نافع قدوائی
حکمران سماج وادی پارٹی کے وزیراعلی اکھلیش یادو کو عنان حکومت سنبھالے ہوئے تقریباً 23 ماہ ہوچکے ہیں ۔ اس عرصہ میں سماج وادی پارٹی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کے بجائے 2012 کے اسمبلی کے الیکشن کے مقابلے میں مقبولیت کا گراف ہر روز تیزی سے نیچے کی طرف گرتا ہی جارہا ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات کی لہر نے یو پی میں سماج وادی پارٹی کو کہیں کا نہیں رکھا ہے ۔ مغربی یو پی کے حالیہ ہولناک فسادات کے مقابلے میں اکھلیش یادو حکومت کی الہ آباد ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک یکے بعد دیگرے کئی معاملات میں سرزنش ہوچکی ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اقلیتی اداروں کی ابھی تک تشکیل نہ دئے جانے پر اکھلیش یادو کو لتاڑا لیکن یو پی حکومت کی کھال اتنی موٹی ہوچکی ہے کہ اب اس پر عدالتی تبصروں تک کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔ مظفرنگر فسادزدگان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو درخواست داخل کی گئی ہے اس میں ریاستی حکومت کو 5 فروری کو جواب داخل کرنا تھا لیکن یو پی حکومت نے عدالت کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ حکومت کے مقرر کردہ ایڈوکیٹ راجیو دھون نے مقدمہ کی پیروی کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے اس لئے حکومت نے اب دوسرے سینئر ایڈوکیٹ کو وکیل بنایا ہے اس وکیل کو مقدمہ کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے ایک ہفتہ کا وقت درکار ہوگا ۔ عدالت نے یو پی حکومت کو ایک ہفتہ کی مہلت دی ۔ سپریم کورٹ نے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یو پی حکومت کا رویہ مظفرنگر فسادات کے معاملہ میں بے حد کمزور رہا ہے ۔ یہ ایک بے حد حساس ونازک معاملہ ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔ مظفرنگر فسادزدگان کی طرف سے ان فسادات کی سی بی آئی یا ایس آئی ٹی سے جانچ کرانے کے مطالبہ والی اس درخواست پر ابتداء میں سپریم کورٹ نے ناراضگی جتاتے ہوئے اکھلیش یادو حکومت کی اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتہ کی مہلت دے دی ۔
مغربی یو پی کے جاٹ لینڈ کی اٹھارہ پارلیمانی سیٹوں کے حلقوں میں بی جے پی نے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے جاٹ کسانوں کو ایک حد تک اپنی طرف کرلیا ہے ۔ اس خطہ کے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات میں جاٹ کسانوں نے مسلمانوں کے تئیں انتہائی شقی القلبی کا مظاہرہ کیا اور وہی جاٹ جو گزشتہ چار دہائیوں سے مسلمانوں سے اس حد تک اتحاد کئے ہوئے تھے کہ بغیر ان دونوں کی مرضی و حمایت کے کوئی بھی امیدوار جیت نہیں سکتا تھا اور جاٹ لینڈ سے عموماً سیکولر پارٹیوں کے امیدوار ہی الیکشن جیتتے رہے ہیں ۔ چاہے چودھری اجیت سنگھ کا لوک دل ہو یا پھر سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس پارٹی اس خطہ میں سب سے کم سیٹیں بی جے پی کے حصہ میں آتی رہی ہیں لیکن مظفر نگر کے فسادات کے بعد اب جاٹ کسانوں کی اکثریت کا رخ بی جے پی کی طرف ہوگیا ہے ۔ مسلم ووٹ اب منقسم ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ مسلمانوں کی اکثریت بی ایس پی ، عام آدمی پارٹی ، کانگریس اور راشٹریہ لوک دل اور ایک طبقہ سماج وادی پارٹی کے حق میں نظر آرہا ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے قائد ملائم سنگھ یادو نے اس خطہ میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے 11 فروری کو سہارنپور میں اظہار تشکر ریلی کرکے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ ملائم سنگھ اپنی ریلی میں مقامی میڈیکل کالج کو تحریک ریشمی رومال کے روح رواں اور دارالعلوم دیوبند کے استاد مولانا محمود الحسن سے معنون کریں گے ۔ اس موقع پر جمیعتہ العلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی اور دیگر اکابرین موجود رہیں گے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سہارنپور اور اس کے اطراف کے مسلمان ملائم سنگھ یادو ، وزیراعلی اکھلیش یادو کا استقبال خوشدلی کے ساتھ کرتے ہیں یا نہیں ۔
