بدایوں۔ سماج وادی پارٹی کا قلعہ قمع کرنا حریفوں کے لئے آسان نہیں

2014کی مودی لہر میں بھی سماج وادی اپرٹی نے جیت کاپرچم لہرایا ‘ کانگریس آخری بار1984میں کامیاب ہوئی تھی‘ بی جے پی 1991کے علاوہ کبھی نہیں جیت سکی‘ دھرمیندر یادو کی مقبولیت حریف امیدواروں کے لئے ایک بڑا چیالنج

نئی دہلی۔ بدایوں مغربی اترپردیش کے ان چند لوک سبھاحلقوں میں سے ایک ہے ‘ جسے سماج وادی پارٹی کا مضبوط قلعہ کہاجاتا ہے ۔

یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ 2014کی ملک گیر مودی لہر میں بھی بی جے پی سماجوادی پارٹی کا یہ قلعہ قمع نہیں کرسکی۔ بی جے پی صرف1991میںیہاں سے کامیاب ہوسکی ہے ۔

اب ایک بار پھر بی جے پی نے اپنے طور پر ایک مضبوط امیدوار اتار کر سخت چیلنج دینہ کی کوشش کی ہے۔وہیں کانگریس بھی 1984کی تاریخ دہرانا چاہتی ہے ۔

لیکن 1984سے اب تک حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ بہرحال ‘ اس مرتبہ کل ملاکر یہا ں سے نو امیدوار میدان میں ہیں۔

لیکن اہم مقابلہ موجدہ ممبر پارلیمنٹ اورسماج وادی پارٹی کے امیدوار دھرما یادو اور بی جے پی کے سگھ مترا موریہ کے درمیان ماناجارہا ہے ۔

جبکہ کانگریس نے سلیم اقبال شیروانی کومیدان میں اتارکر ایک با ر پھر واپسی کی کوشش کی ہے ۔ ان کے علاوہ چار بطور آزاد امیدوار اپنی قسمت آزمارہے ہیں ۔

سلیم شیروانی یہا ں سے تقریبا بیس برسوں تک پارلیمنٹ میں نمائندگی کرچکے ہیں ‘ لیکن ان کے پاس اپنی صاف ستھری شبہہ کے علاوہ عوام کو متوجہہ کرانے کے لئے او رکچھ نہیں ہے۔

اتنے برسوں تک نمائندگی کرنے کے باوجود وہ بدایوں میں کوئی قابل ذکر کام انجام نہیں دے سکے ۔

وہیں بی جے پی نے سوامی پرساد موریہ کی بیٹی سنگھ مترا موریہ کو میدان میں اتاکر مقامی بی جے پی لیڈران کی ناراضگی مول لی ہے۔

اس کا اندازہ ان کی انتخابی ریالیوں سے ہوجاتا ہے۔بدایوں پارلیمانی حلقہ کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے ہی لگایاجاسکتا ہے کہ یہاں ابھی تک سبھی اہم سیاسی جماعتوںں کے سربراہان او رسینئر لیڈران انتخابی ریالیاں کرچکے ہیں۔

ان میں اتحاد کی جانب سے سماج وادی پارٹی کے سربراہ او رسابق وزیراعلی اکھیلیش یادو ‘ بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی ‘ آر ایل ڈی کی جانب سے چودھری اجیت سنگھ ‘ کانگرسی صدر راہول گاندھی ‘ مغربی یوپی کے انچارج جیوترا ادتیہ سندھیا‘ بی جے پی صدر امیت شاہ ‘ مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ وغیرقابل ذکر ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ قومی لیڈران بدایوں کے رائے دہندگان پر اپنا کتنا اثرچھوڑ پاتے ہیں۔ جبکہ عام رائے دہندگان سے بات کرنے پر انداز ہوتا ہے کہ ایک تویہاں قومی مسائل پر زیادہ گفتگو نہیں ہورہی ہے ‘ دوسرے فرقہ واریت اور ذات پات کی بنیاد پر بھی کوئی سیاسی چپقلش نہیں ہے۔

اس مرتبہ عام ووٹر یہاں امیدواروں کی مقبولیت اور مقامی سطح کے مسائل کی بنیاد پر ووٹ کرنے جارہے ہیں۔ بدایوں پارلیمانی حلقہ کو یادو ۔ مسلم اکثریت حلقہ مانا جاتا ہے۔

