اک نیا خورشید اُبھرا تھا دکن کی خاک سے!

حامد لطیف ملتانی قادری
نواب بہادر یار جنگ کی خطابت کی گونج ایوان شاہی کے جہار دیواری سے ہوکر سارے ہندوستان کے طول و عریض میں پہونچ سکی تھی ۔ آپ کی خطابت کا جادو عوام کے سرپر چڑھ کر بولنے لگا تھا ۔ اس لئے ان کی ضرورت ہر محفل میں کی جانے لگی تھی کیونکہ ان کی زندگی وہی تھی جو ایک مرد مومن کی ہونی چاہئے دل میں خوف خدا سینے میں عشق رسول تھا اور دماغ میں ہر وقت ملت کی خدمت کی تڑپ اور جذبہ کار فرما تھا ان کی اولین شہرت ہو رہی تھی یہ نوجوان یوں مخاطب تھا ۔ اے محمد ﷺ عربی کے تاجیوش غلام سن کہ آئین جہاں بانی کیا ہوتا ہے ۔ تاجدار وقت حضرت آصف سابع نے پوری تقریر سنکر کافی متاثر ہوئے اور شاہانہ دل و دماغ اس قدر متاثر ہوا کہ مقرر نواب محمد بہادر خان ولد نواب نصیب یار جنگ کو شاہی خطاب نواب بہادر یار جنگ سے نوازا اور ذریعہ فرمان ان کی اس تقریر کی بڑی توصیف فرمائی ۔ قائد ملت نواب بہادر یار جنگ 27 ذلحجہ 1322ھ م 2 فروری بہشت 1314 ء م 3 فروری 1905 ء بروز یکشنبہ پیدا ہوئے ۔ ولادت ہوکر ابھی آٹھ روز ہی گذرے تھے کہ مادر آغوش سے محروم ہوگئے قدرت نے پرورش کیلئے آغوش نانی کا انتخاب کیا جو نہایت ہی دیندار خاتون بھی تھیں ان کی گود میں چودہ سال تعلیم و تربیت پاکر ایک ایسا لڑکا قوم کو ملا جس نے اس جنت نصیب خاتون کی تعلیم راسخ ہی کی بدولت ملی قیادت کا منصب پایا ۔
نواب صاحب نے مدرسہ عالیہ ، مفیدالانام ، آل سنٹس اور مدرسہ دارالعلوم میں بھی تعلیم حاصل کی تھی ۔ خانگی طور پر فارسی اور عربی کا درس حاصل کیا ۔ بحرالعلوم علامہ حضرت سید اشرف سمشی اور مولوی سعادت پیر خان ہوش اول مددگار دارالعلوم سے قرآن فقہ اور حدیث وغیرہ کا درس لیا ۔ قائد ملت علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر تھے اور یہ واقعہ ہے کہ انتقال سے قبل اقبال کے اس شعر کی تفسیر بیان کر رہے تھے ۔
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
اٹھارہ سال کی عمر کے ہی تھے والد ماجد نواب نصیب یار جنگ کا 1341 ھ میں انتقال ہوگیا ۔ والد کے انتقال کے بعد تقریباً 8 سال اپنے معاملات کی یکسوئی اور انتظامی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے اور 24 سال کی عمر میں ساری آبائی جاگیریں ان کے نام بحال ہوئیں تب عملی زندگی میں سکون نصیب ہوا ۔
قائد ملت نے پندہ سال کی عمر سے ہی تقریر گوئی شروع کردی تھی ۔ مختلف محفلوں اور موقعوں پر گذر کر شہر کے عام جلسہ ہائے میلادالنبی ﷺ میں نمودار ہوگئے اور بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی ۔ 1338ھ میں مجلس جاگیران کا معتمد منتخب کیاگیا ایک ناتجربہ کار نوجوان معتمد نے وہ کارہائے نمایاں مجلس جاگیرداران میں سر انجام دئے کہ کمیٹی نے 1930 ء میں ان کو حکومت کی مجلس ’’ وضع قوانین ‘‘ میں نمائندہ کر بھیجا جہاں قائد ملت کی قابلیت کے جوہر کھلے اور ملک ان کی بصیرت قوت واصات رائے اور خطابات کے کمالات سے باخبر ہوا ۔ پھر 1934ء میں مجلس بلدیہ کے رکن اور نائب صدر منتخب ہوئے پبلک مقام قائد ملت اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب کردیا اس طرح دو چار سال کی مختصر سی مدت میں سارے ملک میں ان کی علمی قابلیت و صلاحیت اور سربیانی کی شہرت کے چرچے ہونے لگے اب یہ وقت آگیا تھا کہ ہزاروں لوگ ان جلسوں میں شریک ہونے کیلئے کشاں کشاں چلے آتے جس میں آپ کی تقریر ہوتی ۔ بہ قول محترمہ بشیر
