ایک افطار پارٹی ایسی بھی !

مولانا سید احمد ومیض ندوی
ماہِ رمضان کی شروعات کے ساتھ لوگوں کا ذہن افطار و سحر کی طرف منتقل ہوتا ہے ،اس لئے کہ روزہ رمضان کی مہتم بالشان عبادت ہے اورافطار و سحر کا روزہ سے بڑا گہرا تعلق ہے ،سحری بالعموم انفرادی طور پر گھروں میں کی جاتی ہے ؛جبکہ افطار کا اہتمام اجتماعی شکلوں میں ہوتا ہے ،اسلام میں روزہ دار کا جو ثواب ہے اسکے برابر ثواب اس شخص کو بھی ملتا ہے جو روزہ دار کا افطار کراتا ہے ،روزہ داروں کو افطار کرانا؛ خدا اور رسول ﷺ کے یہاں انتہائی محبوب اور پسندیدہ عمل ہے ،یہی وجہ ہے کہ احادیثِ شریفہ میں افطار کرانے پر اجرِ عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے ،اللہ کے مخلص بندے رضائے الہی اور مغفرت ِ خداوندی کے حصول کے لئے رمضان المبارک میں روزہ داروں کے لئے افطار کا اہتمام کرتے ہیں ۔

افطاری خالص مذہبی عمل ہے ،جس کا مقصود رضائے الہی کا حصول ہے ،لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ لوگوں نے خدا کے لئے انجام دیئے جانے والے اس خاص مذہبی عمل کو ریا و نمود اور مختلف اغراض سے آلودہ کردیا ،چنانچہ افطاری کا یہ عمل اب افطار پارٹی کی شکل اختیار کرچکا ہے ،جو عمل رضائے الہی کا سبب تھا اب اس پر نمود و نمائش کی دبیز چادر چڑھ گئی ہے ،موجودہ دور کی افطار پارٹیوں میں جس قسم کی بے اعتدالیاں ہونے لگی ہیں اس نے افطار جیسے مقدس عمل کے تقدس کو پامال کرکے رکھ دیا ہے ،اب افطار پارٹیوں کا مطلب دولت کی نمائش ‘اسراف و فضول خرچی ‘حلال و حرام کی تمیز کا خاتمہ ہو کر رہ گیا ہے ،سیاسی شخصیات نے تو اپنی رہی سہی کسر پوری کردی ،ان کے لئے افطار پا رٹیاں سیاسی دوکان چمکانے کا مؤثر ذریعہ بن گئی ہیں ،سیاسی چال بازی کے ذریعہ حاصل کی گئی حرام دولت کو وہ افطار پارٹی کے نام پر خوب بہاتے ہیں ،عوام کے ہزاروں حل طلب مسائل کو ٹھنڈے بستے کے حوالے کرنے والے حکمراں رمضان میں ایک افطار پارٹی کراکر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،جیسے جیسے رمضان آخری مراحل میں داخل ہونے لگتا ہے ؛نام نہاد افطار پارٹیوں کی باڑھ آجاتی ہے ،سادہ لوح عوام افطار پارٹیوں میں شرکت کرکے ایک طرف خودکو معزز خیال کرتی ہے ،اور دوسری جانب سیاسی قائدین کی فیاضی کی گن گاتی ہوئی لوٹتی ہے ،اس قسم کی افطار پارٹیوں میں روزہ داروں سے زیادہ پیٹ بھرے مفاد پرستوں کی بھیڑ ہوتی ہے ،ایسی نام نہاد افطار پارٹیاں غریبوں سے خالی اور امیروں سے پُر ہوتی ہیں ،بعضے افطار پارٹیاں سیاسی وابستگیوں کی مظہر ہوتی ہیں ،سیاسی قائدین محض کسی جماعت سے قریب یا کسی جماعت سے کنارہ کشی اختیار کرنے افطار پارٹیوں کا سہارا لیتے ہیں،چنانچہ اخبارات میںاس کا چرچا ہوتا ہے کہ فلاں کی افطار پارٹی میں فلاں نے شرکت کی ؛اس قسم کی افطار پارٹیاں ’’ سیاسی افطار پارٹیاں ‘‘ کہلاتی ہیں ،دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں مختلف ملکوں کے سفارت خانوں کی جانب سے بھی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ اور یہ’’ سفارتی افطار پارٹیاں ‘‘ہوتی ہیں ،آپ نے دیکھا ہوگا کہ شہروں میں مختلف پولیس تھانوں کی جانب سے بھی افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ یہ ’’پولیس افطار پارٹیاں ‘‘کہلاتی ہیں ،بسا اوقات کسی کارپوریٹر