بادشاہت پر مبنی حکمرانی

سلمان عابد، پاکستان
پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف کے سیاسی مخالفین کی بڑی تنقید ان کے ’’ بادشاہت پر مبنی نظام ‘‘ پر ہوتی ہے ۔ اس وقت بھی جو حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی مخالفانہ مہم جاری ہے ، اس میں ایک نعرہ ’’ بادشاہت ‘‘ کے نظام کا خاتمہ بھی ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی بادشاہت کے انداز حکمرانی پر تنقید محض عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری ہی کی نہیں بلکہ دیگر سیاسی قیادت جن میں آصف علی زرداری ، چوہدری برادران اور سراج الحق بھی نمایاں ہیں ۔ آصف علی زرداری کے بقول لوگوں نے نواز شریف کو بطور جمہوری حکمران مینڈیٹ دیا ہے ، جبکہ وہ بادشاہت پر مبنی نظام کو تقویت دے کر خود اپنے لیے اور سیاسی ، جمہوری نظام کیلئے بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔وزیر اعظم نواز شریف کی حکمرانی پر تنقید سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اشرافیہ کے حلقوں میں بھی موجود ہے ، جو مسائل کی سنگینی کا احساس دلاتی ہے ۔

بنیادی طور پر پاکستان کی جمہوریت کو سب سے بڑا چیلنج بھی جمہوریت یا جمہوری حکمرانوں کے اندر سے ہی ہے ۔کیونکہ جب بھی جمہوریت کو نقصان پہنچا تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہمارے جمہوری حکمران بھی رہے ہیں ۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے ، جب کہ ہم جمہوریت میں اپنی ذات کے حصار میں قید ہوکر ’’ بادشاہت کی حکمرانی ‘‘کو طاقت دے کر اپنی حکمرانی کے نظام کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں ۔ عام لوگوں سمیت سیاسی اشرافیہ کے طبقہ میں جو جمہوری حکومتوں کی جمہوریت سے مایوسی ہوتی ہے ، اس کی وجہ بھی بادشاہت اور آمرانہ طرز عمل کو بھی فوقیت حاصل ہے ۔جمہوریت میں عملی طور پرسب لوگ برابر ی کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی کے تابع ہوتے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قانو ن کی حکمرانی کا تعلق براہ راست عام ، کمزور اور غریب لوگوں سے ہوتا ہے ۔اسی تضاد کی باعث ہماری جمہوری سیاست ابھی تک اپنی بقا کے راستہ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے ۔
اگرچہ بہت سے لوگ یہاں اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ’’ سیاسی بادشاہت ‘‘ کے الفاظ کو اپنی سیاسی برتری کے لیے استعمال کرتے ہیں ، لیکن ان الزامات میں کچھ سچائی بھی موجود ہے، جن پر غوروفکر کی ضرورت ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ بادشاہت کی حکمرانی ‘‘ سے کیا مرادہے ۔ اول ایک ایسی حکمرانی جہاں اداروں کے مقابلے میں فرد کی حکمرانی کا غلبہ ہو۔

