اے اہل سیاست یہ قدم رُک نہیں سکتے

مسلم تحفظات… سیاست کی مہم کارگر
تعلیمی ، معاشی ترقی کے امکانات روشن

رشیدالدین
کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے اخلاص اور نیک نیتی کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ تحریک سے وابستہ افراد میں منظوری کے حصول کا جنون تحریک کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف عوامی تحریکات منزل کے راستہ میں ہی انتشار کا شکار ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے جب تحریک کی قیادت کرنے والے بے غرض ، کسی مفاد یا فائدہ کی پرواہ کئے بغیر بندگان خدا کی بھلائی کیلئے رضائے الٰہی کے خالص جذبہ کے ساتھ میدان عمل میں رہیں۔ تحریکات کی بقاء اور کامیابی قربانی طلب کرتی ہے اور مخالفتوں کی پرواہ کئے بغیر خود کو جدوجہد سے وابستہ رکھنا ہی کامیاب شخصیتوں کی پہچان ہے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کو روزگار اور تعلیم میں 12 فیصد تحفظات کیلئے روزنامہ سیاست کی مہم آخرکار اسمبلی میں قانون سازی کی شکل میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ روزنامہ سیاست کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ قوم اور ملت کے مسائل کے حل کیلئے اقتدار وقت کو جھنجھوڑا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست کو حکومت کے ایوانوں میں عوام کی آواز تصور کیا جاتا ہے۔ بعض حکومتوں نے تو ارباب سیاست سے مشورہ کے بعد اپنی پالیسی کا تعین کیا۔ اخلاص ، للّہیت اور قوم و ملت کی خدمت کا یہی جذبہ جناب زاہد علی خاں اور جناب عامر علی خاں کو وراثت میں ملا ہے ۔ اس عظیم ورثہ کی پاسداری کرتے ہوئے مسلم تحفظات سے متعلق ٹی آر ایس کے وعدہ کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جو سیاست کی ملی خدمات کے عظیم کارناموں میں شمار کیا جائے گا ۔ گزشتہ 68 برسوں میں قوم و ملت کیلئے سیاست نے جو خدمات انجام دی ہیں ، اس کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں جہاں اہل اردو اور ملت کا درد رکھنے والے موجود ہوں ، وہ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ بانیان سیاست جناب عابد علی خاں اور جناب محبوب حسین جگر نے کبھی بھی اقتدار وقت سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے حکمراں ان سے مشورہ کیلئے حاضر ہوتے تھے۔ مسلم تحفظات کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے جناب زاہد علی خاں کی سرپرستی میں جناب عامر علی خاں کی بے تکان جدوجہد اور گاؤں گاؤں پہنچ کر مسلمانوں میں اپنے حقوق کیلئے شعور بیداری کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں قانون سازی پر مجبور ہونا پڑا۔ کے سی آر چونکہ علحدہ تلنگانہ ریاست کیلئے 14 برس تک جدوجہد کا تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے محسوس کرلیا کہ سیاست کی یہ تحریک اب نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے ، لہذا وعدہ کی تکمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جس طرح تلنگانہ ریاست کی تشکیل کیلئے یو پی اے حکومت کو مجبور کرانے میں کے سی آر کا اہم رول رہا ، اسی تجربہ کی بنیاد پر انہیں سیاست کی تحریک کا اثر قبول کرنے میں دیر نہیں لگی۔

