ایسے اعتراف سے کیا فائدہ جب حکومت پر اس کا اثر دکھائی نہ دیں۔ پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہدایت دی جائے کہ مسلم نوجوانوں کی ہراسانی کا سلسلہ بند کریں۔ آج بھی ملک کے بعض حصوں میں مسلم نوجوانوں کو اسلامک اسٹیٹ کے نام پر تحویل میں لیا جارہا ہے ۔ وزیراعظم کی زبان سے نوجوانوں کو کلین چٹ کے بعد حالات میں تبدیلی آنی چاہئے ۔ گزشتہ دس برسوں میں دہشت گردی کے نام پر نوجوانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی طویل داستان ہیں۔  مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کے باوجود مختلف فرضی تنظیموں کے نام پر سینکڑوں نوجوانوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا ۔ برسوں تک مقدمات کا آغاز نہیں ہوسکا اور کئی نوجوانوں کو عدالت نے بے قصور قرار دیا۔ سیکولرازم اور مسلمانوں سے ہمدردی کے دعویدار بھی زعفرانی ذہنیت کے حامل افراد پر کنٹرول نہ کرسکے۔ سمی ، انڈین مجاہدین ، حرکت الجہاد اسلامی اور دیگر ناموں سے مقدمات درج کئے گئے ۔ کئی تنظیمیں تو ایسی ہیں جن کا وجود محض پولیس کی ڈائری میں تھا اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تحقیقاتی اداروں کے اختراعی ناموں کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آج تک بھی یہ ثابت نہ ہوسکا کہ انڈین مجاہدین اور HUJI کے دفاتر کہاں ہیں اور ان کے عہدیدار کون ہیں؟ اس مرحلہ پر پھر ایک مرتبہ بنگال کے سابق ایم پی احمد سعید ملیح آبادی کے وہ جملے یاد آتے ہیں جو انہوں نے پارلیمنٹ میں ادا کئے تھے ۔ انہوں نے انڈین مجاہدین کا پتہ بتانے پر انعام کا اعلان کیا تھا ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اپنے نام کے ساتھ انڈین لکھنے والا ہرگز دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ افسوس کہ پولیس اور حکومت نے تحقیقاتی ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جس کا خمیازہ سینکڑوں نوجوانوں کو جیل کی سزا کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں جہاں کوئی واقعہ پیش آئے فوری مسلم نوجوانوں کو ملوث کردیا جاتا ہے ۔ مکہ مسجد ، اجمیر شریف اور مالیگاؤں بم دھماکوں میں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں زعفرانی دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوئے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا جن کے خلاف ثبوت پایا گیا، ان کے ساتھ تحقیقاتی اداروں کا رویہ ہمدردانہ ہے۔ صرف شبہ اور جھوٹے الزامات کے تحت مسلم نوجوان جیلوں میں بند ہیں لیکن زعفرانی تنظیموں کے خاطیوں کی ضمانت پر رہائی کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔ عدالتوں میں تحقیقاتی ایجنسی نے ضمانت کی مخالفت سے گریز کیا۔

مالیگاؤں میں 2008 ء بم دھماکوں کی اہم ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی ضمانت کی مخالفت سے این آئی اے نے احتراز کیا ہے۔ بمبئی ہائیکورٹ میں این آئی اے کی جانب سے کہا گیا کہ اگر پرگیہ سنگھ کو ضمانت دی جاتی ہے تو تحقیقاتی ایجنسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ ا ین آئی اے نے بم دھماکہ کی اے ٹی ایس تحقیقات پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ سیشن جج کی جانب سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ضمانت سے انکار کے بعد یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر دوران ہے۔ ممکن ہے کہ این آئی اے کے موقف سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر جلد ہی جیل سے باہر ہوں گی ۔