جس کے ہر انداز سے تھی سطوت مومن عیاں
جس کی پیشانی پہ تاباں تھے قیادت کے نشاں
لڑکپن سے نواب بہادر یار جنگ کا دل چونکہ شیدائے اسلام تھا اپنے خاندان اور اس کی امارت اور شان و شوکت میں مسلمانوں کے بے حد مراسم ، شاہ خرچیوں سرخانہ معیشت کا انہوں نے اس دنیا میں آنکھ کھلواتے ہی تماشہ دیکھنا شروع کردیا تھا پھر روز مرہ مالدار خوشحال ملک کے امراء اور سب طبقوں کے حالات ہر روز مشاہدے سے گذر رہے تھے ۔ مغربی طرز تعلیم کے باعث بے دینی اور مذہب سے بے گانگی نئی سیاست اور اس کی سیہ کاریاں جدید علوم و فنون کے اثرات اور بات بات میں سائنسی استدال ، قومی افلاس اور اسلامی سلطنت سے محرومی کے مناظر ان کے دل و دماغ میں ایک ہیجان بپا کر رہے تھے ۔ ایسے ماحول کو دیکھ کر اور اسلاف کی تاریخ اور اسلامی تعلیمات سے ان کی واقفیت نے ان میں قومی خدمت و اصلاح کی ایک آگ بھڑکادی ۔ چنانچہ اپنے وطن حیدرآباد اور سارے عالم اسلام کے حالات پر غور و فکر شروع کردی تاکہ قومی خدمت کا ایک صحیح راستہ اختیار کریں اور اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں اپنی قوم کیلئے راہ نجات کی بلائیں اور قدرت سے بھی ا نکی اس آواز کے اسباب بھی مہیا کردئے تھے ۔ بہ قول شاعر
صبح کے آثار پیدا تھے فضاء پر نور تھی
اور دکھائی دے رہی تھی منزل مقصود بھی
1931 ء میں حج و زیارت مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوئے حج سے فارغ ہوکر دیار اسلامی کی راہ لی ان سب ملکوں کو بہ چشم بصیرت دیکھا وہاں کے ارباب سیاست علماء اور مختلف شعبوں کا جائزہ لیا اور ملاقاتیں کیں تبادلہ خیال کیا اس طرح چھ ماہ صرف ہوئے ہندوستان لوٹے ، نئے عزم و ہمت اور منصوبے ان کے دماغ میں تھے قومی ارادے موثر تقریروں کے ذریعہ قوم کی کشتی کو ہمکنار کرنے کی انتھک محنت شروع کردی چنانچہ خواجہ حسن نظامی نے قائد ملت کے بارے میں کہاکہ انہوں نے جس گہری نظر سے سیاحت کی ہے اسلامی دنیا کے سب ممالک کا آئنہ سمجھا جائے گا ۔ آپ ہمہ تن ایک خاص نقطہ نظر کے ساتھ قومی کاموں میں عملی ثبوت بن گئے ان کی خطابت کی طاقت اور عمل کی قوت سے سارا دکن بلکہ سارا ہندوستان مسحور ہوگیا لیکن افسوس صد افسوس کہ عمل کی یہ راہیں انہیں اپنے قدم جمانے کی کدو کاوش میں مصروف کار تھیں کہ اچانک موت نے قائد ملت کو ہم سے جدا کردیا اور ان کا کام مکمل نہ ہوسکا ۔ حضور نظام آصف جاہ سابع نے ایک قطعہ تاریخ رحلت کہی ہے بہ زبان فارسی جو حسب ذیل ہے ۔
گرفتہ بخشے ازدست قادر ( خدا )
برائے حفظ حق قوم نادر ( درصفت )
بگفتہ کار اوور گوش عثمان
بہادر بود و خود درجنگ ماہر
( جانباز ) ۱۳۶۳ ھ ( تجربہ کار )
اے مشیرآباد کتنا بڑھ گیا تیرا وقار
سو رہا ہے ترے دامن میں دلوں کا تاجدار
ہر زمانہ میں یہ کہنا گرد افلاک سے
اک نیا خورشید ابھرا تھا دکن کی خاک سے