لکھنو ۔ بابری مسجد کی ملکیت معاملے میں جمعرات سے پھر عدالت عظمیٰ میں سماعت ہونے والی ہے جس کے لئے تمام فریق اپنی اپنی تیاریوں میں منہمک ہیں۔ مگر ا س معاملے کے ’ اؤٹ آف دی کورٹ‘ حل کی کوششوں کے تحت ایک اہم میٹنگ بنگلور میں جمعرات کو ہوئی جس میں لکھنو کی ممتاز مسلم ہستیاں پیش پیش تھیں۔ سلمان حسینی ندوی( درالعلوم ندوۃ العلما) انیس انصاری ( سابق ائی اے اور اُردو عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جواب کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں‘ اطہر حسین اور محمد عمران ایڈوکیٹ کے نام مذکورہ اجلاس میں شرکت کرنے والے لوگوں میں قابل ذکر ہیں۔
لکھنو کے علاوہ گجرات اور دہلی سے بھی چنندہ چہرے اس میٹنگ کا حصہ تھے۔ درالعلوم دیوبند کے مہتمم غلام محمد دستاونوی جنھیں متنازع بیان کے سبب عہدہ چھوڑنا پڑاتھا کا نام بھی اجلاس میں شرکت کرنے والو ں سرفہرست تھا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس سے قبل لکھنو میں شری شری روی شنکر کے ساتھ دومیٹنگیں ہوچکی ہیں ۔ پہلی میٹنگ 20جنوری کو اور دوسریی میٹنگ 3فبروری کو ہوئی تھی ۔ پہلی میٹنگ میں شری شری روی شنکر نے ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کیا تھا جبکہ دوری میٹنگ میں ان کا ایک نمائند ہ موجودتھا ۔
یہ دونوں میٹنگیں مہانگر میں اس شخص کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی جو ان میٹنگوں کا ایک اہم چہرہ ہیں۔ اس طرح بنگلور کی یہ مذکور ہ میٹنگ اس طرح کی تیسری خفیہ میٹنگ تھی جس میں شری شری روی شنکر اور مسلم وفد کے درمیان پردے کے پیچھے اس حساس مسئلے پر ’ سنجیدہ گفتگو ‘ ہوئی۔ان دنوں ہی میٹنگوں میں سلمان حسینی ندوی ‘ انیس انصاری ‘ اطہر حسین اور محمد عمران ایڈوکیٹ او رسینئر کانگریس رہنما موجود تھے۔ پہلی میٹنگ میں جماعت اسلامی ہند ( مشرقی یوپی) کے ایک اہم عہدیدار کے علاوہ مولانا مصطفےٰ ندوی اور چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی وسیم اختر بھی موجود تھے۔
میٹنگ میں موجودہ ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پہلی میٹنگ میں شری شری روی شنکر نے اپنے خطاب میں صاف طور کہاتھا کہ مسلمانوں کو یہ بھول جانا چاہئے کہ ایودھیا میں اب اس مقام پر بابری مسجد کی تعمیر ہوگی جہاں یہ پہلے تھی۔
روی شنکر اس بات پر بھی کوئی تیقن دینے سے قاصر تھے کہ اگر مسلمان بابری مسجد کی زمین پر اپنے حق سے دستبردار ہوجانے کو تیار ہوجائیں تو کیادیگر کسی بھی مسجد پر ہندو بھائی کبھی دعوی نہیں ٹھونکیں گے۔
میٹنگ میں موجود اس حضرت کے مطاب شری شری روی شنکر اس بات پر زوردیتے رہے کہ پہلے تو آپ لوگ دستبردار ہوجائیں پھر باقی باتیں ہوں گی۔دوسر ی جانب ارٹیکل 341( پسماندہ مسلمانوں کو تحفظا ت سے محروم کرنے سے متعلق ایکٹ) کو ختم کرنے او رپسماندہ مسلمانوں کو بھی تحفظات کے زمرے میں لانے کی مسلسل وکالت کرنے والے سابق افیسر اس بات کے حق میں بات کرتے رہے کہ اگر اس آرٹیکل کی خامیوں کودور کرنے کی گیارنٹی دی جائے تو بابری مسجد پر سمجھوتے کی بات کی جاسکتی ہے ۔ حالانہ میٹنگ میں موجود بیشتر لوگ ان کی بات کی تائیدکرنے کے حق میں دیکھائی نہیں پڑے۔
ان میٹنگوں اور ان میں ہوئی بات چیت کی تصدیق کانگریس رہنما نے بھی کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی ذاتی وجوہ کی بنا پر وہ بنگلور نہیں جاہائیں گے تاہم وہاں میٹنگ طے ہے اور دہلی سے بھی کچھ لوگ جارہے ہیں۔ انہو ں نے یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کا یہ وفد اپنے ساتھ ایک مسودہ لے کر وہا ں پہنچا ہے مگ رانہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے نکات کیاکیا ہیں۔ میٹنگ میں شرکت کررہے باقی لوگوں سے بات نہیں ہوپائی ہے۔