محمد مصطفی علی سروری
لکشمی بائی کی عمر (72) برس ہے۔ وہ مدھیہ پردیش کے علاقہ سیہور کی رہنے والی ہے۔ عمر کے اس حصے میں عام طور پر بزرگ خواتین زندگی کی بھاگ دوڑ سے الگ ہوکر پرسکون زندگی گزارتی ہیں لیکن لکشمی بائی کیلئے ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ہر صبح لکشمی ضلع کلکٹر آفس کو جاتی ہے اور وہاں دفتر کے باہر ایک ٹائپ رائیٹر لیکر بیٹھ جاتی ہیں کلکٹر آفس میں آنے والے لوگ اس کے پاس آکر اپنی الگ الگ درخواستیں ٹائپ کرواتے ہیں ۔ یوں لکشمی بائی محنت کر کے کماتی ہیں۔ آخر یہ ضعیف خاتون عمر کے اس حصے میں بھی اتنی سخت محنت کیوں کر رہی ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے خبر رساں ادارے ANI نے لکشمی سے دریافت کیا تو اس نے بتلایا کہ اس کی ایک بڑی لڑکی ہے جس کا حادثہ ہوگیا تھا ، حادثہ کے علاج کے لئے اس نے اپنے گھر کا سارا سامان بیچ دیا تب بھی علاج کیلئے پیسے بس نہیں ہوئے تو آخر اس نے قرضہ لیکر اپنی لڑکی کا علاج پورا کروایا ۔ اب اس قرض کی ادائیگی کیلئے جو کہ گیارہ لاکھ روپئے تھا لکشمی بائی کے لئے محنت کرے بغیر چارہ نہیں تھا ، اس نے بتلایا کہ مجھے لوگوں سے مانگنا پسند نہیں ہے اس لئے میں نے محنت کا راستہ چنا ۔ کلکٹر صاحب سے اجازت لیکر ان کے دفتر کے باہر ٹائپنگ کا کام شروع کردیا ۔ ویڈیو میں لکشمی بائی کی ٹائپنگ کی رفتار کو دیکھ کر ا چھے اچھے نوجوان شرما جائیں کرکٹر ویریندر سہواگ نے اس بزرگ محنتی خاتون کو سوپر ویمن کا خطاب دیا۔ قارئین اس سوپر ویمن لکشمی بائی کے متعلق 14 جون 2018 ء سے ملک کے مختلف ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہوئی ہیں جبکہ ایک دن بعد 15 جون 2018 ء کو ہندو ستان ٹائمز نے کرنال ہریانہ سے ایک 30 سالہ بارھویں پاس 2 بچوں کی ماں ارچنا کے متعلق ایک اسٹوری شائع کی تھی ۔ ارچنا نے بارھویں کے بعد تعلیم کا سلسلہ بند کردیا ۔ 18 سال کی عمر میں اس کی شادی ایک ڈرائیور کے ساتھ کرادی گئی پھر اس کے ہاں دو بچے بھی ہوگئے اور وہ گھر کی ذمہ داریاں نبھاتی رہی ۔ پھر پانچ برس قبل اس نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کیلئے کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور قارئین ارچنا نے ہیوی وہیکل ڈرائیونگ سیکھی اور سال 2014 ء میں باضابطہ لائینس بھی بنایا ۔ دو برسوں تک ایک خانگی کمپنی کی بس چلائی پھر 2016 ء میں ایک اسکول بس کے لئے ڈرائیور کا کام شروع کیا ۔ اب ارچنا کو 18 ہزار کی تنخواہ پر کرنال میونسپل کارپوریشن میںبس چلانے بطور ڈرائیور نوکری مل گئی ۔ شرٹ شلوار اور اوڑھنی اوڑھے ہوئے ارچنا نے امید ظاہر کی کہ ایک دن اس کو ہریانہ روڈ ویز میں سرکاری نوکری مل جائے گی اور وہ اپنے شوہر و بچوں کے ساتھ بہتر زندگی گزارسکے گی ۔ یہ تو کرنال ہریانہ کی 30 سالہ ارچنا کی کہانی تھی۔ آیئے اب ذرا کرنال سے تقریباً دو سو کیلو میٹر دور میوات کے گاؤں آکیرا سے آنے والی اس رپورٹ کی جانب آپ کی توجہ مرکوز کرواؤں جو 14 جون 2018 ء کو ہی انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئی ہے ۔ اخبار کی خاتون رپورٹر لینا دھنکر نے میوات کے گا ؤں آکیرہ کی ایک ایسی خاتون کے متعلق لکھا ہے جس کو دیکھنے اور جس کے ساتھ تصویر کشی کرنے اور (Selfie) لینے کے لئے لوگ دور دور سے آرہے ہیں ۔
