تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے عوام کو شدید گرمی سے چھٹکارا مل گیا ہے مگر سیاسی گرمی میں شدت پیدا ہونے کے امکانات قوی ہورہے ہیں۔ پروفیسر کودنڈا رام سے تصادم اختیار کرنے والی حکمراں پارٹی کو آگے چل کر نئے سیاسی مسائل کا سامنا کرنے کیلئے تیار ی کرنی ہوگی۔ کودنڈا رام تقریباً دو سال بعد دوبارہ سرخیوں میں آگئے ہیںاورکے چندر شیکھر راؤ سے نفرت انتہا کو پہنچ گئی تو ٹی آر ایس کابینہ کے رفقاء بھی بول اُٹھے ہیں۔ سیاسی عروج و زوال ہر ایک سیاسی پارٹی اور لیڈر کا مقدر ہوتا ہے۔ جن لیڈروں کو عروج حاصل تھا، جنہوں نے عوام کے لئے اچھے کام کئے، وعدوں کو بروئے کار لایا انہیں دیرپا سیاسی استحکام حاصل ہوا۔ جن حکمرانوں نے انتخابی وعدوں کو فراموش کردیا عوام کو دھوکہ میں رکھا ان کا سیاسی زوال آناً فاناً نمودار ہوا۔ پروفیسر کودنڈا رام ٹی آر ایس حکومت کے خلاف انہی باتوں کو لیکر دوبارہ اسٹیج پر توآرہے ہیں، انہیں چپ کرانے ک کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کو احساس ضروری ہے کہ اس نے وعدے پورے نہیں کئے ہیں۔ عوام میں ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ برقی سربراہی کو یقینی بنانے کا وعدہ بھی کہیں کم کہیں زیادہ پورا نہیں ہورہا ہے۔ رمضان المبارک کے موقع پر شہر کے مختلف مقامات پربرقی سربراہی گھنٹوں مسدود ہورہی ہے۔ جھوٹے وعدے کرنے والا حکمراں ایک دن سیاسی تباہی کواز خود دعوت دے دیتا ہے۔
ٹی آر ایس کی اندھا دھند ترقی سے پریشان اپوزیشن پارٹیوں کو اب کچھ راحت ملی ہے۔ پروفیسر کودنڈا رام نے دم توڑتی اپوزیشن کی زندہ نعشوں میں روح پھونک دی ہے۔ اب یہ پارٹیاں پروفیسر کے دیئے گئے لکچر کو ہی بار ہا عوام کے سامنے پیش کرکے حکمراں پارٹی کے خلاف اپنی رائے ظاہر کریں گے۔کودنڈا رام بذاتِ خود کوئی مضبوط سیاسی طاقت کی حامل شخصیت نہیں ہے لیکن ان کی باتوں کا احترام کرنے والے گروپ کی موجودگی نے انہیں ایک پلیٹ فارم عطا کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم انہیں حکمراں طبقہ سے تصادم کی ترغیب دے رہا ہے۔ بلاشبہ کودنڈا رام نے تلنگانہ تحریک کے دوران قیام تلنگانہ کو یقینی بنانے کے احتجاج میں اہم رول ادا کیا تھا لیکن حکمراں پارٹی نے انہیں یکسر نظر انداز کردیا اور حکومت کی ناکامیوں کی جانب انگلیاں اٹھائی گئیں توٹی آر ایس کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور اس نے اُلٹے پاؤں پروفیسر کودنڈا رام کا تعاقب کیا۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک میں حصہ لینے والوں نے یہ یقین کرلیا تھا کہ اب انہیں مزید سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ان کی کوششوں سے ہی ٹی آر ایس کو حکومت ملی ہے۔ لیکن جب ناانصافیوں اور من مانی کی حرکتوں کا گڑھا بھرجاتا ہے تو ٹی آر ایس حکومت کی برقراری کا سوال اٹھانے والے بھی بڑھتے ہی گئے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں کے وہ لیڈر اور لوگ فضول دکھائی دیں گے جو ایک دوسرے کی بد خواہی کرتے ہیں۔ یہ وہ احمق ہیں جو چھوٹی چھوٹی تنقیدوں کو برداشت نہیں کرتے ہوئے اپنی نادانیوں سے ایک سرکردہ پارٹی کی قوت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
تلنگانہ کے قیام کا ایک مقصد تھا جس کو فراموش کردیا جائے تو کودنڈا رام اور دیگر کو عوام کے حق میں آواز اُٹھانے کا اختیار مل جائے گا۔ اب یہ کیا جائے کہ اس مسئلہ کا سیدھا سادہ علاج تو یہی ہے کہ حکومت اب وعدے پورے کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر حکومت کو آئندہ پروفیسر کودنڈا رام کا بخار چڑھ جائے گا۔ اس سے بچنے کیلئے وہ ہاتھ پیر ضرور مارے گی۔ اب سیاسی اور میڈیا حلقوں میں خبر گری کیلئے بھی موضوعات منتخب کئے جائیں گے اس میں کودنڈا رام کے اعتراضات اور حکومت کی لاپرواہی کا تذکرہ ضرور آئے گا۔ اب وہ لوگ انتہائی فضول اور بیہودہ معلوم ہوں گے جو صبح و شام حکومت کی برائیاں اور بدخواہیاں کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں سے سیاسی جڑیں مضبوط کرلئے ہیں۔ تلنگانہ میں پروفیسر کودنڈا رام کی زیر قیادت جے اے سی کا قیام خود ایک اہم طاقت ہے۔ ریاست کی علحدگی کیلئے ان کی اہم جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کودنڈا رام صرف دو سال کی حکومت کی کارکردگی پر عوام کی رائے کا عکس پیش کررہے ہیں۔ لیکن ٹی آر ایس کے وزراء نے اس پر غور کرنے کے بجائے اُلٹے کودنڈا رام کو غیر حیدرآبادی قرار دیا۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ تلنگانہ جدوجہد میں بڑے قائدین متوسط لیڈروں اور ان کے حق میں نعرے لگانے والے عوام کی بات کی سماعت کیلئے حکومت کو وقت نکالنا چاہیئے۔ اگر کے سی آر کے خلاف عوامی رائے مستحکم ہوتی ہے تو ٹی آر ایس کا زوال بھی یقینی سمجھا جائے گا۔
