ایک عہد کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز

کے این واصف
شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کے ساتھ ایک عہد کا خاتمہ ہوا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی قیادت میں مملکت سعودی عرب نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ شاہ عبداللہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل جب وہ شدید علیل تھے تو سعودی عرب میں اقتدار کی منتقلی کو لیکر بیرون مملکت قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ چل رہا تھا ، مگر یہاں اقتدار کی منتقلی اتنے آسان طریقہ سے ہوئی۔ کنگ فہد بن عبدالعزیز کے بعد (2005) ملک عبداللہ بن عبدالعزیز بھی اقتدار پر ایسے آسانی سے آئے تھے اور ملک عبداللہ کے بعد نامزد ولی عہد پرنس سلمان بن عبدالعزیز نے اس آسان طریقہ سے مملکت کی باگ ڈور سنبھالی بلکہ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں (22 جنوری) جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مملکت میں عوام جب سوئے ہوئے تھے تو عبداللہ بن عبدالعزیز مملکت کے بادشاہ تھے اور جب عوام جمعہ کی صبح اٹھے تو سلمان بن عبدالعزیز مملکت کے نئے بادشاہ بن چکے تھے۔ اقتدار کی منتقلی کا اتنا آسان اور سلیس طریقہ کی مثال آج کے دور میں دنیا کا کوئی اور ملک یا نظام نہیں دے سکتا اور قبل از وقت بادشاہ کے نائب اور اس کے نائب کے نامزد کئے جانے کا یہ سلسلہ مملکت میں اب بھی جاری ہے اور جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ مملکت میں اقتدار کی منتقلی کبھی مسئلہ نہیں بنے گی۔

اکثر مبصرین نے اپنی تحریروں میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو ایک قدامت پسند شخصیت قرار دیا ہے ۔ جبکہ ان کے دس سالہ دور بادشاہت اور طویل عرصہ بحیثیت ولی عہد ان کے کسی بھی قول و فعل سے مبصرین کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا ۔ کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز نے 30 خواتین کو مملکت کی مجلس شوریٰ میں رکنیت دی، جبکہ اس سے قبل کبھی مجلس شوریٰ میں خواتین نہیں ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے جدہ میں ایک بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا، جہاں ریسرچ کی اعلیٰ سطحی ساری سہولتیں مہیا ہیں جو دنیا کی کسی بھی بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں حاصل ہیں۔ انہوں نے ریاض میں نورہ بنت عبدالرحمن گرلز یونیورسٹی کا قیام ، مملکت کے قریہ قریہ میں طلبہ و طالبات کیلئے اسکولس اور ہر منطقہ میں یونیورسٹیز کا قیام ، بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند نئی نسل کو ا سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ شاہ عبداللہ کے کارہائے نمایاں کی ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں انجام دیئے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک روشن خیال تھے اور انہوں نے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ملک کو ترقی دی۔

