حامد انصاری کی حق گوئی پر واویلا کیوں ؟
احمد پٹیل کی کامیابی …گجرات سے بی جے پی کا زوال
رشیدالدین
ڈاکٹر حامد انصاری نے ایسا کیا کہہ دیا کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار بھڑک اُٹھے۔ نائب صدر کی حیثیت سے میعاد کی تکمیل سے عین قبل حامد انصاری نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کا مسئلہ چھیڑتے ہوئے اگرچہ اپنے دستوری فرائض کی تکمیل کی ہے لیکن یہ بات بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ہضم نہیں ہورہی ہے ۔ 10 سال تک ملک کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے انتہائی حساس ، سنجیدہ ، بردبار اور دانشور شخصیت نے ملک کے مختلف حصوں کے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ کیا دستوری عہدہ پر فائز شخصیت کیلئے اظہار خیال کی کوئی پابندی ہے۔ دراصل حامد انصاری نے عہدہ کے وقار کی پاسداری کرتے ہوئے 10 برسوں میں برسر عام کچھ نہیں کہا، برخلاف اس کے جب کبھی ملک کو کوئی مسئلہ درپیش ہوا ، انہوں نے اشاروں ہی اشاروں میں حکومت کو روشنی دکھائی۔ گزشتہ تین برسوں میں ملک میں جو حالات پیدا ہوئے اس بارے میں حامد انصاری نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کو دستوری فرائض کی یاد دہانی کرائی لیکن افسوس کہ حکومت نے ان کے مشورہ اور تجاویز کو نظرانداز کردیا۔ اب جبکہ میعاد ختم ہورہی تھی ، لہذا ڈاکٹر حامد انصاری کھل کر اظہار خیال کے لئے آزاد تھے اور انہوں نے اپنے حق کا استعمال کیا جس پر بی جے پی اور سنگھ پریوار واویلا مچا رہے ہیں۔
عدم رواداری اب عوام کی سطح سے اُٹھ کر ارباب اقتدار تک پہنچ چکی ہے ۔ اگر کوئی حکومت کو آئینہ دکھائے تو بی جے پی اور سنگھ پریوار بے قابو ہورہے ہیں۔ حامد انصاری کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ ہوا۔ مسلمانوں میں خوف کے ماحول اور عدم تحفظ کے احساس کی ترجمانی کرنے پر بی جے پی نے دستوری عہدہ کے احترام کو ملحوظ رکھے بغیر ہی غیر ذمہ دارانہ بیانات شروع کردیئے۔ جب ملک کے ہر شہری کو اظہار خیال کی آزادی ہے تو کیا نائب صدر جمہوریہ کو یہ حق حاصل نہیں؟ صدر جمہوریہ اور نائب صدر میں امتیازی سلوک کیوں؟ پرنب مکرجی نے صدر جمہوریہ کے میعاد کے آخری ایام میں بطور خاص اپنے آخری خطاب میں ملک کے موجودہ حالات پر حکومت کو آئینہ دکھایا تھا۔ انہوں نے ممکنہ حد تک حکومت کی سرزنش بھی کی لیکن بی جے پی اور مرکزی حکومت نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ پھر کیا بات ہوگئی کہ حامد انصاری کے الفاظ بی جے پی اور سنگھ پریوار کیلئے قابل برداشت نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ اعتراض تو بس یہی ہے کہ ایک مسلمان نے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ مسلمان کی زبان سے مسلمانوں کی بات کسی بھی طرح مودی حکومت کو منظور نہیں۔ اگر حامد انصاری یوں کہتے کہ ملک میں مسلمان خوشحال ہیں اور حکومت سب کا خیال یکساں طور پر رکھ رہی ہے تو یقیناً انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ حقیقت کے اظہار اور حق گوئی بی جے پی کو ہضم نہیں ہورہی ہے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان ڈر اور خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر شمالی ہند کی ریاستوں اور کم آبادی والے علاقوں میں مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جس طرح رات کے بعد سورج کا طلوع ہونا طئے ہے ، اسی طرح حامد انصاری کا ادا کردہ ہر لفظ حقیقت پر مبنی ہے۔ جب کوئی ایس سی ، ایس ٹی ، بی سی ، مراٹھا ، پٹیل اور جاٹ کی بات کرتا ہے تو حکومت اس سے خوف کھاتی ہے لیکن کوئی مسلمانوں کی بات کرے تو اسے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بی جے پی کا سوال ہے کہ حامد انصاری کو اچانک مسلمانوں کا خیال کیوں آیا اور مودی حکومت کے تین سال وہ خاموش کیوں رہے ؟ دستوری عہدوں کے اختیارات اور ان کی ذمہ داریوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ حامد انصاری نے اس اعتراض کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ انہوں نے وزیراعظم اور مرکزی وزراء کو صورتحال سے واقف کردیا تھا۔
نائب صدر کو وزیراعظم یا وزیر داخلہ کے اختیارات نہیں کہ وہ خود کارروائی کرسکے۔ حکومت کو توجہ دلانا ان کی ذمہ داری تھی ، جس کی تکمیل کی گئی۔ حامد انصاری نے نائب صدر کی حیثیت سے 10 سال میں 500 سے زائد تقاریر کیں اور نریندر مودی کے تین سالہ دور میں 80 سے زائد تقاریر کی گئیں اور کئی تقاریر میں انہوں نے عدم رواداری ، انسان کو جینے کے دستوری حق اور فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھائی۔ حامد انصاری کے آخری انٹرویو کے ساتھ ہی مودی کا بھجن منڈلی قومی میڈیا بھی ان پر تنقید کرنے لگا۔ ٹی وی چیانلس پر ساکشی مہاراج جیسے نفرت کے سوداگروں کو مدعو کرتے ہوئے حامد انصاری کی توہین کی کوشش کی گئی۔ ان چیانلس کو کبھی صدر جمہوریہ کی حیثیت سے پرنب مکرجی کی حکومت کو کی گئی نصیحتوں اور مباحث کا خیال نہیں آیا لیکن چونکہ ایک مسلمان نے مسلمانوں کا دکھ درد بیان کیا ہے ، لہذا قومی چیانلس کے اینکرس بی جے پی کے ترجمان بن گئے۔ حامد انصاری نے 10 برسوں تک نائب صدر کے عہدہ کے وقار میں اضافہ ہی کیا۔ اکثر افراد کی شناخت عہدہ سے ہوتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شخصیت اس عہدہ کی شناخت بن جاتی ہے۔ ایسی شخصیتوں میں حامد انصاری کا شمار ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی سیاسی شخصیت نہیں رہے بلکہ سفارتی عہدوں کے بعد نائب صدر کے عہدہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کے امیج کو چارچاند لگانے کا کام کیا۔ مسلمان اور عدم تحفظ پھر اس پر نائب صدر کی زبان ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم فوری اس بیان کا نوٹ لیتے اور قوم کو یقین دلاتے کہ ایسے واقعات اب نہیں ہوں گے ۔ ملک میں اخلاق سے لیکر پہلو خاں اور جنید کی ہلاکت تک ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کا عدم تحفظ کا شکار ہونا فطری ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حامد انصاری کے اس بیان سے نریندر مودی حکومت خود عدم تحفظ کا شکار ہوگئی اور وہ عوامی عدالت کے کٹہرے میں دکھائی دے رہی ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ، فخرالدین علی احمد اور جسٹس ہدایت اللہ جیسی قدآور شخصیتوں کی وراثت کی پاسبانی حامد انصاری نے کی ہے ۔ ملک کے آئندہ صدر جمہوریہ کیلئے ان سے موزوں کوئی اور شخصیت نہیں تھی لیکن محض مسلمان ہونے سے انہیں اس عہدہ پر فائز نہیں کیا گیا۔ بی جے پی کو دراصل دستوری عہدوں پر ہم خیال افرادکو فائز کرنا تھا۔ صدر جمہوریہ ، نائب صدر اور وزیراعظم تینوں عہدوں پر سنگھ نظریات کے حامل افراد فائز ہوچکے ہیں اور ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب مرکز کے اہم عہدے سنگھ پریوار کے کنٹرول میں ہے۔ حامد انصاری کے بیان کی مذمت میں وینکیا نائیڈو بھی خود کو روک نہیں پائے۔ نائب صدر کے امیدوار کی حیثیت سے انتخاب کے بعد انہوں نے بی جے پی سے استعفیٰ اور کسی بھی سیاسی مسئلہ پر بیان نہ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے اندر کا سیاستداں جاگ اُٹھا اور سنگھ پریوار سے ہمدردی میں انہوں نے حامد انصاری کے بیان کی نفی کردی۔ نائب صدر کا حلف لینے سے ایک دن قبل وینکیا نائیڈو اپنے حقیقی رنگ میں دکھائی دیئے ۔ انہوں نے عدم تحفظ کے احساس کو سیاسی پروپگنڈہ قرار دیا۔ گاؤ رکھشکوں کے ہاتھوں ہلاکتوں پر وینکیا نائیڈو کا یہ ریمارک حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں چند ایک واقعات معمولی بات ہے اور اسے بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ المیہ یہی ہے کہ ارباب اقتدار نے کبھی بھی ان کے خون کی قیمت کو نہیں جانا اور اس کی اہمیت پانی سے بھی کم رہی۔ کیرالا میں آر ایس ایس کے کارکن کا قتل ہوا تو بی جے پی نے آسمان سر پر اٹھالیا اور ارون جیٹلی مہلوک کے گھر پرسہ دینے پہنچ گئے۔ ارون جیٹلی جو پارٹ ٹائم وزیر دفاع بھی ہیں ، انہیں سکم کے ڈوکلام علاقہ کے دورہ کا خیال نہیں آیا جہاں ہندوستان کے بہادر جوان چین کے افواج کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
کانگریس مکت بھارت کا خواب دیکھنے والے مودی اور امیت شاہ کے خواب خود ان کی ریاست گجرات میں بکھر گئے۔ راجیہ سبھا کے انتخابات میں اس جوڑی کو اپنی ریاست میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ، جہاں سے وہ کانگریس مکت بھارت کا آغاز کرنا چاہتے تھے، سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پانچویں مرتبہ راجیہ سبھا سے داخلہ سے روکنے کیلئے زبردست منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ منصوبہ بندی کے تحت تمام تر حربے استعمال کئے گئے۔ طاقت ، دولت ، اثر و رسوخ حتیٰ کہ سرکاری مشنری کا بیجا استعمال کیا گیا۔ کانگریس ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے پولیس کی دھمکیاں اور بھاری رقومات کا لالچ دیا گیا۔ جب کانگریسی ارکان کرناٹک پہنچ گئے تو وہاں ان کے میزبان ریاستی وزیر برقی کی قیامگاہ پر انکم ٹیکس کے دھاوے کئے گئے۔ بی جے پی کے چانکیا کہے جانے والے امیت شاہ کی یہ چالیں قدرت کو منظور نہیں تھی اور نتائج میں بی جے پی کو شرمندگی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ راجیہ سبھا کی صرف ایک نشست کیلئے ملک میں شائد پہلی مرتبہ اس قدر سرکاری اور سیاسی سطح پر مداخلت کی گئی۔ رائے دہی کے دوران دو ارکان سے کراس ووٹنگ کرائی گئی اور یہی غلطی بی جے پی کیلئے پھانسی کا پھندا ثابت ہوئی۔ دو ارکان کے ووٹ کو ناکارہ ہونے سے بچانے کیلئے 6 سے زائد مرکزی وزراء چار مرتبہ الیکشن کمیشن کے دروازہ پر پہنچے ۔ دستوری ادارہ پر دباؤ بنانے دو مرتبہ وزیر فینانس ارون جیٹلی اور وزیر قانون روی شنکر پرساد کو الیکشن کمیشن بھیجا گیا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب آمریت اور ڈکٹیٹر شپ حد سے تجاوز کرتی ہے تو زوال کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ کچھ یہی حال بی جے پی کا دکھائی دے رہا ہے۔ گجرات میں شکست سے 2014 ء کے بعد سے کامیابی کے تسلسل کو ایک بریک لگ گیا۔ 2014 ء کے بعد مودی۔امیت شاہ جوڑی ناقابل تسخیر سمجھی جارہی تھی لیکن انہیں اپنی ہی ریاست میں شکست تسلیم کرنی پڑی۔ امیت شاہ راجیہ سبھا کیلئے جیت کر بھی ہار گئے۔ احمد پٹیل انتہائی بے ضرر اور کم سخن مسلمان ہیں لیکن بی جے پی انہیں بھی برداشت نہ کرسکی۔ جدوجہد آزادی میں اہم رول ادا کرنے والے مجاہدین آزادی کے چشم و چراغ حامد انصاری کے بیان پر شہود آفاقی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اک شخص نے اس شہر میں سچ بول دیا تھا
کٹتی ہوئی لوگوں کی زباں دیکھ رہا ہوں