چودھری اجیت سنگھ اور ان کے لوک دل کے گڑھ کہے جانے والے مغربی یو پی میں فسادات کے بعد سے چودھری اجیت سنگھ اور راشٹریہ لوک دل کے پیر اکھڑ گئے ہیں ۔ فی الحال جاٹ لینڈ میں بی جے پی سب پارٹیوں پر بھاری نظر آرہی ہے ۔ مودی کے معتمد خاص امیت شاہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ۔ انھوں نے اپنی آمد کے بعد سے یو پی میں فرقہ وارانہ سیاسی گوٹیں بچھائیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یو پی کا اب تک کا سب سے ہولناک فرقہ وارانہ فساد ہوا جس میں تقریباً 50 ہزار متاثرین اپنی جان و مال کے تحفظ کے لئے کم سے کم تین مہینہ تک پناہ گزین کیمپوں میں بے سر و سامانی کی حالت میں مقیم رہے ۔ امیت شاہ کی سیاست نے اترپردیش میں جاٹ اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بدترین دشمن بنانے میں اور جاٹ کسانوں کا ہندوکرن کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ اکھلیش یادو کی وزارتی کونسل کے سب سے سینئر مسلم لیڈر محمد اعظم خان بھی اپنی حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے بہت زیادہ خوش اور مطمئن نہیں ہیں ۔ وزیراعلی اکھلیش یادو بھی ان سے خوش نہیں ہیں وہ تو ملائم کا دم غنیمت ہے جس کی وجہ سے اکھلیش یادو کی وزارتی کونسل میں محمد اعظم خاں برقرار ہیں ۔
عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب قومی سیاست کے منظر نامہ پر آنے کا اعلان کرکے تمام سیاسی پارٹیوں کو بے چین کردیا ہے ۔ ایک انجانا خوف ان پارٹیوں کو ڈرائے ہوئے ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے روح رواں دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے اپنی حکومت کے تیس روز مکمل کرلئے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی کی 30 دن کی حکمرانی بہت زیادہ امید افزا نہیں رہی ۔ پارٹی کے اندر خلفشار شروع ہوگیا ہے ۔ کانگریس کی بیساکھیوں پر کھڑی اروند کیجریوال کی حکومت کتنے دن چل پائے گی اس بابت کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کو بے حد مایوس کیا ۔ ایک ماہ میں اروند کیجریوال نے دہلی میں مسلمانوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ اقلیتی سرکاری اداروں کی تشکیل نو نہیں کی ۔ بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی سی بی آئی یا کسی دوسری خفیہ ایجنسی سے جانچ کرانے میں وزیراعلی اروند کیجریوال کی روگردانی سے دلی کے مسلمانوں میں سخت مایوسی کا سامنا ہے ۔ بقول اعظم گڑھ کے سرکردہ مسلمانوں کے بٹلہ ہاوس معاملہ میں اروند کیجریوال اور سابق کانگریس وزیراعلی شیلا ڈکشٹ کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اترپردیش میں عام آدمی پارٹی نے کسی مسلمان کو پارٹی میں کوئی بڑا اور اہم عہدہ نہیں دیا ہے ۔ اروند کیجریوال نے ملائم سنگھ یادو کو ایک بدعنوان سیاستداں قرار دیا گیا ہے ۔ کیجریوال کی اس ہٹ لسٹ میں راہول گاندھی ، سونیا گاندھی ، مایاوتی وغیرہ کو بدعنوان سیاستداں قرار دیا ہے جب کہ ملائم سنگھ یادو کو آمدنی سے زیادہ اثاثہ و املاک رکھنے کے معاملہ میں سپریم کورٹ پہلے ہی کلین چٹ دے چکی ہے ۔ مایاوتی کو بھی اس قسم کی عدالتی راحت مل چکی ہے ۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو بدعنوان سیاستدانوں کی فہرست میں رکھنے سے خود یو پی کے سیاسی پنڈت سوجھ بوجھ رکھنے والے قطعی متفق نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ خود اروند کیجریوال جن کی ایمانداری پہلے ہی مشکوک ہے وہ اپنے کو چاہے کتنا ہی ایماندار کہیں واقعتاً وہ ایماندار نہیں اس پر تمام طرح کے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ۔ اروند کیجریوال مسلمانوں کو ساتھ لینے کے موڈ میں نہیں ہیں لیکن بعض مسلم تنظیمیں اور لیڈر ازخود ان کی حمایت کرنے کو تیار ہوگئے ہیں ۔
