رام پنیانی
کیا تنظیمیں وہی کہتی ہیں جو وہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟ ایسا ضروری نہیں ہے۔ یہ بات آر ایس ایس سرسنگھ چالک موہن بھگوت کے تین طویل لیکچرز سے واضح ہوگئی۔ وہ ایونٹ دراصل مباحثہ ہونے والا تھا، لیکن یہ دیکھا گیا کہ اس مباحثہ میں زیادہ تر بھگوت لیکچرز کے اختتام پر چند سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ سوالات کے جواب دینے کا یہ معمول کی روایت پرزور طریقے سے اجاگر ہوئی، کیونکہ شاید یہ اس آرگنائزیشن کیلئے ضرور دلچسپ چیز رہی ہوگی۔
بھگوت نے ایسا کیا کہا جو نیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ ہندوتوا میں مسلمان شامل ہیں، آر ایس ایس دستور کا احترام کرتی ہے، آر ایس ایس ریزرویشن کا مخالف نہیں ہے، آر ایس ایس آمرانہ نہیں بلکہ شری بھگوت سے بھی ہٹ کر دیگر کے خیالات کیلئے جگہ ہے، آر ایس ایس اس ہندو قوم کی مختلف النوع خاصیت کا احترام کرتی ہے وغیرہ۔ یہ واضح ہوگیا کہ موصوف اپنی آرگنائزیشن پر اس کے نقادوں کی تنقید کا جواب دے رہے تھے، اور ان پر متعدد تنقیدیں ہیں۔ جو چیز غیرمعمولی نظر آئی وہ آر ایس ایس کی زبان میں اس کے بڑے نظریہ ساز گرو گولوالکر سے موجودہ سربراہ مسٹر بھگوت تک تبدیلی ہے؟
جہاں گولوالکر نے کھلے طور پر نازی طریقوں کی تعریف کی کہ کس طرح اقلیتوں کا صفایا کیا جائے، وہیں بھگوت مذہبی اقلیتوں کے وجود کو قبول کرتے سنائی دیئے۔ جہاں گرو نے مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کو ہندو قوم کیلئے داخلی خطرہ ببانگ دہل کہا تھا، وہیں بھگوت نے کہہ دیا کہ وہ گروجی سے پوری طرح متفق نہیں ہیں، اس لئے اُن کی کتاب ’Bunch of Thoughts‘ کو اس طرح کے جملوں کو حذف کرتے ہوئے دوبارہ شائع کیا گیا ہے، جو اقلیتوں کیلئے دھمکی آمیز ہیں اور ہندو قوم پرستی کو بے باکانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
لہٰذا، کیا آر ایس ایس میں تبدیلی آئی ہے؟ زیادہ تر آرگنائزیشنوں کے معاملے میں انھیں اُن کے اعمال کے ذریعے پرکھنا چاہئے، یا آرگنائزیشنوں کی سرگرمیوں اور پروگراموں کے نتیجے کے ذریعے ، جو آر ایس ایس نظریہ کے سبب سامنے آتا ہے۔ یہی ہمیں آر ایس ایس کی اصلی خاصیت، اس کا حقیقی ایجنڈا بتائے گا اور ہمیں اندازہ لگانے میں مدد کرے گا کہ کیوں اب خوشگوار چہرہ پیش کیا جارہا ہے؟
آر ایس ایس کی اصل سرگرمی شاکھاؤں (شاخوں) پر مبنی ہے۔ ان شاکھاؤں میں نوجوان لڑکوں کو فزیکل ٹریننگ دی جاتی ہے، اس تربیت کا ایک حصہ لاٹھی چلانا ہوتا ہے۔ یہی اس کی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ نمایاں حصہ ہے۔ اس کے متوازی نظریاتی تربیت دی جاتی ہے جو بودھک (دانشورانہ) سیشن ہوتے ہیں۔
یہیں پر آر ایس ایس کا حقیقی ایجنڈہ خود آشکار ہوجاتا ہے۔ ان شاکھا بودھکوں میں جس کے بعد طویل ٹریننگ کیمپس ہوتے ہیں جو تین سالہ ٹریننگ پروگرام کی شکل اختیار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں سیوم سیوک؍ پرچارک تیار ہوتے ہیں، جو آر ایس ایس پروگراموں کی ذمہ داری آزادانہ طور پر نبھانے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔
یہ بودھک نوجوان لڑکوں کو ذہن سازی کے ذریعے یہ یقین کراتے ہیں کہ بھارت یادداشت سے کہیں آگے تک صدیوں سے ہندو قوم رہا ہے۔ مختصر یہ کہ آر ایس ایس ٹریننگ کا نہج جیسا کہ مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے، یہی خطوط پر ہوتا ہے۔ ’ہم‘ ایک عظیم سماج رکھتے تھے، تمام طبقات مساوی تھے، خواتین کو سوسائٹی میں باعزت مقام حاصل تھا۔ اس سماج پر بیرونی لوگوں، مسلمانوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں طبقات میں عدم مساوات آئی اور خواتین کا درجہ بگڑگیا۔ مسلم بادشاہوں نے ہمارے منادر تباہ کردیئے، اور اسلام کو بہ زور طاقت مسلط کیا۔
