برکھادت
سابقہ وزیر خارجہ ایم جے اکبر (جو ابھی بھی رکن پارلیمان ہیں) پر امریکی مقیم ، صحافی پلوی گوگوئی کے ساتھ عصمت ریزی کے الزام کا سامنا ہے اور ہم مسز گوگوئی کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس راز کا پردہ فاش کیا ۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ان کے ساتھ کام کئے ، چندر سینئر ساتھیوں کے ردعمل اور بیان پڑھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی ہے ، میں کھلے عام چند خواتین جو نئی نسل کی نمائندہ ہیں، جیسے تولین سنگھ ، منجت کرپلانی ، شیما مصطفیٰ نے کھلے عام اس موضوع پر گفتگو کی ہے ۔ اُن کی دانست میں می ٹو تحریک دراصل موضوع مذاق بن گئی ہے اور خواتین کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ حقیقی ہے اور مختلف ٹوئیٹ تبصرے پڑھ کر مجھے سخت تعجب ہوا ہے کیونکہ ان تبصروں سے دور متوسط کی زن بیزار ذہنیت جھلگ گئی ہے جس میں ملزمین کی ہراسانی کی مذمت کے بجائے خواتین کو ہی انکا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔ کیا وہ ان تبصروں سے دستبردار ہوں گے یا پھر وہ معذرت کریں گے ؟
جہاں تک مرد حضرات کا تعلق ہے جو نہ صرف میرے سینئر ساتھی ہیں بلکہ اکبر کے ہم عصر بھی ہیں، ان واقعات کی مذمت کرنے سے کترا رہے ہیں اور بڑی تعجب خیز بات یہ ہے کہ یہی مرد حضرات می ٹو تحریک کے زور پکڑتے ہی متاثرہ خواتین کے ساتھ ہمدردی کرنے پر آگے آرہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اسی وقت اپنی زبان کھولیں گے، جس وقت ان کو محسوس ہو کہ ایسا کرنے سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور خواتین کے انکشاف کے بعد ہی وہ پہل کر رہے ہیں ۔ کم از کم ایک درجن خواتین یا پھر اتنی ہی تعداد خواتین جو ان کے خلاف توہین آمیز رویہ کے خلاف گواہی دینے پر راضی ہونے کے بعد ہی دوسرے افراد کے اس استحصال کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی جراء ت کی تاکہ وہ اکثریت کی بناء پر اپنے آپ کو گوشہ عافیت میں تصور کرنے لگے۔
حالانکہ درحقیقت صرف ایک خاتون واحد کا بیان ہی ان الزامات کے ثبوت کیلئے کافی ہے اور خواتین کو یہ بات ذ ہن سے نکالنی چاہئے کہ ان کی اکثریتی تائید کی بدولت ہی وہ اپنا مدعا پیش کرسکتی ہیں یا ان کے ساتھ ہمدردیوں میں شامل ہوجائیں گی ۔ دوسری جانب می ٹو میں لئے گئے مرد حضرات کے نام جو خواتین نے لئے ہیں ،ان کے ساتھ دوسرے مرد حضرات بھی اُٹھ کھڑے ہیں، ان میں قابل ذکر سہیل سیٹھ ، ونود دعاء ، جتن داس، کرن نگرکر ، وکاس بہل اور کئی دوسرے شامل ہیں۔ اس سے خواتین کو یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اگر آپ کو اپنا مدعا سنجیدگی سے پیش کرنا ہو یا منوانا ہو تو خواتین کی اکثریت کو ساتھ لینا ہوگا جو نہ صرف ناگزیر بھی ہے بلکہ ناانصافی پر مبنی ہے۔ جب می ٹو تحریک کا آغاز ہوا تو ہر طرف جنسیاتی ناانصافی پر بحث ومباحثہ ہونے لگے تو سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ کئی مبصرین نے ان میں لئے گئے ناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدنام اشخاص ہیں جو دو جہتی شخصیت کے مالک ہیں، ایک تو وہ انتہائی ذکی اور قابل ہیں تو دوسری جانب وہ قابل نفرت اور حیوانی صفت کے حامل ہیں لیکن میں معذرت کے ساتھ کہتی ہوں کہ اس طرح کے تبصرے دراصل خود ساختگی کا اظہار اور لایعنی گفتگو ہے لیکن اب میں اکبر کے بحیثیت ایڈیٹر کے ان کے بیان کئے گئے فصیح و بلیغ فقروں اور لطیف حملوں کو جو آپ ایڈیا ٹوئیٹر پر موجود ہیں، پڑھنے سے احتراض کرتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں ترون ، تیچ پال کے ساتھ بھی یہی سماجی ردعمل ظاہر ہوا تھا جب وہ عصمت ریزی کے الزام کے مرتکب ہوگئے تھے اوران کے ساتھیوں نے ان کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کیا تھا جو اکبر کے ساتھ اختیار کیا گیا۔ چاہے وہ اکبر ہو یا ترون تیج پال یا پھر آنے والا کوئی اور شخص اپنے آپ کو نہایت معتبر ، معیاری قابل فخر کارنامہ انجام دینے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی اپنے آپ کو دودھ سے دھلا یا آسمان سے اترا ہوا معصوم فرشتہ کے روپ میں پیش نہیں کرسکتا۔ یہ ایک حقیقی زندگی کی تصویر ہے جہاں پر اگر گچھ لغزشیں سرزد ہوتی ہیں تو اس کو بلا چوں وچرا کے قبول کرنا چاہئے ورنہ اس کا انجام بالآخر ایسا ہی ہوگا۔ آپ اپنی آخری عمر کے حصہ میں اپنے دیوان خانہ میں تنہا بیٹھ کر ماتم کناں ہوں کہ بالآخر ایک شاندار کیریئر کا دردناک انجام ہوچکا ہے لیکن جو کچھ بھی صورتحال ہو ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنی انفرادی جنسی خلاف ورزی سارے ادارتی تنظیم کا ایک حصہ قرار دیدی جائے گی اور اس کا خمیازہ تنظیم کو بھگتنا پڑے گا ۔ اس فوری انصاف اور مختلف النوع خیالات کے اظہار کے دور میں کئی گوشوں سے یہ صداء بلند ہورہی ہے کہ فن کو فنکار سے علحدہ کردیا جائے ۔ اکبر اور تیج پال جیسے واقعات کی میڈیا میں گونج کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس طرح کے روز مرہ واقعات کے خلاف ایک متحدہ اور منظم سعی کی جارہی تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے ۔ آپ امریکہ کی مثال لے سکتے ہیں جہاں پر چارلی روز، گیوین اسپیسی یا پاروے ونسٹن کی عصمت ریزی اور ز یادتی کے واقعات کے باعث امریکہ کا سماج اٹھ کھڑا ہوگیا تھا جس کی بناء پر یہ شخصیات اوران کا کیریئر گوشتہ گمنامی میں چلے گئے۔
ہندوستان میں می ٹو تحریک کے باعث ایسی شرمناک اور قابل نفرت ہستیوں کے نام کو اخباروں کی شہ سرخیوں کے ذریعہ سے منظر عام پر لانا اور ان کے کارناموں کو رومانٹک انداز میں بیان کرنے کے سلسلہ کو فوری ترک کردینا چاہئے حالانکہ یہ عمل نہایت ہی دشوار کن ہے کیونکہ ایسے افراد کے نام ہمارے سماجی اور پیشہ ورانہ تانے بانے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ آپ سے شخصی طور پر ربط رکھتے ہیں ۔ چنانچہ تعلقات کا انقطاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے ، ناگرکر کی تحریروں ، دعاء کی ٹیلی ویژن شخصیت ، سیٹھ کی نیٹ ورکنگ یا دعاء کی پینٹنگ کے باعث ہم اصل مسئلہ سے منحرف ہوجاسکتے ہیں لیکن دانستہ خاموشی کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ بھی مجرم کے ساتھ شامل جرم ہیں۔ عصمت ریزی ایک ایسا جرم ہے کہ ریاست کو اس جرم پر فوری حرکت میں آنا چاہئے اور قانون کے مطابق اس پر قابل گرفت ایکشن لیا جانا چاہئے ۔ ترون تیج پال عصمت ریزی کیس میں شکایت سے پہلے ہی گوا پولیس حرکت میں آگئی تھی اور صرف میڈیا رپورٹ کو بنیاد بناکر نیشنل کمیشن فار ویمن نے گوا پولیس میں شکایت درج کرادی ۔ پلوی گوگوئی نے کہا تھا کہ اکبر کی کابینہ سے علحدگی ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے خلاف ہتک آمیز مقدمہ کی شروعات کرنے پراکبر کو نہ صرف بی جے پی بلکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے بھی بے دخل کردینا چاہئے تھا ۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ آگے دیکھا جائے گا تو کوئی بات نہیں ہم بھی انتظار کرتے ہیں لیکن بحیثیت ایڈیٹر ان کے شاندار ماضی کے تذکرہ سے ہم کو باز رکھیں اور ہم کو اس شاندار ماضی سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے۔