تحریک کے ذریعہ حاصل کردہ تلنگانہ میں کئی لوگوں کی قربانیاں ضائع ہوگئیں خود کودنڈا رام کو اس کامیابی سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ انہوں نے اب حکومت کے خلاف مورچہ بند ہونے کا اعلان کیا ہے تو یہ ایک مثبت بات ہے کیونکہ چندر شیکھر راؤ نے اب تک تمام سیاسی انتخابی معرکے سر کرلیئے ہیں مگر عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔ جب کوئی طاقت ابلیسی نظام کا شکار ہوجاتی ہے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شیطانی کاریگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فکری و نظریاتی انتشار پھیلانے میں موثر رول ادا کرتے ہیں۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد عوام کی خوش بختی ان کا دروازہ توڑ کر دہلیز ٹاپ چکی ہوتی تو اب مسلمانوں کا رول بھی مختلف ہوگا۔ یہ مت بھولئے کہ ٹی آر ایس بھی اندر ہی اندر کمزور ہورہی ہے۔
حکومت پر تنقیدوں اور حکمراں طبقہ کی جوابی تنقیدوں کے درمیان میں یہ تلخ حقیقت بے نقاب ہوگئی ہے کہ حکمراں طبقہ صبر و تحمل سے عاری ہے۔ اگر اپوزیشن یا تلنگانہ تحریک سے وابستہ افرادحکومت کی کارکردگی پر انگلی اٹھاتے ہیں تو اس پر برہمی ظاہر کرنے کے بجائے سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے خرابیوں کو درست کرنا اور غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کرتے مگر ٹی آر ایس قائدین اور حکومت میں شامل وزراء اپنے خلاف کچھ سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ خاصکر چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کے تعلق سے اب یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اقتدار کے نشہ نے انہیں مغرور بنادیا ہے۔ وہ اپنے سامنے کسی بھی ہستی کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے عوام نے ان کے ہاتھ ضرورت سے زیادہ مضبوط کئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اب وہی عقل کُل رکھتے ہیں اور ان کے بشمول ان کی حکومت کا کوئی بھی رکن غلطی نہیں کرسکتا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لاپرواہی نہیں کرتا۔
کودنڈا رام یا ان کی طرح دیگر کسی بھی شخص نے حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر نکتہ چینی کی ہے تو اس نکتہ پرغور کرنے کا اچھا موقع مل رہا ہے۔ عوام کی نمائندہ شخصیتوں سے مشورہ حاصل کرکے ہی تحریک تلنگانہ کو کامیاب بنایا تھا اس حکومت کو کامیاب و کامران بنانے کے لئے ایسی عوامی نمائندہ شخصیتوں کی اچھی بری باتوں کو گرہ میں باندھ کر مثبت پہلو پر غور کرتے ہوئے کام انجام دیئے جائیں تو عوامی مسائل کی یکسوئی اور دیگر مشکلات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ تلنگانہ کے عوام کا صبر و تحمل آزمودہ ہے۔ جب یہ لوگ برسوں سے آندھرائی لابی کی من مانی کو برداشت کرتے آرہے تھے اور اپنے صبر کا مظاہرہ کررہے تھے تو انہیں ایک دن ان کے حق میں نئی ریاست وجود میں آئی، اب نئی ریاست کے حصول کے بعد سب کچھ توقع کے مطابق نہیں ہورہا ہے تو صبر تحمل سے حکومت کی کارکردگی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ حکومت کی وعدہ خلافیوںکو بھی چُپ چاپ دیکھ رہے ہیں۔
جب کسی بھی طاقت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو کیا ہوتا ہے یہ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے۔ چیف منسٹر بھی اتنے لاشعور نہیں ہیں کہ وہ کودنڈا رام یا دیگر کی باتوں کو نظرانداز کردیں گے۔ اس سے پہلے کہ چیف منسٹرکے سامنے متبادل سیاسی طاقت یا پلیٹ فارم تیار ہوجائے عوام سے مربوط مسائل اور انتخابی وعدوں سے متعلق اپنی حکومت کی کارکردگی کو دیانتداری سے بروئے کار لائیں۔ بلاشبہ دو سال کی کارکردگی کسی بھی نئی پارٹی یا نئی حکومت کیلئے بڑے آزمائش کی بات ہوتی ہے۔ چیف منسٹر نے اب اپنے آزمائشی دور کو عبور کرلیا ہے تو ماباقی ایام اقتدار کو کامیاب بنانے کیلئے مثبت کوششیں