یا محلہ اور گاؤں کے لیڈروں کی جانب سے افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے ؛یہ گلی لیڈر افطار پارٹی کہلاتی ہے ،اس قسم کی افطار پارٹیوں کی عجیب شان ہوتی ہے ،ان میں روزہ کُھلائی کی سادہ تقریب کے بجائے جلسہء عام کا منظر ہوتا ہے باقاعدہ اسٹیج سجایا جاتا ہے اور اسٹیج پر V.I.P شخصیات رونق افروز ہوتی ہیں ،ان کا روزہ سے ہونا ضروری نہیں ہوتا ،حتٰی کہ مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا ،ایسی افطار پارٹیوں میں حقیقی اور حاجتمند روزہ دار تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ،البتہ وہی V.I.P شخصیات کے دُم چھلوں اور طفیلیوں کی بہتات ہوتی ہے ۔
قارئین کرام ! آپ نے اس قسم کی بے شمار افطار پارٹیوں کا مشاہدہ کیا ہوگا ،اور کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہوں گے جنہیں ایسی افطار پاٹیوں میں شرکت کی ’’سعادت‘‘ بھی حاصل ہوئی ہوگی ،شہرت و نمود اور سیاسی مقصد بر آری والی افطار پارٹیوں کے ہجوم میں ہم آپ کو ایک انوکھی اور عجیب شان کی حامل افطار پارٹی سے متعارف کرانا چاہتے ہیں جو آج کل سوشل میڈیا پر خوب گشت کررہی ہے ،جی ہاں ! آپ میں سے جن حضرات نے وہاٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا کے ذرائع سے اسکی تفصیل دیکھی ہوگی فی الواقع انہیں حیرت ہوئی ہوگی ،اس افطار پارٹی کا تذکرہ معروف کالم نگار ضیاء چترالی نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تحریر کا اقتباس من وعن نقل کیا جائے ،ضیاء چترالی اس افطار پارٹی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’افطار سے چند منٹ پہلے ترک دارالحکومت انقرہ کے ایک غریب علاقے میں واقع مزدور کے گھر کی گھنٹی بجتی ہے گھر کے مالک ۵۳؍سالہ جلیلک یلدرم جب دروازہ کھول کر دیکھتے ہیں تو ان کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ،انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا وہ دیکھتے ہیں کہ دروازے پر ملک کے صدر رجب طیب اردغان اور انکی اہلیہ سیدہ امینہ اردغان کھڑے ہیں ،ان کی حیرت کو بھانپتے ہوئے صدر رجب طیب اردغان انہیں تسلی دے کر کہتے ہیں کہ آج ہم آپ کے مہمان ہیں آپ کی فیملی کے ساتھ افطار کریں گے ،یہ سن کر میزبان خوشی سے پھولے نہیں سماتا ،وہ فوراً واپس جاکر اپنے گھر والوں کو ایک عظیم مہمان کی آمد کی خوشخبری سناتا ہے ،غریب یلدرم کے اہلِ خانہ نے اپنے محدود وسائل کے مطابق افطار کا معمولی انتظام کررکھا تھا ،گھر کے آٹھ افراد دستر خوان پر بیٹھے تھے ،اور افطار کے لئے کھجور ‘پانی‘دودھ اورسنگترہ کے علاوہ دستر خوان پر اور کچھ نہیںتھا ،اس لئے اہلِ خانہ کے چہروں پر عظیم مہمان کی آمدکی خوشی کے ساتھ ساتھ پریشانی کے آثار بھی نمایاں تھے ،مگر صدر اردغان اور انکی اہلیہ امینہ بلا کسی تکلف کے یلدرم کے اہلِ خانہ کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر دعاؤں میں مصروف ہوگئے ،کے اہلِ خانہ کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ صدر اردوغان اور انکی اہلیہ گھر میں موجود ہے ،اور ان کے ساتھ افطار میں شریک ہے ،یہ ناقابلِ یقین منظر دیکھ کریلدرم اور اسکے اہلِ خانہ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے اور انہوں نے صدر اردوغان اور انکی