دوم جہاں فیصلوں کا اختیا ربہت سے لوگوں کے مقابلے میں کسی ایک فرد کو حاصل ہو۔ سوم حکمران طبقہ اپنے آپ کو قانون کی حکمرانی کے تابع کرنے کی بجائے قانون کو اپنے تابع رکھتا ہے ۔ چہارم اس کا انداز حکمرانی اور انداز زندگی شاہانہ طرز عمل پر مبنی ہو۔پنجم وہ اپنی حکمرانی کے نظام میں سب لوگوں کو ساتھ ملانے کی بجائے اپنی ذات، خاندان اور چند قریبی دوستوں کو ساتھ رکھ کر نظام کار کو چلاتا ہے ۔ان تمام نکات کا تجزیہ کریں تو اس میں جہاںہمیں اور کچھ حکمران یا سیاسی قیادتیں بالادست نظر آئیں گی ان میں شریف برادران کی حکمرانی بھی ایک سوالیہ نشان کے طور پر نظر آئے گی ۔
جمہوریت اور بادشاہت پر مبنی نظام کے درمیان بنیادی فرق ہی طرز حکمرانی کے نظام سے جڑا ہوتا ہے ۔ جمہوریت لوگوں کو راستہ فراہم کرتی ہے جس میں فرد کی آزادی ، نقل و حمل ، اظہار کی آزادی اور سیاسی و سماجی آزادیوں کے عمل کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ جبکہ بادشاہت لوگوں کے ساتھ فاصلہ رکھ کر او ران کی بنیادی آزادیوںکو کنٹرول کرکے حکمرانی کے نظام کو قائم کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم بادشاہت کے مقابلے میں عوام کی حکمرانی کے نظام کے حامی ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں حکمرانی کا نظام اپنے اندر لاتعداد مسائل رکھتا ہے ، اس میں وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کے نظام پر بڑی تنقید کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اس خرابی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام مرکزیت کے نظام پر کھڑا ہے ۔مرکزیت پر جو بھی نظام ہوگا ، اس میں بگاڑ بھی پیدا ہوگا اور لوگوں میں اس نظام پر ایک خاص ردعمل بھی سامنے آئے گا ۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ معاملات میں فیصلہ سازی، وسائل ، اختیار اور طاقت کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے، اس کے بقول اس حکمت عملی کے تحت وہ اپنی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بناسکتا ہے ۔ لیکن وہ اس بنیادی غلطی کا بھی شکار ہوتا ہے کہ جس کو وہ ایک مضبوط حکمرانی سمجھتا ہے وہ عملی طور پر اپنے اندر سے کمزور ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب جمہوری حکمرانوں کی بادشاہت کمزور ہوتی ہے یا انھیں کسی بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کی اپنی جماعت اور لوگ ان سے لاتعلق نظرآتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت حکومت جس بحران سے گزررہی ہے اس میں ان کی اپنی جماعت کی موجودگی اور حکمت عملی سوالیہ نشان ہے ۔جو لوگ وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کو قریب سے دیکھ رہے ہیں ، ان کے بقول ان کی حکمرانی میں سب سے بڑا مسئلہ مشاورت اور ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فقدان ہے ۔
وزیر اعلی پنجاب کا تو المیہ یہ ہے کہ ان کی مشاورت سیاسی لوگوں کے مقابلے میں غیر سیاسی یعنی بیوروکریسی پر منحصر ہوتی ہے ۔ پارلیمنٹ ، کابینہ ، پارٹی اور پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے معاملات میں موجودہ حکمرانوں کی عدم دلچسپی پر تو خود ان کی اپنی پا رٹی میں بھی مایوسی پائی جاتی ہے ۔بادشاہت پر مبنی حکمرانی کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اداروں کی تشکیل یا انھیں مضبوط بنانے کی بجائے اپنی ذات کو مضبوط بناتا ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو بھی عوامی منصوبوں کا معاملہ سامنے آتا ہے یا ایسے منصوبے جن کا مقصد غریب اور مستحق لوگوں کو ریلیف دینا ہو تو ہمیں موجودہ حکمران میڈیا میں خود نمائی کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ ایک منظر جو بہت غالب ہے کہ ایک طرف غریب لوگوں کی مدد کے لیے میڈیا کی تشہیر کو ممکن بنا کر ان کی غربت کا مذاق آڑایا جاتا ہے ، تو دوسری طرف ان اشیا پر حکمرانوں کی تصاویر خود بادشاہی حکمرانی کو تقویت دیتی ہے ۔
اگرچہ یہ المیہ محض موجودہ حکمران یا نواز شریف کی حکومت کا نہیں ، بلکہ ہماری سیاست میں جو باقی حکمران طبقات ہیں ان کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ۔ لیکن کیونکہ یہاں موجودہ حکومت کی بات ہورہی ہے تو اس وقت نواز شریف کی حکومت کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ بالخصوص پنجاب کے وزیر اعلی اپنے آپ کو کیونکہ خادم اعلی سے تشبیہ دیتے ہیں تو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان حکمرانی میں جو لفظ خادم اعلی ہے و ہ کس حکمرانی کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے ۔اصل میں اگر ہمیں جمہوری مقدمہ اپنی سیاست اور سماج میں مضبوط کرنا ہے تو کوئی بھی حکمران چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ، اپنے اندر جمہوری مزاج پر مبنی حکمرانی کا جمہوری ڈھانچہ بھی ترتیب دینا ہوگا ۔یہ تضاد کہ ہم ایک طرف جمہوریت پر مبنی نظام چلائیں اور دوسری طر ف اس کے برعکس ہمارا حکمرانی کا نظام جمہوری اصولوں کے برعکس ہو، نہیں چل سکے گا ۔لوگ اپنے حکمران اور بالادست طبقات کو بھی اپنی ہی طرح دیکھنا چاہتے ہیں ، جہاں وہ بھی اتنے ہی جوابدہ ہوں جتنے وہ ریاست اور حکومت کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں جبکہ بادشاہت کی حکمرانی طبقاتی فرق کو بھی نمایاں کرتی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی پاکستانی معاشرہ ایک حقیقی جمہوریت کو حاصل کرکے آمرانہ اور بادشاہت پر مبنی نظام سے باہر نکل سکے گا، اگرچہ یہ کام کوئی آسان نہیں ، لیکن ایک بڑی سیاسی جدوجہد کا ضرور تقاضہ کرتا ہے ۔ہمیں اپنے سیاسی کارکنوں چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہوان کو یہ باور کروانا ہوگا کہ انھیں اپنی جمہوری جدوجہد کو محض خارجی محاذ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے ، بلکہ اپنی پارٹی اور قیادت پر دباو ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی سیاست ، طرز عمل اور حکمت عملیوں کو بھی جمہوری سیاست کا حصہ بنائیں ۔ اس کام میںسیاسی اشرافیہ کا طبقہ جو رائے عامہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ، کا اہم کردار بن جاتا ہے کہ وہ حکمران طبقات میں بادشاہت کی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرکے انھیں جمہوری سیاست کے طرف لانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ وگرنہ دوسری صورت میں بادشاہت پر مبنی نظام جمہوری نظام کی نفی ہے ، اور یہ عمل لوگوں میں جمہوریت پر ان کی سیاسی کمٹمنٹ کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا ، جو جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ۔
برائے رابطہ ائی میلsalmanabidpk@gmail.com
برائے ایس ایم ایس00923008429311