جہاں تک بدایوں میں ووٹروں کا تعلق ہے تو 2014کے پارلیمانی انتخابات کے اعداد وشمار کے مطابق یہاں پر تقریبا ساڑھے ستر لاکھ رائے دہندگان ہیں۔

اس میں صرف یادو رائے دہندگان کی تعداد تقریبا چارلاکھ ہے جبکہ تین لاکھ75ہزار مسلم ووٹر ہیں۔

یہی وہ عنصر ہے جو سماج وادی پارٹی کے حق میں جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ سماج وادی پارٹی پہلے ہی سوشیل انجینئرنگ کے محاذ پر وائی ایم ( یاد و مسلم) کے ساتھ کامیابی حاصل کرتی رہی ہے ۔

اس مرتبہ ایس پی سے اتحاد کے بعد دلت ووٹر بھی اس کے حق میں آنے کا امکان ہے ۔

کیونکہ مایاوتی خود اکھیلیش یادو کے ساتھ یہاں دھرمیند ریادو کو اپنا آشیرواد دے چکی ہیں۔اس کے علاوہ یہاں دولاکھ 28ہزار غیریادو بی سی ووٹر بھی ہیں۔

بدایوں میں گذشتہ چھ لوک سبھا انتخابات سے سماج وادی پارٹی کامیاب ہوتی رہی ہے ۔

اس وقت ایس پی کے بانی ملائم سنگھ یادو کے بھتیجے دھرمیندر یادو یہاں سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور وہ مسلسل دوبار یہاں سے الیکشن جیت بھی چکے ہیں۔

سال2014کے انتخابات میں مودی کی لہر کے باوجود سماج وادی پارٹی نے یہاں پر بڑے فرق سے جیت درج کی تھی۔

ایسے میں اب سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے یہاں سے راہ آسان نہیں ہے ۔

تقریبا دودہائی میں ایس پی کا گڑھ بن چکے بدایوں لوک سبھا سیٹ پر ابتدائی دور میں کانگریس کااثر رہا تھا۔

پہلے دو انتخابات میں کانگریس کو کامیابی ملی ‘ لیکن 1962اور1967میں بھارتیہ جن سنگھ نے بڑے فرق سے انتخابات میں جیت حاصل کی تھی۔

سال1977کے الیکشن کو چھوڑ کر کانگریس نے 1971‘1980‘اور1984میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد کانگریس پھر کبھی اس سیٹ پر جیت حاصل نہیں کرسکی۔

سال1989میں منڈل کمیشن اور وی پی سنگھ کی لہر میں بدایوں کی سیٹ جنتا دل کے حق میں گئی جب یہا ں سے شرد یادو کامیاب ہوئے او رمرکز ی وزیر بنائے گئے۔

اس کے بعد اڈوانی کی رتھ یاترا سے ملک بھر میں پیدا ہوئی رام لہر نے 1991میں یہا ں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے بازی مارلی ۔ بی جے پی نے سوامی چنمیانند کو اپنا امیدوار بنایاتھا ۔

لیکن اس کے بعد پھر کبھی بی جے پی اس سیٹ کو نہیں جیت سکی ۔ سال1996میں سلیم اقبال شیروانی نے انتخاب جیت کرسماج وادی پارٹی کی جیت کا جوسلسلہ شروع وہ اب تک برقرار ہے۔ سلیم شیروانی مسلسل چار بار انتخابی جیت کا پرچم لہرایا ۔

سال2009میں اس سیٹ پر یادو خاندان کی انٹری ہوئی او رملائم سنگھ کے بھتیجے دھرمیندر یادونے یہاں یکطرفہ کامیابی حاصل کی ‘ ان کو تقریباً48فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

سال2014میں مودی لہر کے بھروسے انتخابات میں اتری بی جے پی کا جادو یہاں نہیں چلا اور ان امیدواروں کو صرف32فیصد ہی ووٹ ملے ۔

لہذا اب دیکھنا یہ دلچسپ ہوگا کہ دھرمیندر یادو کی مقبولیت کو بی جے پی اور کانگریس کیسے چیالنج کر پاتے ہیں۔