محمد ریاض علی رضوی
جس مصنف سے ہم آپ کی ملاقات کرانا چاہتے ہیں کوئی اورنہیں ان کی پیدائش کریم ضلع ، موضع گمبھیر پور کی ہے ۔ جگتیال میں انھوں نے ثانوی تعلیم حاصل کی ہے ۔ کریم نگر کے اس علاقے نے ماضی میں بھی چند اہم شخصیتوں کو جنم دیا ۔ محمد عبدالقدیر جن کا قلمی نام قدیر زماں ہے ہمارے درمیان ہیں ۔ آئندہ بھی ایسی شخصیتیں پیدا ہوتی رہیں گی ۔ قدیر زماں کی تصانیف کے بارے میں چند نامور دانشوروں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، انھیں یہاں پیش کیا جاتا ہے ۔
قدیر زماں کا بچپن گاؤں کے ماحول میں گذرا جہاں بارش کے موسم میں چھوٹی چھوٹی ندیاں بہتی تھیں اور آسودگیاں بھی ۔ یہ سب گمبھیر پور جگتیال اور کریم نگر کے قیام کی باتیں ہیں ۔ ان کی کہانیوں میں موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے تنوع پایا جاتا ہے ۔ ان کے افسانوں میں حقیقت اور طلسم کا حسین امتزاج ملتا ہے ، جسے انھوں نے فنکارانہ انداز میں برتا ہے ۔ وہ کفایت لفظی کے آرٹ سے واقف ہیں اور بات کو اختصار سے بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ تعجب ہوتا ہے کہ دکنی آمیز اردو بولی جانے والے صرف نو مکانات کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر انھوں نے اردو ادب میں ایک مقام بنایا ہے ۔
اے محی الدین باشا
محمد عبدالقدیر اردو فکشن اور ڈرامہ نگاری میں قدیر زماں کے نام سے معروف ہیں ۔ پیدائش 5 اکتوبر 1933 میں ہوئی ۔ ڈراموں پر مشتمل ’’پنجرہ کا آدمی‘‘ اور ’’ماورا‘‘ ڈرامہ نگاری میں اضافہ کا موجب ہیں ’’تلاش اقبال‘‘ نئے انداز کی کتاب ہے ۔ غلام قادر لون ، سید احمد عروج قادری ، عبدالحق وغیرہ کی معرکتہ الآرا کتابیں موجود ہیں ۔ قدیر زماں نے ’’تصوف بہ یک نظر‘‘ غیر معمولی کتاب لکھی ہے ۔ اپنے احباب پر سوانح اور شخصی خاکے اور انشائیے بھی لکھے ہیں ۔
غضنفر اقبال ۔ انٹرویو سے اقتباس
قدیر زماں کے ہاں صرف اشارتی زبان اور علامتی اسلوب ہی نہیں ایک اشارتی فضا بھی ملتی ہے جو خوشگوار ہونے کے باعث مزہ دے جاتی ہے ۔ وہ کھردرے اور سپاٹ پن سے کام لیتے ہیں جو اس زندگی کی بے رنگی اور اکھڑپن کی چغلی کھاتا ہے ۔
سلیمان اطہر جاوید
قدیر زماں جدید افسانے کے ایک معتبر ترجمان ہیں ۔ ان کی نظر صرف انسان کی خارجی زندگی پر نہیں رہتی وہ اس کے پس پردہ انسانی ضمیر کی کشمکش پر بھی نظر رکھتے ہیں اور خارج سے باطن کے ٹکراؤ کا بھی مشاہدہ کرنے کی ہمت ہے ۔
عالم خوندمیری
قدیر زماں کسی ایک آتشیں احساس یا کسی ایک چونکادینے والے تجربہ کی جذباتی آنکھ سے اپنے افسانے کے پیکر تراشتے ہیں ۔ علامتی اسلوب اور اشاراتی زبان کی نقاب پوشی پڑھنے والوں کو متاثر اور اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتی ۔
اختر حسن
قدیر زماں کی کہانیاں کہیں کہانی پن کے متلاشی قاری کو مطمئن کرتی ہیں تو کہیں احساس کی تہوں سے گذر کر اینٹی کہانیوں کی تسکین کا باعث بھی بنتی ہیں ۔
مغنی تبسم
قدیر زماں داستانی اساطیر کا بھی خوب صورت استعمال کرتے ہیں ۔ نقادان فہرست سازی میں مصروف رہے ، قدیر زماں نے اپنے انداز میں لکھنا شروع کیا ۔ کسی فیشن زدگی کا شکار نہ ہوئے اور فن کی منزلیں طے کیں ۔ شعور اور لاشعور کی کشمکش کو قدیر زماں نے بڑی فن کاری سے پیش کیا ہے اور یہی ٹریٹمنٹ عام افسانوں سے منفرد بناتا ہے ۔
بیگ احساس
