مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی
یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ پارلیمانی جمہوری سیاست شطرنج کے کھیل کی مانند ہے، جس میں ہار اور جیت کا فیصلہ جسمانی طاقت پر نہیں حاضر دماغی اور بہتر سے بہتر چالیں چلنے اور حریف کی چالوں کا جواب بہتر چالوں کے ذریعہ دینے پر منحصر ہوتا ہے اور یہ بات دکھے دل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ ہم مسلمانانِ ہند بار بار دشمن کی چالوں کی اصلی نوعیت کو صحیح طور پر سمجھنے میں اور نتیجہ میں اْس کا مناسب جواب دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
بابری مسجد کا مسئلہ اِس کی سب سے روشن مثال ہے۔ 1949 ء میں جب بابری مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھیں،اْس کے کچھ ہی عرصہ پہلے ’’برہمن واد‘‘ پر یقین رکھنے والی فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں گاندھی جی کی ہلاکت کے بعد اچانک ملک کا ماحول بدل گیا تھا، وہ فسطائی اور دہشت گرد عناصر ملک کی اکثریت کی نظر میں مجرم بن گئے تھے، یا یوں کہیئے کہ اْن کا اصل سیاہ چہرہ پورے ملک کے سامنے آگیا تھا، اْس وقت اس گروہ نے بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر، اور مسلم حکمرانوں کے خلاف شور مچاکر ملک کی اکثریت کی توجہ کا مرکز بدل دیا تھا، اور نفرت کا رْخ اپنی طرف سے ہٹاکر مسلمانوں کی طرف موڑ دینے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔
پھر جب 1980ء کی دہائی میں وزیر اعظم وی۔پی۔سنگھ نے ’’منڈل کمیشن‘‘ کی سفارشات کو نافذ کرکے ملک کی آبادی کے سب سے بڑے حصے ’’بیک ورڈ‘‘ کلاس کے لوگوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن دینے کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے اعلی ذات کے اْس طبقے کو؛ جس نے ہزاروں سال سے اِس طبقے کو’’ سیاسی طور ‘‘ پر ہندو بنا کر اپنا غلام بنا رکھا تھا، یہ محسوس ہوا کہ ’’شیڈیول کاسٹ‘‘ اور ’’شیڈیول ٹرائب‘‘ کے علاوہ اگر بیک ورڈ کلاس کو بھی ریزرویشن مل گیا، تو آگے چل کر یہ لوگ بھی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکیں گے، چنانچہ اْس نے اس کی پْرزور مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ، لیکن جو بات خاص طور پر توجہ کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ؛ ریزرویشن کے فیصلے کی براہ راست مخالفت کرنے کے بجائے بی جے پی اور آر ایس ایس نے ’’رام جنم بھومی‘‘ کی تحریک شروع کردی، اور اس طرح ’’صرف سیاسی مقصد سے‘‘ہندو تسلیم کئے جانے والے سماج کی اندرونی تقسیم کی طرف سے توجہ ہٹا کر نہ صرف یہ کہ ملک کے عام ذہن اور ماحول کو ہندو-مسلم منافرت کی آگ میں جھونک دیا، بلکہ نہایت چالاکی اور عیاری کے ساتھ برہمن واد کی حفاظت کا کام بیک ورڈ اور پسماندہ طبقے ہی سے لے کر اْسی کو ’’ہندتوا‘‘ کا محافظ بنا دیا۔ اور یہ بات سمجھنے میں بھارت کی مسلم قیادت ناکام رہی کہ رام جنم بھومی -بابری مسجد کی تحریک خالص سیاسی چال ہے، جس کا مقصد بھارت کے پسماندہ اور بیک ورڈ طبقے کو بدستور غلام بنائے رکھنا اور ہندو-مسلم منافرت کو ہوا دے کر قدم بہ قدم اپنے اصل ایجنڈے ’’ہندو راشٹرکے قیام کی طرف پیش قدمی‘‘ ہے۔ یہ بات محتاج وضاحت نہیں ہے کہ صرف ایک مسجد کے تحفظ کے لئے بنائی جانے والی حکمتِ عملی مختلف ہوگی اْس حکمتِ عملی سے؛جس کا مقصد مسجد کے ساتھ ملک کے سیکولر جمہوری ڈھانچے کا تحفظ نیز دشمن کی صفوں میں تفریق اور بھولے بھالے ملکی عوام کو فریب سے نکالنا بھی ہو۔
