راکش مہتا
کہاوت مشہور ہے کہ جب وقت اچھا ہوتا ہے تو دشمن بھی دوست ہوتے ہیں اور جب حالات برے ہوتے ہیں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑدیتا ہے لہذا یہ کہاوت اب این ڈی پر صادق ہورہی ہے کیونکہ این ڈی اے کی سواری سے ایک ایک کرکے لوگ نیچے اترنے لگے ہیں ۔ بہرائچ سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے نے الگ ہونے کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے ابتدائی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے بی جے پی کو خیرباد کہہ دیا۔ انھوں نے پارٹی پر دلتوں، مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ تحفظات ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل بھی وہ بی جے پی پر سنگین نوعیت کے الزامات عاید کرتی رہی ہیں۔ ساوتری بائی نے بی جے پی کی وعدہ خلافی کا ایک چارٹر بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق امبیڈکر کی مورتیاں توڑنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حکومت مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام رہی، ان پر ظلم ڈھائے گئے۔ سالانہ دوکروڑ نوجوانوںکو روزگار نہیں دیا گیا۔ بینک کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ نہیں آئے۔ شہروں اور اداروں کے نام بدل کر اقلیتوں کی تاریخ مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت تعلیم کے نام پر ہندو مسلم کر رہی ہے۔ کالا دھن نہیں لایا گیا بلکہ بھگوڑوںکو بھگایا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے قریب آئین کی کاپیاں نذر آتش کی گئیں لیکن کسی کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا گیا۔ حکومت کے وزرا ملک میں نفرت پھیلا رہے ہیں اور چوکیدار کی پہرے داری میں ملکی وسائل کی چوری ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے الزامات عاید کئے ہیں۔ اترپردیش کی یوگی کابینہ کے ایک وزیر اوم پرکاش راج بھر بھی پر تول رہے ہیں۔ وہ بھی ایک عرصے سے بی جے پی پر تخریبی سیاست کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہی رام مندر کا شوشہ چھوڑتی رہتی ہے۔ بلند شہر فساد کے لئے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ ووٹ بنک کے لئے جذبات بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ بی جے پی لیڈروں پر بھی اشتعال انگیزی کا الزام لگایا۔ ساوتری بائی پھولے نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے ہنومان جی کو دلت بتانے پر یوگی آدتیہ ناتھ پر شدید تنقید کی ہے کہا کہ اگر یو پی میں ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد ہو گیا تو بی جے پی مشکل میں پڑ جائے گی۔ بہار سے این ڈی اے کے حلیف آر ایل ایس پی کے رہنما اوپیندر کشواہا بھی این ڈی اے کی سواری سے چھلانگ لگانے والے ہیں۔ ان کی کانگریس صدر راہول گاندھی اور شرد یادو سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے شرد یادو سے پہلے بھی ملاقات کی ہے۔ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا شرد یادو کی نو تشکیل شدہ پارٹی لوک تانترک جنتا دل میں انضمام کر دیں گے۔ اس سے قبل وہ راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر اور بہار کے سابق نائب چیف منسٹرتیجسوی یادو سے ملاقات کر چکے ہیں۔ کشواہا نے گزشتہ دنوں کہا کہ این ڈی اے ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے۔ کم از کم بہار میں تو ڈوب ہی رہا ہے۔ بقول ان کے اب اس کی سواری خود کشی کے مترادف ہوگی۔ انہوں نے نشتوں پر مفاہمت کے لئے 30 نومبر تک کا وقت بی جے پی کو دیا تھا۔ انہوں نے بی جے پی صدر امیت شاہ سے ملاقات کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ پھر نریندمودی سے ملنا چاہا لیکن انہوں نے بھی وقت نہیں دیا۔ لہٰذا ان کی ناراضگی فطری ہے۔ دوسری جانب بہار کے سابق چیف منسٹر جیتن رام مانجھی بھی بی جے پی سے ناراض ہیں۔ ان کے علاوہ رام ولاس پاسوان کی خاموشی بھی بہت کچھ کہتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنتا دل یو اور لوک جن شکتی پارٹی کے ساتھ نشستوں پر تال میل ہو گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ پاسوان بڑی خاموشی کے ساتھ تمام امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان سے کچھ بعید بھی نہیں ہے کہ وہ کب کیا کر ڈالیں گے۔ وہ ہمیشہ اقتدار میں شامل رہے ہیں، اگر ان کو ذرا بھی احساس ہو گیا کہ 2019 میں بی جے پی کے لئے مشکلات ہیں تو وہ این ڈی اے کی کشتی سے چھلانگ لگانے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ سابق مرکزی وزیر رگھوونش پرشاد نے بھی یہی کہا ہے کہ این ڈی اے ایک ڈوبتا جہاز ہے۔ جلد ہی لوگ اس پر سے کود کود کر بھاگنا شروع کر دیں گے۔ انہوں نے رام مندر کا مسئلہ اٹھانے پر بی جے پی کی مذمت کی اور کہا کہ جب انتخابات کا وقت آیا تو رام یاد آنے لگے ہیں۔ انہوں نے بھی بی جے پی پر ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔ سیاسی حلقوں میں یہ خبر گرم ہے کہ بالخصوص تین ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیں گڑھ کے انتخابی نتائج نے ان لوگوں کو روک رکھا تھا۔ شیو سینا نے تو پہلے ہی اپنی راہ الگ کر لی ہے۔ اس نے رام مندر کے نام پر آگے آکر بی جے پی سے اس مسئلے کو چھیننے کی کوشش کی ہے۔ اودھو ٹھاکرے پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کا انتخاب تنہا لڑیں گے۔ در اصل بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جو اپنے سامنے کسی دوسری پارٹی کا چراغ جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ جس جس ریاست میں جس جس علاقائی جماعت نے اس سے ہاتھ ملایا وہ اسے کھا گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کے چندرا بابو نائیڈو اس سے الگ ہو گئے۔ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ کو اس حقیقت کا پہلے سے ہی اندازہ تھا اسی لیے بی جے پی کی کوششوں کے باوجود انھوں نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ یہی صورت حال کرناٹک میں بھی رہی ہے۔ جنتا دل ایس کو بھی اس کا احساس تھا کہ اگر وہ بی جے پی کے ساتھ گئے تو ختم ہو جائیں گے اسی لئے اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ 2019 کا پارلیمانی انتخاب جیتنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اس کا احساس خود نریند رمودی، امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ وغیرہ کو بھی ہے، اسی لئے انھوں نے اب وکاس کی بات کرنی ہی چھوڑ دی ہے۔ جذباتی مسائل کو کھود کھود کر باہر نکالا جا رہا ہے۔ کانگریس پر لایعنی الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا کہ مودی اور شاہ کا غرور اور حکومت کی عدم کارکردگی بی جے پی کا جہاز ڈبو دے گی۔