قدیر زماں کو میں وقفے وقفے سے پڑھتا رہا ۔ رسائل میں مجھے ایک افسانے سے دوسرے افسانے تک پہنچنے میں مہینوں لگ جاتے ۔ کبھی سال بھر تک ان کی کوئی کہانی میری آنکھوں کے سامنے نہیں آتی ۔ افسانوی مجموعہ ’’کھلونے والا‘‘ ہاتھ میں آیا اور میں جوں جوں افسانے پڑھتا گیا میری آنکھوں میں ایک ایسا باکمال افسانہ نگار ابھرا ، جس کا ہر افسانہ فکر کے دریچے کھولتا ہے ۔ ان کے افسانوی کرافٹ میں ایک ایسا اطمینان اور سکون ہے جو بہت کم افسانہ نگاروں کے پاس نظر آتا ہے ۔ وہ ایک متنوع افسانہ نگار ہیں۔ انھیں زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ جزئیات ، ماحول اور کرداروں کی زبان پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔
نور الحسنین
قدیر زماں کی اتنی ساری مصروفیات اور مشغولیات کے ساتھ تصنیفی اور تالیفی کام کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایسا کونسا منتر ہے ۔ وہ زماں کی طناب کو ربر کی طرح کھینچ کر اپنے حسب مرضی کرلیتے ہیں ۔ اقبال کی اس بات پر ہمیں یقین لانا پڑتا ہے ۔
’ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر‘
مضطر مجاز
قدیر زماں گلبرگہ اسٹوڈنٹس کالج کے ان ساتھیوں میں سے ہیں جن سے میری دوستی پانچ دہوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد حیدرآباد منتقل ہو کر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ مترجم ، ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی ۔ بیشتر ادبی و ثقافتی انجمنوں سے وابستہ رہے ۔ وہ ایک مہم جو ، نڈر ، بے باک اورحوصلہ مند شخصیت کے حامل ، زندگی سے نبرد آزما ہونے اور خطرات سے کھیلنے میں انھیں لطف آتا ہے ۔ ان کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ رہا ۔ حسن و جمال کے شیدا ہیں ۔ ستر سال کی عمر کے بعد ایک حادثے میں کولہے کی ہڈی ٹوٹی تو دو آپریشن ہوئے ، ہاتھ میں عصا آگیا ۔ کوئی پانچ سال قبل بڑی آنت کا آپریشن بھی ہوا ۔ پھر بھی لکھتے اور چھپتے ہیں ۔ 1976 میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’رات کا سفر‘‘ شائع ہوا ۔ اس مجموعہ کی اچانک اشاعت سے ادب میں شب خون مارا اور بسیار نویسوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ تصنیف و تالیف کی کئی کتابیں منظرعام پرآئیں ۔ اقبال نے کسی ایک ہی شخصیت کے بارے میں کہا ہے ۔
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
وہاب عندلیب
قدیر زماں کبھی کبھی جادوئی حقیقت نگاری جو چھولیتے ہیں تو کبھی نفسیات انسانی کی گہرائیوں میں غوطہ زن نظر آتے ہیں ۔ اس حیرت انگیز تنوع اور تخیل کی وسعت کے باوجود (بلکہ شاید اسی کی وجہ) قدیر زماں کے افسانے ہمارے عہد ہی کے افسانے نہیںہیں ، اگر ان کے کچھ افسانے کائناتی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو کچھ دیگر افسانے ہماری لسانی حیثیت اور مرتبے کو معرض سوال میں لاتے ہیں ۔ ان کا ذہن کسی شرط یا فلسفے یا اصول کی پابندی کو قبول نہیں کرتا ۔ وہ دنیا کو اور خود کو بھی ناقدانہ بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ آج ایسے افسانہ نگار کم ہیں جو قدیر زماں کی طرح وسعت نظر اور فکر کی گہرائی کو کام میں لاتے ہیں ۔
قدیر زماں نے انسان کو انسان کی طرح دیکھا ہے ، وہ انسان سے کچھ مطالبہ نہیں کرتے لیکن وہ اس کی کمزوریوں سے خوب واقف ہیں ۔ اس کے باوجود وہ فیصلہ نہیں سناتے ہیں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔
شمس الرحمن فاروقی
(کھلی کتاب سے اقتباسات)