سیاست کی اس تحریک میں چونکہ اخلاص تھا، لہذا ہر شعبہ ہائے حیات حتیٰ کہ کمزور طبقات نے بھی تحریک کی تائید کی ۔ اس طرح ’’میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ‘‘ کے مصداق جناب عامر علی خاں کے ساتھ عوام کا سیل رواں ایک کارواں کی شکل اختیار کر گیا۔ سیاست کی تحریک کی یہ کامیابی ملک کے دیگر ریاستوں کیلئے ایک نظیر ہے۔ عام طور پر سیاسی طاقت کے ذریعہ حکومت پر عوامی مسائل کیلئے دباؤ بنانے کا رواج ہے لیکن سیاست ملت کی آواز بن کر پریشر گروپ بن کر ابھرا ہے اور ملک میں ایسے غیر سیاسی پریشر گروپس کی ضرورت ہے۔ 2014 ء عام انتخابات میں کے چندر شیکھرراؤ نے اقتدار کے 4 ماہ میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدہ کو انتخابی منشور میں شامل کیا گیا۔ پارٹی کو اقتدار تو حاصل ہوگیا لیکن وعدہ کی تکمیل کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ۔ ایسے وقت سیاست نے حکومت کو وعدہ کی یاد دہانی کرائی۔ یہ ایسا نازک مرحلہ تھا جس میں حکومت سے تعلقات متاثر ہونے کا اندیشہ تھا ۔ مخالفین اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئے لیکن سیاست نے ملت کے مفاد کو حکومت سے تعلقات پر ترجیح دی۔ آخر کار حکومت نے سدھیر کمیشن آف انکوائری قائم کیا جس کی رپورٹ کے بعد تحریک کے روے رواں جناب عامر علی خاں نے طویل سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے موسم کی پرواہ کئے بغیر اضلاع کا رخ کیا۔ عوامی دباؤ کے آگے حکومت کو جھکنا ہی تھا اور اس نے بیک ورڈ کلاسس کمیشن قائم کیا جس کی تحفظات کی سفارش کیلئے ضرورت تھی۔ بی سی کمیشن کی عوامی سماعت کے دوران یوں تو ریاست کے مختلف علاقوں سے اداروں اور انفرادی نمائندگیاں وصول ہوئیں لیکن سیاست نے ایک لاکھ سے زائد نمائندگیاں داخل کیں جن میں آن لائین موصولہ نمائندگیاں شامل ہیں۔ بی سی کمیشن نے اقلیتی آبادی والے علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے تعلیمی سماجی اور معاشی حالات کا جائزہ لیا اور تحفظات کے فیصد میں اضافہ کی سفارش کے ساتھ حکومت کو جامع رپورٹ پیش کی۔ مسلمانوں کی پسماندگی کا اندازہ بی سی کمیشن کے صدرنشین بی ایس راملو کے اس جملہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت دیکھنے کے بعد میری آنکھ سے جو آنسو نکلے تھے ، وہ کمیشن کی رپورٹ میں پوری طرح شامل نہیں ہوسکے۔ مسلم تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھرراؤ کی سنجیدگی اور وعدہ کی تکمیل کے عزم پر سوال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی پسماندگی کی حالت کو رپورٹ کی شکل میں دیکھا کہ وہ بھی انسانی جذبہ کے تحت بے چین ہوگئے۔ کے سی آر نے تحفظات کیلئے قانون سازی کے ذریعہ مسلم اقلیت کے دلوں میں جگہ بنالی ہے ۔ اسمبلی اور کونسل میں صرف بل کی منظوری ہی کافی نہیں بلکہ اب مرکز سے منظوری اور عمل آوری کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔

یہ محض اتفاق نہیں بلکہ تحفظات کے حق میں مخلصانہ مساعی کو قدرت کی مدد ہی کہا جائے گا کہ گزشتہ سال رمضان المبارک کے موقع پر چیف منسٹر کے سی آر کی دعوت افطار میں جناب عامر علی خاں نے 12 فیصد تحفظات پر عمل آوری کے ممکنہ راستوں کے بارے میں یادداشت پیش کی تھی اور جاریہ سال رمضان المبارک کی آمد سے عین قبل یہ نمائندگی ثمر آور ثابت ہوئی۔ رمضان المبارک کی دعوت افطار میں چیف منسٹر اب یہ کہنے کے موقف میں ضرور ہوں گے کہ انہوں نے ایک سال قبل کئے گئے وعدہ کو رمضان کی آمد سے قبل ہی پورا کردیا ہے ۔ ہنسی تو ان گوشوں پر آتی ہے جو راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں مسلم تحفظات کی مخالفت کر رہے تھے جنہوں نے کے سی آر حکومت کو بھی قانون سازی نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ گوشے تو زاہد علی خاں اور عامر علی خاں کی تحفظات مہم پر طنز کرتے رہے لیکن جب سیاست نے حکومت کو  خواب غفلت سے جگایا اور 12 فیصد تحفظات کا بل منظور کیا گیا تو اب اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران ہی ان گوشوں نے علحدہ ریاست کے قیام کی مخالفت کی تھی لیکن بعد میں تلنگانہ کے چمپین کی طرح ظاہر کرنے لگے۔ ایسے وقت جبکہ ہر سطح پر سناٹا تھا، سیاست نے نہ صرف جمود کو توڑا بلکہ کامیابی سے منزل کو حاصل کیا۔ سیاست نے قوم و ملت کے تئیں اپنی ذمہ داری کی تکمیل کی ہے