اس مسلم خاتون کا نام بسار بتلایا گیا ہے اور قارئین میں آپ کو اب وہ دلچسپ بات بتادوں کہ جس کے سبب لوگ اس خاتون کو دیکھنے اور اس کے ساتھ فوٹو اتروانے کیلئے مشتاق ہیں۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس خاتون کی عمر 55 برس ہے ، اس کی شادی 13 برس کی عمر میں 1976 ء میں محمد اسحق کے ساتھ کردی گئی تھی ۔ اسحق کی عمر بسار سے پانچ برس زیادہ تھی ۔ شادی تو بہت ساری لڑکیوں کی ہوتی ہے لیکن بسار نامی اس خاتون کی خاص بات یہ رہی کہ اس خاتون نے شادی کے بعد 23 بچوں کو جنم دیا جس میں سے 5 بچے مرگئے اور 18 بچے اب بھی بقید حیات ہیں۔ سب سے بڑ ے لڑکے کی عمر 30 سال ہے اور سب سے چھوٹا لڑ کا چھ برس کا ہے ۔ سال 2014 ء میں اسحق کا انتقال ہوگیا ، اب بسار ایک بیوہ کی زندگی گزار رہی ہے ۔ اس کے مطابق اسحق اپنی اونٹ گاڑی پر سامان ڈھونے کا کام کرتا تھا ، سال 2010 ء میں بیمار پڑگیا تھا اسکو علاج کیلئے ایک خانگی دواخانہ میں لے جایا گیا چار سال بعد اس کا انتقال ہوگیا لیکن علاج کے دوران بسار نے اپنا سونا بیچ دیا حالانکہ میوات میں سرکاری دواخانے موجود تھے لیکن اسحق کو سرکاری دواخانوں پر بھروسہ نہیں تھا ، اس لئے اس نے خانگی دواخانے کو پسند کیا وہ تو اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن اس کی بیوی بسار نے بتلایا کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے ایک وقت کے کھانے کیلئے پریشان ہے۔ جب سے ہندی میڈیا نے اس مسلم خاتون کے 23 بچوں کی رپورٹ دی ہے، میڈیا والے اور دوسرے لوگ دور دور سے اس کے ہاں آرہے ہیں لیکن بسار نے شکوہ کیا کہ کوئی بھی اس کی مدد کرنے تیار نہیں، نہ صرف بسار ان پڑھ ہے بلکہ اس کے زندہ بچ جانے والے 18 بچوں میں سے کسی نے بھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا اور نہ ہی تعلیم حاصل کی ۔ بسار نے ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ میرا شوہر جب زندہ تھا تو بہت محنت کرتا تھا ۔ بچوں کو اچھا کھانا دیتا تھا ، اچھا رہن سہن دیتا تھا لیکن اپنے بچوں کو اسکول بھجوانے کے متعلق ہم نے کبھی بھی نہیں سوچا اور ویسے بھی ہمارے گا ؤں میں کوئی بھی تو اسکول نہیں جاتا ہے۔ اخبار کی رپورٹر نے جب بسار سے پو چھا کہ اس کو فیملی پلاننگ کے بارے میں کچھ معلوم ہے تو اس 55 سالہ مسلم خاتون نے بتلایا کہ مجھے فیملی پلاننگ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم اور میرا شوہر اس کا سخت مخالف تھا ، وہ تو بچوں کو اللہ کی دین کہتا تھا۔ سرکاری اولڈ ایج پنشن بھی بسار کو نہیں مل رہی ہے کیونکہ اولڈ ایج پنشن کیلئے عمر کا 58 برس ہونا ضروری ہے اور اس بیوہ کی عمر صرف 55 سال ہی ہے ۔ بسار کو چند برس پہلے اولڈ ایج پنشن جاری ہوگئی تھی مگر ان کے گاؤں سے کسی نے سرکار کو شکایت کردی کہ بسار کی عمر 58 برس نہیں ہے ، تب سے یہ مسلم بیوہ خاتون پریشان ہے۔ بسار نے ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ایک دن میں فاقہ سے مرجاؤں گی اور پھر وہ بات بھی خبر بن جائے گی ۔
ہریانہ کا میوات علاقہ 70 فیصدی مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس طرح کی سوچ صرف میوات کے مسلمانوں کی نہیں بلکہ پورے ملک میں عام ہے۔ سرکاری دواخانہ چھوڑ کر خانگی دواخانہ میں علاج کے نام پر اسحق نے ساڑھے چار لاکھ روپئے کا بل ادا کیا وہ تو نہیں رہا لیکن آج اس کے گھر والے دانے دانے کے محتاج ہیں۔
