بارہ فیصد تحفظات کی گونج ادارہ ’’سیاست‘‘ کی خدمات قابل ستائش

عظیم خان زید
انتہائی حوصلہ افزا ہے ادارہ ’سیاست‘ کی جانب سے 12% مسلم تحفظات کی شعور بیداری اور تمام فکری و عملی تحریکیں جو محض مسلم ملی ہمدردی اور مسلم معاشرے کی ترقی کی بنیاد پر قائم ہیں ۔ آج نہ صرف ریاست تلنگانہ بلکہ سارے ملک اور دنیا کی نظر میں اس مہم کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے ۔ دنیاوی اعتبار سے اس لئے بھی کہ اخبار ’سیاست‘ کو پڑھنے والے آج دنیا کے ممالک میں قائم مسلمان ہیں جو اس تحریک و مہم کا پابندی کے ساتھ جائزہ لے رہے ہیں ، قابل تحسین ہیں کہ یہ مشہور ادارہ سیاست جو نہ صرف ریاست میں اپنی بہترین خدمات گذشتہ 67 سال سے انجام دے رہا ہے بلکہ سارے ملک اور دنیا میںاپنی بہترین صاف و شفاف ملی خدمات کا لوہا منوارہا ہے ۔ ریاست اور ملک کے مسلم معاشرے کے درپیش مسائل کو کونے کونے تک پہنچانے میں مرحوم عابد علی خاں صاحب کی ملی ہمدردی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج انہی کی ہونہار اور انتہائی قابل فخر نسل اس ادارہ کو مزید مضبوط کررہی ہے ۔ محترم چیف ایڈیٹر جناب زاہد علی خان صاحب کی ملی مسلم معاشی اور سماجی خدمات سے کون واقف نہیں ۔ آج مسلم معاشرے میں آپ کی شخصیت کا موجودرہنما مسلم معاشرے کیلئے ایک قابل فخر انعام ہے اور اس کے علاوہ آپ کے قابل فخر صاحبزادہ نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست عامر علی خان صاحب کی خدمات 12% مسلم تحفظات کیلئے ساری ریاست میں پھیلی شعور بیداری کا نتیجہ ہے ۔ بالخصوص ریاست کے نوجوان مسلم معاشرے کی ترقی کیلئے ان دنوں انہوں نے جو خدمات پیش کی ہیں اس کے لئے تمام مسلم معاشرہ آپ کا تہہ دل سے مشکور ہے ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ریاست تلنگانہ کا قیام مسلم عوام کے ایثار کے بغیر ناممکن تھا ۔ مسلمانوں نے علحدہ تلنگانہ کیلئے اپنی بہتر سے بہتر خدمات انجام دیں اور مسلمانوں نے علحدہ تلنگانہ کیلئے اپنا جوش و خروش دکھایا ہے ۔ مسلمان طبقے کا ہر فرد علحدہ تلنگانہ کی تحریک اور جد وجہد میں برابر کا شریک رہا ہے ۔اپنی شخْصی اور ذاتی مصروفیات کے تمام نقصانات کو علحدہ تلنگانہ کی خواہش میں برداشت کرتا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم عوام کے پر جوش آزاد تلنگانہ کے جذبوں نے ریاست کو ایک علحدہ اور مخصوص مقام تک پہنچایا ۔ مسلم عوام نے اپنی جانی اور مالی نقصانات کو ریاست کے قیام کیلئے قبول کیا تاکہ نوآباد ہونے والی ریاست کی یکسانیت اور مساوات کی بنیاد کو مضبوط کرسکے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاست تلنگانہ کا خواب مسلمانوں کیلئے پورا نہ ہوپا رہا ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر جو اپنے انتخابی وعدے مسلمانوں کے ساتھ کئے تھے وہ تمام وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ۔ ریاست کے مسلمانوں کیلئے 12% مسلم تحفظات کے وعدے انتخابات کا منشور رہے ہیں اور مقصد رہے ہیں ۔ مسلمانوں نے انہی وعدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علحدہ تلنگانہ کی ٹی آر ایس جماعت کو انتخابات میں اپنی رائے اور قیمتی تائید دے کر ریاست کے ساتھ محبت اور اخلاص کا ثبوت دیا ۔ لیکن جب وعدوں کو پورا کرن کا وقت آیا تو اپنے تمام وعدے جو انہوں نے انتخابات کے وقت کئے تھے ان سبھی وعدوں سے مکررہے ہیں  ۔ اس کا ثبوت ان دنوں ریاست میں جاری مسلم تحفظات کی تحریکات اور شعور بیداری سے بالکل ناواقفیت ظاہر کررہے ہیں ۔ اپنی ذمہ داری اور عمل آوری کیلئے کوئی بھی ٹھوس اقدامات لینے سے لاپروائی برتے جارہے ہیں جبکہ یہ بات حقیقت ہے کہ Muslim Minority Constitution Rights جمہوری قانون کے تحت ہی لازم ہوجاتے ہیں ۔ دستور میں لکھی ہوئی ہر بات ملک کیلئے قانون کا درجہ رکھتی ہے جمہوری نظام میں دستور کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ اس کا جھٹلانا ایسا ہے جیسے ملک کے قانون اور عدلیہ کی توہین کرنا ۔ اس لئے 12% مسلم تحفظات کیلئے مسلم اقلیت معاشرہ ، ریاست ، تلنگانہ سے جمہوریت اور دستور ہند کے مطابق ہی اپنا حق منوانا چاہتا ہے ۔ مسلم اقلیت ریاست سے یا ملک سے کوئی غیر قانونی یا غیر دستوری مطالبہ نہیں کررہی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا تقاضہ کررہے ہیں جو قانون اور عدلیہ کیلئے غیر معیاری اور نامناسب ہو ۔ یہ مطالبہ دستوری ہے اور خالص جمہوری ہے اور مسلم اقلیت طبقے کی معاشی ترقی کیلئے اس کی عمل آوری لازمی اور ضروری ہے ۔ اگر اس کی پابجائی پوری نہ ہوتی ہو اور اس پر بروقت عمل نہ کیا جاتا ہو تو اس میں نہ صرف مسلم اقلیت کے ساتھ ناانصافی و حق تلفی ہوگی بلکہ دستوری اور جمہوری بنیاد پر قانون اور انصاف کیلئے انتہائی بدنظمی اور حکم عدولی ہوگی جو ایک کامیاب اور انصاف پسند ملک کی پہچان نہیں ۔
اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ یہ اکثر ہوتا آتا ہے کہ جب سے ملک غیروں کی غلامی سے آزاد ہواہے تب سے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی اور غیر معیاری رویہ اپنایا جارہا ہے ۔ ملک کی مسلم اقلیت عوام کے ساتھ دوہرا سلوک کیا جاتا ہے ۔ مسلم طبقہ ہر لحاظ سے ہر معاملے میں غیر محفوظ اور کمزور نظر آتا ہے ۔ اسکی اہم وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی یا پھر مسلم دشمنی ، سیاسی اور سماجی پالیسیاں ہوسکتی ہیں جو ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی سوچی سمجھی منظم منصوبہ بند سازش رہی ہیں  ، جسکی وجہ سے ملک میں مسلم طبقہ آزادی کے فوری بعد معاشی اور مالی بحران میں مبتلا ہوتا جارہا ہے ۔ پسماندگی اور بے روزگاری کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔ ییہ ایک ایسے ملک میں قائم مسلم عوام کی زندگی سے جڑا ہوا المیہ ہے جو کبھی ختم ہونا ہی نہیں چاہتا ۔