اور اس کے عوض کسی صلہ یا ستائش کی امید نہیں کی کیونکہ سب کچھ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے جذبہ کے تحت کیا گیا ۔ ملک میں بدلتے سیاسی اقدار میں ووٹ بینک کی سیاست کا غلبہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور محض ہتھیلی میں جنت دکھانے کا کام کرتے ہیں اور ہر الیکشن میں ووٹ کیلئے رائے دہندوں کو خوش کردیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس کیہر نے انتخابی منشور کو قانونی حیثیت دینے کی تجویز پیش کی تاکہ سیاسی جماعتوں کو وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں جواب دہ بنایا جاسکے۔ کے سی آر حکومت نے مسلمانوں اور درج فہرست قبائل کے اہم وعدوں کی تکمیل کرتے ہوئے صحت مند جمہوری روایت کی بنیاد رکھی ہے جو دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔ حکومت نے مسلمانوں کے موجودہ 4 فیصد تحفظات میں 8 فیصد اور ایس ٹی طبقہ کے موجودہ 6 فیصد میں 4 فیصد اضافہ کے حق میں قانون سازی کی ہے ۔ بعض گوشوں سے موجودہ 4 فیصد کے خطرہ میں ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ماہرین قانون کے مطابق کوئی بھی تنازعہ اضافی فیصد پر ہوگا  نہ کہ موجودہ تحفظات پر ۔ تحفظات بل کے سلسلہ میں بعض قانونی پیچیدگیوں کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کے سی آر حکومت نے ٹاملناڈو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ فیصلہ لیا جہاں گزشتہ 24 برسوں سے 69 فیصد تحفظات پر عمل آوری جاری ہے اور دستور کے نویں شیڈول کا تعلق حاصل ہے۔ ایک ملک میں دو ریاستوں کیلئے علحدہ پالیسی نہیں ہوسکتی۔ مرکزی حکومت ٹاملناڈو کے حق میں جو فیصلہ کرے گی، وہی تلنگانہ کیلئے ہی قابل عمل ہوگا۔ راجستھان اور ہریانہ حکومتوں نے تحفظات میں اضافہ کا بل منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کیا ہے ۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اس اعتبار سے تلنگانہ کا تحفظات کا معاملہ بھی ان ریاستوں کے ساتھ منظوری کیلئے قطار میں آچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے 50 فیصد کی جو حد مقرر کی وہ لازمی ہدایت نہیں بلکہ تجویز اور سفارش کے معنوں میں ہے ۔ سپریم کورٹ نے استثنائی صورت میں 50 فیصد سے زائد تحفظات کی اجازت دی ہے۔ ٹاملناڈو کے علاوہ مغربی بنگال ، کیرالا ، کرناٹک ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں تحفظات 50 فیصد سے زائد ہیں جبکہ شمال مشرقی ریاستوں میں یہ 80 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت نے بی سی اور ایس سی طبقات کیلئے آئندہ تحفظات میں اضافہ کا وعدہ کیا ہے، لہذا مسلم تحفظات سے پسماندہ طبقات کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ بی جے پی اسے مذہب کی بنیاد پر تحفظات قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض مسلمان ہونا کسی بھی شخص کیلئے تحفظات کے حق کو محروم کردے گا۔ اگرچہ اس کی حالت دلتوں سے  ابتر ہی کیوں نہ ہو ؟ امید کی جاسکتی ہے کہ مسلم تحفظات پر عمل آوری سے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے  ؎
اے اہل سیاست یہ قدم رُک نہیں سکتے
رُک سکتے ہیں فنکار قلم رُک نہیں سکتے