بات کو آگے بڑھائیے

جناب زاہد علی خان صاحب کی نت نئی سماجی اصلاحات سے کون واقف نہیں ہیں۔ لاوارث نعشوں کی تجہیز و تکفین ، دوبدو رشتوں کاسلسلہ ، شادیوں میں اسراف وغیرہ وغیرہ۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں پکے ہیں اور اپنے خیالات کو عملی جامہ پہناتے رہتے ہیں ان کی توجہ قدیم طریقے علاج پر جو ہورہی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ ایلوپیتھی کے متبادل علاجوں کو جن کو Alternative Medicine کہا جاتا ہے اُن کی اہمیت ساری دنیا میں پھیل رہی ہے ۔ یونانی میڈیسن میں بھی ان کی کافی جدوجہد ہے اور اس کی تعلیم وغیرہ پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی مسلسل سرپرستی حاصل ہے ۔
حجامہ وغیرہ جیسے علاج جن سے ہم جیسے ڈاکٹرس واقف بھی نہیں تھے اُن کے مسلسل کیمپس سیاست کے دفتر میں منعقد کرتے ہیں۔ جناب ظہیرالدین علی خان صاحب بھی شانہ بشانہ ان تحریکات میں شامل ہیں۔ یونانی طریقہ علاج کی سرپرستی جس طرح حیدرآباد میں ہورہی ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ حکومت ہند کے کئی اسکیمات ان متبادل طریقے علاج پر ریسرچ کے لئے تدوین کی گئی ہیں مگر سوائے برص کے کسی اور قسم کی ریسرچ یونانی میں نہیں ہورہی ہے ۔ جناب زاہد علی خان صاحب اور ظہیرالدین علی خان صاحب نے کئی مرتبہ ان قدیم علاجوں پر ریسرچ کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر چونکہ حکماء عصری ریسرچ کے عملی پہلوؤں سے ناواقف ہیں اس لئے اس سمت کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ۔

مرحوم ڈاکٹر حبیب اﷲ صاحب کو جگر کے امراض کی ریسرچ میں خاصی دلچسپی تھی ۔ انھوں نے انٹرنیشنل ریسرچ آرگنائزیشن کے اشتراک سے تجربات و مشاہدات بھی شروع کردیئے تھے۔ افسوس کہ اُن کی قبل از وقت جدائی سے یہ پراجکٹ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ نہیں سکا۔ میں ایک تجویز زاہد علی خان صاحب کی خدمت میں پیش کر نا چاہتا ہوں ، گزشتہ کئی سالوں سے پالمیر یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹر معین انصاری کے زیرقیادت کئی طلباء حیدرآباد آرہے ہیں اور کیرو پریکٹس سے علاج کررہے ہیں ۔ یہ بھی ایک متبادل طریقے علاج ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جوڑوں کے درد بہت عام ہیں اور اکثر یہ درد Physio Theropy سے کم ہوجاتے ہیں ۔ اکثر ہڈیوں کے ڈاکٹر ہمہ اقسام کی ہلکی ورزش ، مشقیں بتاتے ہیں جن سے فائدہ ہوتا ہے ۔ صحتمند طریقے سے کس طرح اپنے ہڈیوں کے ڈھانچے کو استعمال کرنا چاہئے اس کی معلومات ضروری ہیں۔ ایک طرف جُھک کر چلنے سے یاپھر اپنے جوڑوں کو اُن کی پوری قابلیت کا بھرپور استعمال نہیں کرنا جسم کو صحیح طریقہ سے ایستادہ نہیں رکھنا، اس کی وجہ سے جسم کے ڈھانچوں میں عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے اور جوڑوں کے درد شروع ہوسکتے ہیں جو کیرو پریکٹس سے کم ہوسکتے ہیں۔