مکہ مسجد ، مالیگاؤں اور اجمیر شریف دھماکوں میں جو زعفرانی چہرے بے نقاب ہوئے تھے ، ان میں سوامی اسیمانند اور کرنل پروہیت کے بارے میں بھی تحقیقاتی ایجنسیوں کا رویہ ہمدردانہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام مقدمات میں سنگھ پریوار کے ان تائیدی ملزمین کو بری کردیا جائے گا ۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو صرف 6 سال سے جیل میں رکھے جانے سے اعتراض ہے تو پھر ان مسلم نوجوانوں کا کون پرسان حال ہوگا جو 10 تا 15 برسوں سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور ان کی  ضمانت نہیں ہو پارہی ہے۔ نریندر مودی کے ڈھائی سالہ اقتدار میں عوام کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن زعفرانی دہشت گردوں کیلئے اچھے دن دکھائی دے رہے ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیاں جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں، ممکن ہے کہ تمام کو بری کردیا جائے اور ضابطہ کی تکمیل کے طور پر کسی کو بطور ملزم کھڑا کیا جائے۔  وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے علماء اور دانشوروں نے نوٹ بندی کے ذریعہ کالے دھن کے خلاف اقدامات کی بھرپور ستائش کی لیکن انہیں مسلم مسائل کا کوئی خیال نہیں آیا ۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں ، شریعت کے خلاف عدالتوں کے فیصلے ، دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ہراسانی اور گجرات کے ہزاروں مظلوم خاندانوں کو انصاف کا خیال نہیں آیا۔ صرف انتخابی فائدہ کیلئے چند بیروزگاروں کو جمع کردیا گیا اور وہ اس لالچ میں پہنچ گئے کہ شائد حکومت کے ذریعہ ان کی کچھ بازآبادکاری ہوجائے۔ نریندر مودی نے دستور ہند پر حلف لیتے ہوئے تمام شہریوں سے یکساں سلوک کا عہد کیا تھا ، اس عہد کو پورا کرتے ہوئے تحقیقاتی اداروں کی ذہنیت اور اندازِ کارکردگی کو بدلنا ہوگا ۔ اب جبکہ مسلم قائدین اور علماء کے روبرو نریندر مودی نے دہشت گردی کے سلسلہ میں ہندوستانی نوجوانوں کو کلین چٹ دی ہے، لہذا برسوں سے زیر التواء تمام مقدمات کا جنگی خطوط پر جائزہ لینا چاہئے ۔ دوسری طرف اقتدار اور کرسی کا نشہ 91 سالہ این ڈی تیواری پر ابھی بھی طاری ہے۔ وہ اپنی آخری سانس تک خود کو سرخرو دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی جانب سے سیاستدانوں کیلئے بھی وظیفہ پر سبکدوشی کی عمر مقرر کرنے کی مانگ کی جارہی ہے ۔ سیاستداں بھلے ہی ضعیف ہوجائیں لیکن وہ سیاسی دنگل میں خود کو پہلوان تصور کرتا ہے۔ این ڈی تیواری نے بی جے پی میں شمولیت کے ذریعہ کچھ یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اپنے لئے یا پھر اپنی اولاد کے سینئر مستقبل کیلئے اصولوں کو قربان کرنا سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ کانگریس کے بزرگ رہنما نے عمر کے اس آخری حصہ میں بی جے پی کا دامن تھام کر اپنی زندگی بھر کے سیکولر کردار کو داغدار بنادیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جس بیٹے کو تسلیم کرنے سے انہوں نے انکار کیا تھا اس کے مستقبل کیلئے تیواری نے اپنے نظریات کو قربان کردیا ۔ کانگریس میں رہ کر وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور اس قدر زائد عہدوں کے مزے لوٹنے والے شائد وہ واحد قائد ہیں۔ این ڈی تیواری کے سیاسی سفر کو گورنر آندھراپردیش کے عہدہ پر زوال آیا جب بعض ناپسندیدہ سرگرمیوں کے سبب بڑے بے آبرو ہوکر عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بی جے پی قیادت کیلئے بھی باعث شرم ہے کہ ایسے شخص کو پارٹی میں شامل کیا گیا ۔ ایسی کیا مجبوری تھی یا پھر پارٹی اترپردیش میں اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ این ڈی تیواری جیسے نحیف و ناتوان کاندھوں کی ضرورت پڑ گئی ۔ نریندر مودی سے مسلم قائدین کی ملاقات پر یہ شعر صادق آتا ہے   ؎
بدل لے بھیس چاہے لہجہ اپنا خوشنما کرلے
جو قاتل رہ چکا ہے وہ مسیحا ہو نہیں سکتا