مرکزی وزیر برائے فولاد بینی پرساد ورما عمر کی اس منزل میں پہنچ گئے ہیں جہاں ان کے لئے خود اپنا الیکشن جیتنا مشکل ہوگیا ہے ۔ بینی بابو کو احساس ہوگیا ہے کہ بار بار حلقہ انتخاب بدلنے کے بعد بھی اب ان کے لئے الیکشن جیتنا دشوار ہوگیا ہے چنانچہ انہوں نے منفی سیاست ملائم سنگھ کے خلاف شخصی مخالفت برائے مخالفت شروع کردی ہے حالانکہ بینی بابو کو سیاست میں لانے اور ان کو اس مقام تک پہنچانے میں ملائم سنگھ یادو کے ہاتھ سے خود بینی بابو بھی انکار نہیں کرسکتے ہیں ۔ سماج وادی پارٹی سے الگ ہونے کے بعد کانگریس نے انہیں اپنی پارٹی میں جگہ دے کر وزیر تک بنادیا لیکن بینی بابو کی کانگریس میں شمولیت سے کانگریس کو رتی برابر فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی اٹھانا پڑرہا ہے ۔ الیکشن سے قبل بینی پرساد ورما نے لکھنؤ میں تاج ہوٹل میں ایک شاندار پریس کانفرنس کرکے اپنے ’’صحافیوں‘‘ کو خوب خوب نوازا ۔ کہا جارہا ہے کہ بینی بابو نے اس پریس کانفرنس میں دو کروڑ روپے نقدی تحفے تحائف پوری فراخدلی سے اپنے آدمیوں کو بانٹے ۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی مرکزی وزیر نے علی الاعلان اس طرح میڈیا کو خریدا ۔ بینی پرساد ورما کے اس فعل کی شکایت الیکشن کمیشن آف انڈیا سے بھی کی گئی ہے ۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی سے بھی شکایت کی گئی ۔ اگر نوٹ بانٹنے ، میڈیا کو خریدنے ، لالچ دینے کا یہ سلسلہ چل پڑا تو پھر جمہوریت کے چوتھے ستون کی ایمانداری مشکوک ہوجائے گی اور وہ دن دور نہیں ہوگا جب بدعنوان سیاستدانوں کی طرح بدعنوان میڈیا کے خلاف بھی آوازیں اٹھنے لگیں گی ۔ بینی پرساد کا یہ قدم خود کانگریس کلچر کے خلاف ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایماندار راہول گاندھی بینی پرساد ورما کی اس صریحاً بے ایمانی پر کیا کارروائی کرتے ہیں ۔ ملائم سنگھ یادو نے اس لحاظ سے اب تک اپنے سیاسی اعلی ظرفی کا ثبوت دیاہے کہ انہوں نے بینی پرساد ورما کے کسی الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ گونڈہ کی ریلی میں امید کی جارہی تھی کہ ملائم بینی کے حلقہ انتخابات میں ان کے الزامات کا دندان شکن جواب دیں گے لیکن گونڈہ کی زبردست ریلی میں بھی ملائم نے جواب نہیں دیا ۔
بی جے پی کی میرٹھ میں گزشتہ دنوں جو ریلی ہوئی جس سے مودی نے خطاب کیا اس ریلی سے ایک روز قبل بنائے گئے اسٹیج پر بی جے پی کے چند نمک حلال نمازیوں نے نماز پڑھ کر اس کی تصاویر اخبارات میں نمایاں طور پر شائع کراکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ میرٹھ کے مسلمانوں نے مودی کی ریلی ، ان کی کامیابی ، ان کے وزیراعظم بننے کے لئے دعائیں مانگیں ۔ لیکن بی جے پی کی قیادت کو اپنے نمک حلال مسلم نمازیوں کی یہ ادا قطعی پسند نہیں آئی ۔ انھوں نے ان کے اس فعل کو مودی اور پارٹی کے لئے منحوس مانا اور ایسے نمک حلالوںکے خلاف ضابطہ کی کارروائی کرنے کا بھی اشارہ دیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی اور ان کی بی جے پی کو عام مسلمانوں سے ہی نہیں خود اپنے نمک حلال مسلمانوں سے کس درجہ نفرت ہے ۔
عام انتخابات کا انتخابی عمل شروع ہونے کو ہے لیکن کانگریس کو ابھی تک 80 سیٹوں کے لئے امیدواروں کی درخواستیں نہیں موصول ہوئی ہیں ۔ پارٹی کے ذرائع کے بموجب امیدواروں کی کوئی بھیڑ بھاڑ نہیں ہے ۔ پارٹی کو امید ہے جلد ہی ریاست کی تمام 80 سیٹوں پر امیدواروں کی درخواستیں آجانے کے بعد امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا جائے گا ۔ کانگریس کے لئے یو پی میں حالات گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں خاصے خراب ہوگئے ہیں ۔