ملک کے مسلمانوں کو ایک بار پھر یہی چیلنج در پیش ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حال ہی میں ملک کی پانچ ریاستوں خصوصاً یوپی اور اتراکھنڈ میں ہونے والے انتخابات میں یہ حقیقت نا قا بل انکار ثبوتوں سے ثابت ہو چکی ہے کہ بی جے پی کی یہ جیت ’’ووٹنگ مشین‘‘ (EVM)میں زبردست چھیڑ چھاڑ اور Hackingکے ذریعہ ہوئی ہے ۔ میرے علم میں نہ جانے کتنے مقامات سے یہ خبریں آئی ہیں کہ جس بوتھ پر کل ووٹ جتنے تھے، اْس سے اچھی خاصی تعداد میں زیادہ ووٹ وہاں مشینوں میں نکلے، ایسے بھی واقعات علم میں آئے کہ مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی بی جے پی کے امید وار بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ پورے یوپی میں سْپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود صرف ۲۰ حلقوں میں EVM کے ساتھ وہ ’’پیپر ٹریل‘‘ بھی لگایا گیا تھا؛ جس سے ووٹ دینے والے کو نظر آجاتا ہے کہ اْس کا دیا ہوا ووٹ کس امید وار کو گیا؟ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اْن ۲۰ میں سے ۱۶ جگہ بی جے پی کے امیدوار ہار گئے۔ ’’گوا‘‘ میں کل 40سیٹیں ہیں، وہاں ہر جگہ یہ پیپر ٹریل‘‘ لگایا گیا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی جس کی وہاں حکومت تھی، اور جس کے پاس پچھلے ایوان میں ۲۱ سیٹیں تھیں،اس کو اس الیکشن میں صرف ۱۳ سیٹیں ملیں۔
بھوپال میں کانگریس کے ٹکٹ سے منتخب ہونے والے ایک رکن اسمبلی رہے ہیں ’’عارف مسعود خان‘‘ جو مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن بھی ہیں؛ انہوں نے اپنے الیکشن میں اسی ای۔وی۔ایم کے ذریعہ ہونے والی بے ایمانی کو مختلف بوتھوں پر جا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اور بھوپال کے کلکٹر اور الیکشن آبزرور کو بلا کر دکھایا بھی تھا 3 بہر حال اس قسم کے بے شمار ثبوت ہیں جن کی روشنی میں حلفیہ طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خاص طور پر یوپی و اتراکھنڈ میں حالیہ الیکشن کے نتیجے بڑی حد تک اسی بے ایمانی اور دھاندلی کا نتیجہ ہیں۔
یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کانگریس کے دورِ حکومت میںیہ بی جے پی ہی تھی جس نے ای۔وی۔ایم پر سوال اْٹھائے تھے، 2009 ء میں بی جے پی نے ملکی و بیرونی ماہرین، مختلف غیر سرکاری تنظیموں مثلاً وویکانند فاؤنڈیشن کے سائنسدانوں کے ریسرچ کے حوالے سے ای۔وی۔ایم کو قطعاً نا قابل اعتبار قرار دیا تھا۔ اسی زمانے میں بی جے پی کے ایک اہم لیڈر مسٹر جی۔وی۔ایل نرسمہا راؤ نے بڑی محنت سے ایک کتاب لکھی تھی؛جس کا نام ہے:
DEMOCRACY AT RISK: Can We trust our Electronic Voting Machines?
(جمہوریت خطرے میں: کیا ہم اپنی ای۔وی۔ایم پر بھروسہ کر سکتے ہیں ؟) یہ کتاب انٹرنیٹ پر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
مصنف نے اس کتاب میں نہایت طاقت ور دلائل کے حوالے سے ای۔وی۔ایم کو مکمل طور پر نا قابل اعتبار قرار دیا تھا، اس کتاب کا مقدمہ مسٹر ایل کے ایڈوانی نے لکھا تھا، جس میں کتاب کے مشتملات کی بھر پور تائید کی تھی، یہی نہیں بلکہ اْس وقت مسٹر سبرا منیم سوامی نے؛ جو آج بی جے پی کے راجیہ سبھا کے ممبر ہیں؛ ای۔وی۔ایم کے استعمال کے خلاف پہلے دہلی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جس پر 18کتوبر2013 ء کو فیصلہ سناتے ہوئے سْپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا تھا:’’دونوں فریقوں کی طرف سے ہمارے سامنے رکھے گئے ، مواد کی روشنی میں ہم اس بات پر پوری طرح مطمئن ہیں کہ ’’پیپر ٹریل‘‘ آزاد اور منصفانہ الیکشن کا ایک لازمی (Indespensable) حصّہ ہے، جس کے بغیر ای۔وی۔ایم پر ووٹروں کو اعتماد نہیں ہو سکتا۔۔۔‘‘ (سْپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی نیٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔)
اوراب یہی ای۔وی۔ایم ہے جس کے سَو فیصد درست اور معتبر ہونے کا راگ یہی بی جے پی الاپ رہی ہے۔
بلاشبہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اس سلسلے میں قصوروار ہیں کہ انہوں نے 2014 ء کے الیکشن کے نتائج آنے کے بعد بھی اِ س سلسلے میں کوئی آواز نہیں اْٹھائی۔ میری معلومات کے مطابق ملک میں صرف ایک شخص ہے ’’بھارت مکتی مورچہ‘‘ اور ’’بام سیف‘‘ کا قومی صدر ’’وامن میشرام‘‘ ؛ جو کئی سال سے اس سلسلے میں سْپریم کورٹ میں لڑائی لڑرہا ہے، اور یہ اسی کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے کہ سْپریم کورٹ نے اِس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو کئی بار ہدایات جاری کیں، جن پر الیکشن کمیشن نے جب عمل نہیں کیا تو پھر اْس کے خلاف توہین عدالت کی بھی شکایت سْپریم کورٹ میں کی گئی، جو آج کل زیر سماعت ہے۔