اہلیہ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا ،ترک پریس کے مطابق انقرہ کے علاقے ’’اولوس‘‘ کی سبزی منڈی میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور انہیں یومیہ ۶۰؍لیرہ (ترک کرنسی) ملتی ہے ،جوکہ ۲۲ ؍امریکی ڈالر کے برابر ہے ،یلدرم کے گھر میں ترک صدر کی آمد کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہے ،جس کا کرایہ وہ ماہانہ ۳۶۰؍لیرہ ادا کرتے ہیں جوکہ ۱۳۵؍امریکی ڈالر یا ساڑھے ۱۳؍ہزار پاکستانی روپئے کے برابر ہے ،افطار کے بعد ترک صدر اردوغان اور انکی اہلیہ یلدرم کے اہلِ خانہ کے ساتھ گھل مل گئے اور ان سے انکے مسائل بھی پوچھے ،یلدرم نے صدر اردوغان کو بتایا کہ ان کے ۵ ؍ بچے ہیں ،چونکہ ان کی آمدنی بہت محدود ہے اس لئے وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں تعلیم دلوارہے ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچویں روزے کے دن افطار کے وقت صدر اردوغان کے مہمان بنے اس روزان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی روزہ کشائی بھی تھی ،اس وقت اچانک صدر مملکت کی آمد نے کے اہلِ خانہ کی خوشیوں کو دوبالا کردیا ،صدر اردوغان نے پہلا روزہ رکھنے پریلدرم کے بچے کو نقد انعام کے ساتھ قیمتی تحائف بھی دیئے جس پر ان کے دیگر بچوں نے للچاتی نظروں سے صدر اردوغان کو دیکھا تو انہو ں نے گھر کے دیگر بچوں کو ایک ایک لیاپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ سے نوازا ،افطاری کے بعد کے گھر سے رخصت ہونے سے پہلے ان کے پڑوسیوں کو بھی صدر اردوغان کی آمد کا اچانک پتہ چل گیا تھا اس لئے کے بہت سارے پڑوسی بھی ان کے گھر جمع ہوگئے اور صدر اردوغان کے ساتھ عشاء کی نماز تک طویل نشست کی اور انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا ،اسی دوران صدر اردوغان کے سکیٹری سمیت کچھ سرکاری عہدیدار بھی یلدرم کے گھر پہنچ چکے تھے ،ترکی پریس کے مطابق رجب طیب اردوغان اور ان کی اہلیہ نے اپنی پہلی افطاری ترکی میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم شامی مہاجرین کے ساتھ کی تھی ،اس کے بعد انہوں نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے ساتھ افطار کرنے کا معمول بنالیا ہے ،اب تک وہ افطار کے وقت پانچ غریبوں کے مہمان بن کے ان کے ساتھ افطار میں شریک ہوئے ہیں ،صدر اردوغان اور ان کی اہلیہ افطار سے کچھ دیر پہلے اپنی گاڑی میں صدارتی محل سے نکل کر شہر کے کسی متوسط یا غریب علاقے کا رُخ کرتے ہیں،جہاں وہ کسی بھی شہری کے گھر کا دروازہ بجاتے ہیں اور اہلِ خانہ کے ساتھ مل کر افطار کرتے ہیں ،اس دوران صدر اردوغان اہلِ خانہ سے ان کے مسائل پوچھ کر انہیں حل کرتے ہیں ‘‘
قارئین ! آپ نے مذکورہ تحریر دل تھام کر پڑھی ہوگی اور شاید اس عاجز کی طرح آپ کے بھی آنسو نہ تھمے ہوں گے ،اس وقت یہ عاجز ترکی کے مردِ مجاہد ‘آبروئے عالمِ اسلام ‘لاکھوں شامی مہاجر بھائیوں کے غمگسار اور پورے عالم کی ملتِ اسلامیہ کے لئے تڑپنے والے طیب اردوغان کے بارے میں کچھ خامہ فرسائی نہیں کرے گا کہ اسی مردِ مجاہد سے اس وقت ملت کی آبرو باقی ہے ،ورنہ اسلام کے مراکز اور اس کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے عرب ممالک پر اس وقت نفاق کے گہرے بادل منڈلارہے ہیں ۔