مسلم بادشاہ بہت ظالم تھے، مثلاً محمود غزنی (سومناتھ کی تباہی)، محمد غوری (پرتھوی راج چوہان سے دغابازی)۔ ہندو بادشاہوں جیسے مہاراجہ رانا پرتاپ اور شیواجی نے ہندو سماج کو بچایا۔ تحریک آزادی کے دوران جہاں ساورکر نے ہندو قوم پرستی کو پیش کیا، وہیں گاندھی۔نہرو جیسے قائدین اور ان کے حامیوں نے بیرونی مذاہب کے لوگوں کو بھی اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے سمجھا۔ گاندھی نے مسلمانوں کی خوشامد کی، جس کے سبب مسلمانوں کو جرأت ہوئی اور پاکستان کا مطالبہ کردیا؛ یہ نہرو کی ناقص پالیسیوں کے سبب ہے کہ کشمیر جو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ایک مسئلہ بن گیا اور اسی طرح کی بہت باتیں ہیں۔
پرچارک ؍ سیوم سیوک اس ٹریننگ کے بعد سوسائٹی کے مختلف حصوں میں جاتے ہیں، یا آرگنائزیشنوں میں راست طور پر شامل کئے جاتے ہیں جیسے بھارتیہ جن سنگھ، اے بی وی پی، بی جے پی، وی ایچ پی، ونواسی کلیان آشرم، سیوا بھارتی وغیرہ۔ تکنیکی اعتبار سے دیکھیں تو یہ تمام آزاد تنظیمیں ہیں، لیکن انھیں چلانا اور کنٹرول کرنا آر ایس ایس کے تربیت یافتہ پرچارکوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ لہٰذا، آر ایس ایس کو ریموٹ کنٹرول کے طور پر کام کرنا نہیں پڑتا ہے کیونکہ اس کا نظریہ تو ان آرگنائزیشنوں کے ڈی این اے میں شامل ہوتا ہے۔
آر ایس ایس کے نظریہ سازی مرکز نے سماج میں نفرت پیدا کی ہے، مسلمانوں کے خلاف اور جزوی طور عیسائیوں کے خلاف اور سکیولر اقدار قائم رکھنے والوں یعنی وسیع النظر لوگوں کے خلاف نفرت پیدا کی ہے۔ اس نفرت کا ایک مظاہرہ گاندھی کا قتل گوڈسے کے ذریعے کرانا ہے، جو آر ایس ایس کا تربیت یافتہ پرچارک تھا۔ سردار پٹیل ضرور اول رہے ہیں کہ اسے کھلے طور پر کہا اور گاندھی کے قتل سے کہیں آگے تک دیکھا۔ انھوں نے دیکھا کہ گاندھی کے قتل کی بنیادی وجہ آر ایس ایس کی جانب سے سوسائٹی میں پھیلائی گئی نفرت ہے۔
یوں تو آر ایس ایس کے پاس والنٹیرس ہیں جو آر ایس ایس یونیفارم میں راحت کاری کا کام کرتے ہیں، لیکن جو تشدد میں ملوث ہونے کیلئے اسلحہ اٹھاتے ہیں وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کا جذبہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ سماج میں جاری تشدد ایسے مسائل کا نتیجہ رہا ہے جن کا تعلق آر ایس ایس کی ہندو قوم پرستی کی خدمت میں جاگزیں جذباتی پہلو ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد رام مندر مسئلہ کے تناظر میں بڑھا ہے۔
اگر ملک کا تعلق سب سے ہے تو تمام مذاہب کا احترام ہو، کیوں پانچ سو سالہ قدیم مسجد کو منہدم کرنے کا جرم کیا جائے؟ کیوں تاریخ کے فرقہ پرستانہ پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے سوسائٹی کو منتشر کیا جائے؟ اسی طرح مقدس گائے سیاسی مسئلہ ہے، جبکہ سوامی ویویکانند نے کہا کہ ویدک دور میں بیف کھایا گیا اور گاندھی نے استدلال پیش کیا کہ مملکت کو گاؤ ذبیحہ پر پابندی یا بیف پر پابندی نہیں لگانی چاہئے؟
یہ ضرور کہنا چاہئے کہ آر ایس ایس جیسا کہ اسے گزشتہ چار سال کے دوران نیا اعتماد حاصل ہوا ہے، اب فراخدلانہ زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے جال کو پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ نرمی والا انداز سوسائٹی میں پیدا کردہ گہری تقسیم میں مسٹر بھگوت کا حصہ ہے، اس کا سبب آر ایس ایس کی پالیسی کی ہمہ جہت کارستانی ہے، جو بظاہر آزادانہ معلوم ہوتی ہے مگر ان تعلیمات کی پوری طرح تعمیل میں ہے جو اس نے شاکھا بودھکوں میں شرکت کرتے ہوئے حاصل کئے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب جنتا پارٹی کے حصہ کو جن سنگھ سے آر ایس ایس کے ساتھ اپنے رابطے منقطع کرنے کیلئے کہا گیا تو انھوں نے پارٹی کو توڑ کر بی جے پی کی حیثیت سے دوبارہ ابھرنے کو ترجیح دی۔ لہٰذا، آنجہانی وزیراعظم واجپائی نے جزیرہ اسٹیٹن میں این آر آئی ہندوستانیوں کے روبرو بولتے ہوئے آر ایس ایس کے تئیں اپنی بنیادی وفاداری کی مکرر توثیق کی تھی۔ ہندوستانی دستور کے تئیں اس کا احترام دھوکہ ہے کیونکہ ہندوستانی دستور کے اعتبار سے ہمارا سکیولر جمہوری ہندوستان ہے، جو ہندو قوم کے برعکس ہے جسے آر ایس ایس ایجنڈے میں مرکزیت حاصل ہے۔
ram.puniyani@gmail.com