قارئین اکرام میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے مسلمانوں کو اور خود اپنے آپ کو اپنے ہی دامن میں جھانکنے کی دعوت نہیں دوں؟ آیئے ذرا تقابل کیجئے ، ایک بیوہ خاتون لکشمی بائی ہے جس کی عمر 72 برس ہے جس کو گیارہ لاکھ کا قرضہ ہے۔ لڑ کی حادثہ کا شکار ہوکر بستر پر ہے لیکن محنت کر رہی ہے۔ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں کرتی ہے اور نہ ہی اولڈ ایج پنشن کیلئے بھاگ دوڑ کررہی ہے ۔ اپنے ہاتھ پاؤں چلاکر عزت سے اپنے لئے روٹی روزی کا سامان جٹا رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس طرح کا تقابل صحیح ہے یا غلط لیکن ذہن میں یہ سوال ضرور آرہا ہے کہ مدھیہ پردیش کی 72 سال کی بیوہ خاتون کے مقابل میوات کی 55 سالہ مسلم بیوہ اولڈ ایج پنشن کی طلبگار ہے۔ اس کے بچے دو ایک نہیں 18 ہیں اور بڑا لڑکا 30 برس کا ابھی زندہ ہے مگر وہ ایک وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے۔ میوات سے دو سو کیلو میٹر کے فاصلے پر ہریانہ کی ہی ارچنا بس ڈرائیونگ کر کے ماہانہ 18 ہزار کما رہی ہے اور اپنے شوہر کا گھر چلانے میں ہاتھ بٹا رہی ہے ۔
17 جون 2018 ء کو دی لاجیکل انڈین ڈاٹ کام نام کی ویب سائیٹ نے ٹاملناڈو کے میاں بیوی ڈاکٹر اوما اور ان کے شوہر متھورام کے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ 20 برس قبل ان لوگوں نے سڑک پر ایک تین برس کے بچے کو دیکھا جس کی ماں شراب کی عادی اور وہ اپنے تین بہنوں کے ساتھ بھیک مانگ رہا تھا ۔ اوما اور ان کے شوہر نے ان بچوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور داد دیجئے اس طریقہ کو وہ بچوں کو بھیک دینے کے بجائے ان بچوں کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرلئے اور 3 سال کا وہ بچہ جو سڑک پر بھیک مانگ رہا تھا ، آج فلپائین میں Aviation انجنیئرنگ کا کورس کر رہا ہے ۔ ان میاں بیوی نے بتلایا کہ اس ایک بچے کے ساتھ انہوں نے ایک خیراتی رفاہی ادارے کا آغاز کیا تھا جو آج سویم چیارٹیبل ٹرسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ابتداء میں ان میاں بیوی نے اپنی جائیداد رہن رکھ کر غریب بچوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھایا۔
اوما نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے بتلایا کہ سڑک پر غریب بچوں کو دیکھ کر ہمدردی تو سب کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو پیسے دینا ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے کہ انہیں ایسے ہی مانگتے رہنے کا عادی بنادیا جائے ۔ غریبوں کی اصل مدد تو ان کی زندگیوں کو بدلنے کی ہے اور وہ اس کوششوں میں مصروف ہے۔
قارئین ابھی رمضان المبارک کے مہنے میں ہم نے زکوٰۃ خیرات اور عطیات کی تقسیم دیکھی اور غور کیا کہ جن کے باپ دادا زکوٰۃ لیتے تھے ، آج ان کے ہی پوترے اور رشتہ دار زکوٰہ کی درخواست لئے کھڑے ہیں۔میری دانست میں مجھے توبہ کرنی چاہئے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ زکوٰۃ کی تقسیم اور رقم ہر سال بڑھتی جارہی ہے مگر کیا یہ زکوٰۃ اس کے حق داروں کو پہونچ رہی ہے ۔ ہم نے کتنا آسان بنادیا ہے لوگوں کیلئے وہ در خدا کو چھوڑ کر ہر ایک کے روبرو کاسہ گدائی لئے گھوم رہے ہیں اور ہم اپنی نمود و شہرت کے چکر میں مست ہیں اور دیکھئے کیا فرق ہے ۔ ایک ہندو بیوہ میں اور مسلم بیوہ میں؟ یا الٰہی تو ہمارے ایمان کو ہماری زبان کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں میں بھی اور ہمارے اعمال کے ساتھ شامل کر دے ۔ آمین یا رب العالمین۔
sarwari829@yahoo.com