جی ہاں ! ایسا نفاق کہ تاریخِ اسلام نے کبھی اسکی نظیر نہیں دیکھی،اسلام کے منبع اور سرچشمئہ وحیِ الہی سمجھے جانے والے ملک پر آج ایسے حکمراں مسلط ہیں جنہیں یہودو نصاری سے توقلبی الفت ہے لیکن اہلِ اسلام اور اسلام پسندوں سے خدا واسطے کا بیر ہے ،وحیِ الہی کی سرزمین پر اس وقت دینِ اسلام کے لئے قربانیاں دینے والے ہزاروں علماء کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے اور نا معلوم صحراء میں پھینک کر موت کے حوالے کیا جارہا ہے ،جن خطوں میں کبھی رسول اللہ ﷺ کے قدمِ مبارک پڑے تھے ،جن گلیوں اور ارہوں سے آپ کی مبارک ہستی گذری ہوگی ،آج وہاں سنیما ہال تیار کئے جارہے ہیں اورفحاشی کے کلب سجائے جارہے ہیں ،جس ملک کو پوری دنیا میں اسلامی قیادت کی باگ دوڑ سنبھالنی تھی ؛آج وہاں کے حکمراں خدا کے انتہائی مغضوب و ملعون ترین قومِ یہود ،جسے کبھی عذابِ الہی نے بندروں اور خنزیروں میں تبدیل کردیا تھا ،ان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ،وہ بر ملا بیت المقدس پر یہودی حق کا اقرار کر رہے ہیں ،وہ اپنے صیہونی و نصرانی آقاؤں کے اشارئہ آبرو کے منتظر رہتے ہیں ،انہیں مسجدِ اقصی پر منڈلارہے خطرات سے کوئی سروکار نہیں ،حرمین کے خادم کا چوغہ پہن کر وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جس سے دینِ حرمین(اسلام) زمین دوز ہوجائے ،یہ کیسے خادم الحرمین ہیں جو ہادم دینِ حرمین کا کردار ادا کررہے ہیں۔
الغرض عالمِ اسلام پر چھائی ہوئی نفاق کی ان گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں طیب اردوغان امید کی کرن ہیں ،رمضان المبارک میں غریب ایمانی بھائیوں کے گھر پہنچ کر افطار کے نام پر ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا اور انہیں حل کرنا غریب بھائیوں کے دکھ درد میں شریک رہنا طیب اردوغان ہی کا حق ہے ،کیونکہ وہ خلافتِ عثمانیہ کا فرزند ہے،نیز اسے احساس ہے کہ رسولِ ہاشمی کی یہ امت رفعت و عظمت کی کن بلندیوں سے نیچے آئی ہے ،اسے صیہون و صلیب کی اسلام دشمنی کا بھی خوب ادراک ہے ،یہ مردِ مجاہد قومِ رسول ہاشمی کو پھر اپنی بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہے ۔

قارئین ِ باتمکین !آپ بھی اپنے خاندانوں کا جائزہ لیں ،اپنے پاش علاقوں سے نکل کر پڑوس میں پائی جانے والی سلم بستیوں کا رُخ کریں ،وہاں آپ کو سینکڑوں یلدرم ملیں گے ،بلکہ ا س سے بھی بدترین حالات سے دوچار مسلم گھرانے ملیں گے ،ایسے گھرانے جہاں افطار کے لئے کھجور بھی دستیاب نہیں ہوتے،ان غریب خاندانوں کے معصوم بچوں کی بھی تمنا ہوتی ہے کہ وہ مختلف پھلوں سے افطار کریں ،لیکن ان کا غریب باپ ان کی خواہش پوری نہیں کرسکتا ،حیدرآباد میںکتنی ساری سلم بستیاں ہیں جہاں کے مسلمان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں ،وہ ہمارے ایمانی بھائی ہیں،ان کے دکھ درد میں شریک رہنا ہمارا ملی و انسانی فریضہ ہے ،رمضان کو رسول خدا ﷺ نے غمخواری کا مہینہ قرار دیا ہے ،غمخواری کیجئے ‘بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کیجئے ،لیکن یہ سب طیب اردوغان کی طرح خاموش چھپ کرکیجئے ،رات کی تاریکی میں پہونچئے ،چپکے سے راشن پہونچائیے ،اس طور سے کہ کسی کو آہٹ تک محسوس نہ ہو ،اخبارات اور سوشل میڈیا میں فوٹو چھپواکر غریبوں کی غریبی کا مذاق نہ اڑائیے !!۔
awameez@gmail.com