ادارہ سیاست کی طرف سے اس سال جو تیاریاں کی گئی تھیں اس کی وجہ سے بلامعاوضہ تقریباً 2000 لوگ مستفید ہوئے ۔ 2000 مریضوں کا یہ مواد بہت اہم اورزرین طبی معلموات کا ذخیرہ ہے چونکہ یہ ایک یونیورسٹی کی نگرانی میں کئے ہوئے سالانہ پابندی سے ہونے والے پروگرامس ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ان کا تجزیہ ، درجہ بندی وغیرہ عصری اور سائنٹفک طریقے سے ہوتی ہوگی ۔ میرا مطالبہ یہ ہے کہ دو ہزار مریضوں کا Data Base دنیا کے کسی حصے میں اتنی آسانی سے دستیاب ہو نہیں سکتا ۔ چونکہ ہر سال ان کا اندراج ہوتا ہوگا تو یہ ایک بہترین ریسرچ پروگرام ایک امریکن یونیورسٹی کی نگرانی میں کیا جاسکتا ہے ۔ ہندوستانی ڈاکٹروں کے تعلق سے ترقی یافتہ ممالک کو شکایت رہا کرتی ہے کہ ہم ہمارے اہم مشاہدات کی پیشہ وارانہ طریقے سے تحلیل نہیں کیا کرتے ہیں ۔ مثلاً اگر ہم کو یہ معلوم ہوجائے کہ جملہ دو ہزار مریضوں میں کس عمر کے لوگ شامل تھے ، ان کی شکایت کیا تھی ، کیا اُن کی کوئی تحقیقات کئے گئے تھے اور اگر کئے گئے ہوتے تو ان میں Osteo Arthritis کے مریض کتنے تھے ۔ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کیا شامل حال تھا یا نہیں ۔ ان میں پہلی مرتبہ آنے والے مریض کتنے تھے اور مکرر آنے والے کتنے اور ایک سب سے اہم بات جو ہے وہ ہے ان لوگوں کا وزن ، موٹاپا اور جسمانی درد دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ بحرحال سب سے خوش آئند بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر معین انصاری اور اُن کی ٹیم بڑی پابندی کے ساتھ فری کیمپس منعقد کرتی ہے ۔

اس لئے ان کے پاس تیار مواد ہوگا جو ممکن ہو طلباء اپنی ریسرچ یا تعلیم میں استعمال کرتے ہوں گے ۔ یہ معلومات ہمارے لئے بھی بڑی مفید ثابت ہوسکتی ہے ،تاکہ مریضوں کی صحیح رہبری ہو ۔ یہ ایک تعمیری اور ـکارآمد پیشرفت ہوگی ۔ اگر اب تک ایسا نہیں کیا گیا ہے تو پھر ڈاکٹر معین انصاری صاحب سے خواہش کی جاسکتی ہے کہ اس کیلئے ایک مناسب سافٹ ویر یونیورسٹی کے تعاون سے تیار کیا جاسکتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی یونیورسٹی ایسی تجویز کا خیرمقدم کرے گی اور امریکہ کی کئی یونیورسٹیاں اس کیلئے گرانٹس بھی منظور کرتی ہیں ۔ اب یہاں سے میں بات کو اور آگے بڑھانا چاہونگا ۔ حجامہ اور دوسرے قدیم علاجوں پر بھی باہر کی یونیورسٹی کی مدد سے سائنٹفک ریسرچ کے پراجکٹ شروع کئے جاسکتے ہیں ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ادارۂ سیاست کی اتنی پرزور سرپرستی یونانی میڈیسن کیلئے نہ ہوتی تو یہ کھنڈرات کے نظر ہوتی ۔ اس سالانہ پروگرام کیلئے ہمارے اطباء بھی یہ مواد جمع کرسکتے ہیں بشرطیکہ اچھا سافٹ ویر دستیاب ہو۔ تحریکات میں سکون نہیں آنا چاہئے ۔ ڈیجٹل ٹکنالوجی کے استعمال سے مریضوں کے تعلق سے جو Demography اور Epidemiology ہے اس کی ہر میڈیکل ریسرچ میں بنیادی ضرورت ہوتی ہے ۔

Chiropractor کا عمل ہمارے ہاں اتنا عام نہیں ہے اور عوام اس سے واقف نہیں ہیں ۔ ہمارے ہاں کے اطباء کو بھی ٹریننگ دی جاسکتی ہے ۔ اس لئے اس پروگرام میں وسعت کی گنجائش ہے ۔ ہندوستان میں مرکزی حکومت یونانی اور متبادل طریقے علاج کے فروغ کے لئے کافی فنڈس مختص کی ہے اور حیدرآباد میں جو یونانی ریسرچ سنٹر برص پر کام کررہا تھا وہ صحیح رہبری کرسکتا ہے ۔ کافی عرصے سے برص کے یونانی علاج پر ریسرچ ہورہی ہے مگر اس کی فی الحال کیا صورتحال ہے اُس سے عوام واقف نہیں ہیں۔ یہ سب معلومات اب Public Domain یعنی عوامی دربار میں آنے چاہئیں یعنی انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے چاہئیں۔ چونکہ ادارہ سیاست عصری ڈیجیٹل ٹکنالوجی کا خوب استعمال کرتا ہے اس لئے وہ ہی اس سمت میں کوئی پہل کرسکتا ہے ۔