تاہم خوشی کی بات ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات کے بعد سب سے پہلے بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی نے کھل کر اِس بارے میں اظہارِخیال کیا، اور اب پچھلے چند دنوں میں مختلف سیاسی پارٹیاں بھی اِس سلسلے میں ایک واضح موقف اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ یوپی اور اتراکھنڈ کے مختلف علاقوں میں عوام بھی سڑکوں پر نکل کر اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ اب ایسی شکل اختیار کرتا جارہا ہے کہ اِس بات کا زبردست امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اِس مسئلہ کو بنیادبنا کر ایک زبردست عوامی تحریک برپا ہو جائے، جس کے بعد الیکشن کمیشن کو مجبور ہونا پڑے کہ وہ آنے والے صوبائی انتخابات میں اور 2019 ء کے پارلیمانی الیکشن میں صاف ، شفاف الیکشن کرانے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ اور ملک کے عوام کو ایک بے ایمان اور ملک دشمن حکومت سے چھٹکارا ملے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ 2019 ء کے بعد ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے میں کھلم کھلا دستوری تبدیلیاں کردی جائیں گی، اور پھر ملک کی اقلیتوں اور دیگر مظلوم و محروم طبقات کے سامنے تمام راستے بند کر دئے جائیں گے، اور جبر و استبداد کا وہ دور شروع ہوگا جس کے تصور سے بھی روح کانپتی ہے۔
اب آئیے اس تناظر میں دیکھئے! ادھر ای۔وی۔ایم کا مسئلہ ملک کے قومی ایجنڈے کا مرکزی مسئلہ بننا شروع ہوا، اور اِس موضوع پر ملک کی اکثریت کے ایک پلیٹ فارم پر آجانے یا اس ایک مسئلہ پر متحدہ احتجاجی آواز بلند ہونے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے، اور اْدھر اچانک بابری مسجد کے مسئلے کو بدنام زمانہ مسٹر سبرامنیم سوامی کے ذریعہ سْپریم کورٹ میں مینشن کرنے اور اْس پر چیف جسٹس صاحب کا عجیب و غریب مشورہ خبروں پر چھا گیا۔
کم از کم مجھے اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی اکثریت خاص کر مسلمانوں کی توجہ ای۔وی۔ایم کے مسئلہ کی طرف سے ہٹ جائے، سْپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل ’’مسٹر دَوے‘‘ نے ایک ٹی وی پروگرام میں بہت صاف لفظوں کہا کہ سْپریم کورٹ میں اس وقت یہ جو کچھ ہوا وہ خود حکومت کی ایک چال ہے۔۔۔۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس مسئلہ کو دبا دینا ہے اور کس ایشو کو پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنا دینا ہے؛ یہ حکومت اور میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ، اس میں کیا شک ہے کہ بالفرض اگر مسلمانوں اور دوسرے فریقوں کے درمیان بابری مسجد کے بارے میں مذاکرات ہوئے بھی تو وہ بالکل بے نتیجہ ثابت ہوں گے۔ اور اس سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ وہ مسئلہ جو ملک کا رْخ بدل سکتا ہے وہ پس پْشت چلا جائے گا، اور ایک خدا داد موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔۔ اس کے بالکل بر عکس اگر ملک و ملت نے متحد ہوکر ای۔وی۔ایم کے بارے میں؛ تحریک کی شکل میں بھی اور قانونی سطح پر بھی؛ مضبوطی کے ساتھ اپنی کوشش جاری رکھی تو اس سے بہت ٹھوس اور دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔لہٰذا میری پوری مسلم قیادت سے ، اور خاص کر مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائدین سے یہ گذارش ہے کہ وہ بابری مسجد کے مسئلے میں صرف اس موقف کے اعلان پر اکتفاء کریں کہ ہم عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں گے ورنہ ایک بار پھر ہم دشمن کی چال کو سمجھ کر صحیح طریقے پر اْس کا جواب دینے پر ناکام ہوں گے، اور اس بار انجام پہلے سے زیادہ ہلاکت خیز ہوگا۔
اسی طرح ملک وملت کے تمام بہی خواہوں، اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں سے میری یہ گذارش ہے کہ وہ ای۔وی۔ایم کے مسئلہ پر ایک بھر پور متحدہ عوامی تحریک کے برپا کرنے پر اپنی پوری طاقت لگادیں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
*مضمون نگار مشہور عالم دین،مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن اور ماہنامہ الفرقان کے مدیر ہیں۔