خیر آئیے اب کچھ مملکت کے نئے دور اور اس کی نئی قیادت کے بارے میں گفتگو کریں ۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ شاہی خاندان میں ایک منفرد شخصیت و مزاج کے حامل شخص ہیں۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں ریاض کے قائم مقام گورنر کا جائزہ حاصل کیا تھا اور ابتداء ہی سے وہ عوام سے قریب رہنے اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنے کو اپنا معمول بنایا ۔ کسی پرنس کا ہر روز صبح ٹھیک آٹھ بجے اپنے دفتر پر حا ضر رہنا اور عوام کے مسائل و مشکلات پر ان سے بات کرنا اور درخواستیں وصول کرنا ایک غیرمعمولی بات ہے اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز جب تک گورنر ریاض رہے،ہر روز صبح اپنے آفس میں عوام الناس (سعودی و غیر سعودی دونوں) سے ملنا ان کا معمول تھا اور لوگوں کی دی ہوئی یہ درخواستیں کسی سرد خانے یا ردی کی ٹوکری میں نہیں جاتی تھیں بلکہ ان پر باضابطہ احکام تحریر ہوتے اور متعلقہ محکموں اور اداروں سے جواب طلب کیا جاتا ۔ آج سلمان بن عبدالعزیز کے ہاتھ میں صرف ریاض شہر نہیں بلکہ ساری مملکت ہے ۔ عوام کے دکھ درد سے آگاہ رہنے اور ان سے رابطہ میں رہنے والا یہ شہزادہ آج ملک کا بادشاہ ہے ۔ اب عوام مطمئن رہ سکتے ہیں کہ مملکت میں عوام کے تصور سے ز یادہ فلاحی اور ترقیاتی کام ہوں گے اور ممکن ہے کہ تنظیمی سطح پر بہت ساری تبدیلیاں بھی رونما ہوںگی ۔ شاہ سلمان جب گورنر ریاض تھے تو وہ ’’الریاض ڈیولپمنٹ اتھاریٹی‘‘ کے چیرمین بھی تھے اور ریاض کو انہوں نے اپنی نگرانی میں اتنی ترقی دی کہ مملکت کا دارالحکومت ریاض شہری ترقی کے اعتبار سے دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے دارالحکومت کی برابری کرسکتا ہے ۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا ایک اور خاص وصف یہ ہے کہ وہ بے حد منظم اور وقت کے پابند انسان واقع ہوئے ہیں۔ پچھلی ربع صدی میں ہم نے شاہ سلمان کے سینکڑوں جلسے اور تقاریب میں بحیثیت صحافی شرکت کی اور تقریب کے دیئے گئے وقت سے کبھی شاہ سلمان کو ایک منٹ تاخیر سے پہنچتے نہیں دیکھا ۔ ظاہر ہے جب قائد اور سربراہ اس قدر منظم ہوگا تو ملک کا سارا نظام بھی اسی نہج پر چلے گا۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز 5 شوال 1354 ھ مطابق 31 ڈسمبر 1935 ء کو پیدا ہوئے ۔ یہ شاہ عبدالعزیز کے 25 ویں فرزند ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ریاض کے مدرسۃ العمرہ میں حاصل کی ۔ دس برس کی عمر میں مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ عبداللہ خیاط کے مدرسے میں قرآن کریم ختم کیا۔ 11 رجب 1377 ھ مطابق 16 مارچ 1954 ء کو ریاض کے قائم مقام گورنر مقرر کئے گئے ۔ 25 شعبان 1374 ھ مطابق 25 ڈسمبر 1960 ء تک گورنر رہے ، مستعفی ہوگئے۔ پھر 10 رمضان 1332 ھ مطابق 4 فروری 1963 ء کو دوبارہ گورنر ریاض بنائے گئے ۔ 9 ذی الحجہ 1432 ھ مطابق 5 نومبر 2011 ء کو وزیر دفاع ، پھر 18 جون 2012 ء کو ولی عہد مقرر کئے گئے ۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ ان کے تعلقات متضاد افکار و خیالات رکھنے والی شخصیتوں ، سیاستدانوں مذہبی رہنماؤں ، فوجیوں ، کمانڈروں اور شہری امور کے ماہرین سے ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے یہاں تعلقات کی بنیاد انسانی بنیادوں اور علمی و فکری جہتوں پر قائم ہے ۔ ان کے تعلقات کا ہدف اسلام ، سعودی عرب، اس کے عوام ، عرب قوم ، امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کے مسائل کے حل میں تعاون دینا اور لینا ہے ۔

خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اول درجے کے تجزیہ کار مانے جاتے ہیں۔ ان کے تجزیے بڑے دقیق ، بڑے عمیق اور درست ہوتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی تجزیے سے قبل متعلقہ مضمون کی بابت سمعی ، بصری معلومات جمع کرلیتے ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسی طرح سے ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی فیصلہ ساز شخصیتوں ، اداروں اور تنظیموں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ وہ نہ صرف یہ کہ سعودی عرب کے ماضی اور حال سے واقف ہیں، وہ اسی درجے میں یوروپی ، امریکی ، ایشیائی اور افریقی ممالک کی بابت بھی گہری اور وسیع معلومات جمع کئے ہوئے ہیں ۔ مطالعہ میںدلچسپی رکھتے ہیں۔ ہر مضمون کی جدید اور مستند کتاب کا مطالعہ بڑی لگن اور توجہ سے کرتے ہیں۔
عالمی حالات حاضرہ ،بین الاقوامی مسائل اور تبدیلیوں ہی سے واقف نہیں بلکہ محرکات پر بھی اچھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے وہ مسائل جو اقوام عالم کے ذہنوں کو الجھائے ہوئے ہیں، ان سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ایٹمی تنصیبات ہوں یا کثیر المقاصد ایٹمی استعمال سب پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ کن کن ممالک کو کس قسم کے خطرات گھیرے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی سے لے کر داخلی امور میں دخل اندازیوں، اقتصادی تباہی کے باعث بننے والی جنگوں ، نشہ آور اشیاء کے پھیلا لواور اسلحہ ذخیرہ کرنے کی جنونی دوڑ جیسے تمام مسائل آئینے کی طرح ان کے سامنے منکشف ہیں۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز دو خوبیوں کے مالک ہیں، ایک تو یہ کہ جدید و قدیم معلومات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ، دوسری خوبی یہ کہ وہ تجزیے اور نتائج اخذ کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو ان دو خوبیوں کا مالک ہو، وہ درست فیصلے کرتا ہے اور صحیح مشورے پیش کرتا ہے ۔ وہ متوازن سیاسی فکر ، حقیقت پسندانہ تصور امن، اول درجے کی انتظامی صلاحیت اور وطن عزیز و اہل وطن کے احوال و کوائف سے سچی گہری واقفیت رکھنے والے منفرد رہنما ہیں۔ خادم حرمین شریفین سلمان بن عبدالعزیز کو حکمراں خاندان کا حکیم کہا جاتا ہے ۔ وہ دسیوں سلاطین اور فرما نرواؤں ، عالمی درجہ کے رہنماؤں اور سربراہوں کے اچھے، معتبر اور مخلص دوست کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں ممتاز دانشوروں ، سیاستدانوں ، عدلیہ و قوانین کے ماہرین اور معتبر صحافیوں کا دوست بھی کہا جاتا ہے ۔ وہ امن و امان اور سیاست کے علاوہ ، اقتصادی امور اور تیل مسائل کے حل میں بھی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ ہر ملک میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا پیمانہ دو ہی چیزیں ہیں۔ ایک تو امن و سلامتی ، دوسرا معیشت ۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نقطہ نظر سے یہ بات قطعاً ناکافی ہے کہ کوئی ملک قدرتی وسائل اور افرادی قوت کے حوالے سے مالا مال ہو، ان کی نظر میں اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہر ملک میں امن و امان کا ڈھانچہ درست ہو، عدل و انصاف کی بنیادوں پر قائم ہو، فرد و جماعت کو آسودہ کرنے والے اصولوں پر استوار ہو۔ اقتصادی ڈھانچے کی تباہی کا باعث بننے والے حالات کی اصلاح کا اہتمام ہو ۔ ان کی سوچ ہے کہ اگر ان بنیادوں سے چشم پوشی کی جائے گی تو ریاست غربت ، بیروزگاری ، محنتانے میں انحطاط اور طبقاتی مسائل سے دوچار ہوجائے گی ۔ ان کی سوچ یہ بھی ہے کہ قدرتی وسائل کو آنے والی نسلوں کے حقوق کو پیش نظر رکھ کر استعمال کیا جانا ضروری ہے۔ خادم حرمین شریفین نے مادی اور تہذیبی بنیادوں ہر ترقی کی مثال ریاض شہر کو بنا سنوار کر پیش کیا ۔ انہوں نے سعودی دارالحکومت ریاض کا نظم و ضبط 56 برس تک چلایا۔ انہوں نے یہ کام اعلیٰ درجے کی سوچ کے مطابق انجام دیا۔ ریاض کو ازمنۂ وسطی کے شہر سے عصری شہر میں تبدیل کردیا۔

ان کی سوچ ہے کہ سعودی عرب نہ صرف یہ کہ مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں امن و استحکام کا کلیدی کردار ادا کرنے والا منفرد ملک ہے ۔ ایسا تیل کی معتدل پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہورہا ہے۔ سعودی ریاست طویل عرصہ سے تیل کی ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، جو ایک طرف تو تیل پیدا کرنے والے ممالک و اقوام کے مفادات کی امین ہے اور دوسری جانب تیل خریدنے والے ممالک و اقوام کی مصلحتوں کی محافظ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سعودی عرب پائیدار استحکام، پیداوار شرح میں اضافے کیلئے عارضی مادی مفادات کی قربانی نہ دیتا تو عالمی سطح پر اس سے کہیں زیادہ خوفناک قسم کے اقتصادی بحران سر ابھارتے جیسا کہ حالیہ برسوں کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں۔ یہ ہیں شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز جو اپنے بھائی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا دست و بازو بنے ہوئے تھے اور ریاستی انتظام و انصرام کے سلسلے میں ان کا بوجھ ہلکا کرنے میں جی جان سے لگے ہوئے تھے اور آج سربراہ مملکتِ سعودی عرب ہیں ، جن سے مملکت کے عوام، بھاری تعداد میں مقیم غیر ملکیوں اور ساری دنیا کو امیدیں وابستہ ہیں۔
knwasif@yahoo.com