ریاست تلنگانہ کے غریب مسلم عوام تلنگانہ کے قیام کے بعد چند بنیادی و ذیلی مراعات و سہولتوں کو اپنی عام زندگی میں پارہی ہیں لیکن یہ تمام مسائل ایک مخصوص اور محدود درجوں تک ہی پورے ہوپارہے ہیں ۔ جسکی نشاندہی صرف ذیلی و بنیادی مسائل کے حد تک ہی کی جاسکتی ہے جبکہ اہم درجے کے ضروری عبوری مسائل مسلم وام کیلئے ایک خطرے کا نشانہ بن کے ابھر رہے ہیں ۔ جس کو بروقت قانون اور انصاف کی بنیاد پر اپنے آخری نتیجے پر نہ پہنچایا جائے تو انتہائی ناانصافی ہوگی۔ تلنگانہ میں اس وقت اہم ضرورت صرف 12% ’’مسلم تحفظات‘‘ ہے جو عنقریب ریاست تلنگانہ میں پُر ہونے والی ایک لاکھ سے بھی زیادہ ریاستی سرکاری ملازمتیں ہیں جس میں ریاست کی مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو 12% مسلم تحفظات کے تحت کم و بیش 20 ہزار سرکاری ملازمتیں ملنے کے مواقع ہیں جس کے لئے مسلم عوام مطالبہ کررہے ہیں ۔ جبکہ عنقریب ہر محکمہ سے ملازمتوں کے پُر ہونے کا اعلانیہ جاری ہونے والا ہے ۔ ریاست کے محکمہ کے اعلانیہ سے قبل مسلم اقلیتی نوجوان طبقہ سرکاری ملازمتوں میں اپنا 12% محفوظ تناسب چاہتا ہے ۔

چیف منسٹر جناب کے سی آر سے تمام مسلم اقلیت پورے امن اور احترام کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدے کو پورا کریں ، جو خواب ریاست کے مسلمانوں کو انہوں نے دکھایا ہے اسے پورا کریں ۔ ریاست کے مسلم نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کے ذریعہ ریاست کی خدمات کا موقع دیں ۔ جو آواز ہر چھوٹے بڑے علاقہ سے بلند ہورہی ہے چیف منسٹر صاحب اس کا نوٹس لیں ۔ 12% مسلم تحفظات کے نام پر پیش کی جانے والی یادداشتوں کا نوٹس لیں اور اس کے لئے جو ضروری اور اہم اقدامات ہوسکتے ہیں اس کے لئے فوری عمل آوری اختیار کریں ۔ یہ آوازیں اور بھی بلند ہوں گی ۔ اس کی گونج ریاست کے کونے کونے سے نکل کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک کو جھنجھوڑ سکتی ہیں اور ہم مسلمان پورے ادب و احترام کے ساتھ اس آواز کو اس وقت تک بلند کرتے رہیں گے جب تک ہمارے مسائل کا حل نہ نکل آئے ۔ یہ ایک مسئلہ ہی مسلم طبقہ کیلئے مطالبہ کا باعث نہیں ۔ بہت سے اور بھی مسائل منظرعام پر آسکتے ہیں ۔ اگرچیکہ مسلمانوں کے مسائل کی بروقت عمل آوری نہ ہو جو آوازیں اپنے حق کو پانے کیلئے بلند کی جارہی ہیں اس کو خاموش کرنے کے منصوبے یا بہانے نہ بنائے جائیں  ۔یہ آواز نہ صرف تلنگانہ ریاست کے مسلم عوام کی ہیں بلکہ یہ آواز تمام ملک کی مسلم اقلیت کی ہے ۔