مجتبیٰ حسین
قدرت کے کھیل بھی بڑے نرالے ہیں ۔ اس نے آم کو ہندوستان میں پیدا کیا بہت اچھا کیا لیکن اس کو کھانے کا طریقہ امریکہ اور یوروپ کے باسیوں کو سکھادیا ۔ آم کو ہم بچپن سے کھارہے ہیں لیکن جب تک ہم نے ہالی ووڈ کی فلمیں نہیں دیکھی تھیں جن میں ہیروئنیں اور ہیرو بات بات پر ایک دوسرے کو آم سمجھ لیتے ہیں اور سلوک بھی ایسا ہی کرتے ہیں تب تک ہمیں بھی معلوم نہیں تھا کہ آم کو کھانے کا اصل طریقہ کیا ہے ۔ بعد میں جب ہم یوروپ اور امریکہ گئے تو ہم نے وہاں آم کھانے کی باضابطہ ٹریننگ بھی حاصل کی ۔ کیا کریں ہم ہندوستانیوں کی مجبوری یہ ہے کہ آم کھانے سے لے کر انجینئرنگ اور میڈیسن کی اعلی تعلیم حاصل کرنے تک ہر کام کو سیکھنے کے لئے ہمیں امریکہ اور یوروپ جانے کی عادت سے پڑگئی ہے ۔ بہرحال ہم نے وہاں آم کھانے میں وہ مہارت حاصل کی کہ آج ہم کبھی آم کھاتے ہیں تو ہمارے ایک دوست جو ہماری ہی عمر کے ہیں اکثر کہتے ہیں کہ ’’میاں جب تم دسہری اور چوسہ کھاتے ہو تو نہ جانے کیوں مجھے جینالولو برجیدہ اور صوفیہ لارین کی بے ساختہ یاد آجاتی ہے‘‘ ۔ اپنی عمر کے حساب سے وہ ہمیشہ پچھلے موسموں کے پھلوں کو ہی یاد کرتے ہیں ۔ ہم نے ایک امریکی دوست سے کہا بھی تھا کہ ’’بھیا! یہ جو تمہاری فلموں میں بات بات پر ندیدہ پن نظر آجاتا ہے تو اس کی جگہ تم لوگ سیدھے سیدھے آم کیوں نہیں کھالیتے؟‘‘بولے ’’میاں! پہلی بات تو یہ ہے کہ آم ہمارے ملک میں نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو بہت مہنگا ملتا ہے ۔ ہم ٹہرے کاروباری لوگ ۔ ہم تو سستی چیز کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’مگر ذائقہ بھی تو ایک چیز ہے‘‘ ۔ بولے ’’جن ملکوں میں آم نہیں ہوتا وہاں کے لوگ اپنا ذائقہ آپ پیدا کرلیتے ہیں ۔ آپ بھی کس چکر میں پڑگئے ۔ آپ آم کھانے سے مطلب رکھئے ۔ پیڑوں کو کیوں گنتے ہیں‘‘ ۔
حضرات! معاف کیجئے ۔ ہم خواہ مخواہ ہی پیڑوں کو گننے میں لگ گئے ۔ ہمیں تو آموں کے بارے میں کچھ کہنا تھا اور ہم بلاوجہ ہی اس کے کھانے کے طریقوں میں الجھ گئے ۔ جب ہالی ووڈ میں فلمیں نہیں بنتی تھیں تو تب بھی اس ملک میں لوگ جیسے تیسے آم کھالیا کرتے تھے ۔ یہ اور بات ہے کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے آموں کا رس پوری طرح چوسا نہیں جاسکتا تھا ۔ لیکن اس کی کس کو پرواہ تھی کیونکہ اس زمانہ میں آم بھی تو بہت ہوتے تھے اور میٹھے بھی ہوتے تھے ۔
آم ہمارا قوم پھل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کیا بچہ اور کیا بوڑھا ہر کوئی اسے پیڑ سے گرانے کے لئے پتھر مارتا رہتا ہے ۔ ہم ہندوستانیوں کی عادت ہے کہ جس چیز کو بھی قومی بنادیتے ہیں اسے مارنے کو دوڑتے ہیں ۔ آم تو خیر ’’راشٹریہ پھل‘‘ ہے ۔ ہم نے تو اپنے ’’راشٹر پتا‘‘ کو بھی نہیں چھوڑا ۔ آپ نے ہمیں آموں کے سلسلہ میں ہونے والی اس محفل میں بلا کر سچ مچ ہمارے سینہ پر ایک تیر مارا ہے ۔ کیوں کہ ہم اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے آموں کے باغ کسی زمانہ میں بڑی شہرت رکھتے تھے ۔ پھر زندگی نے ہمیں کچھ ایسے سبز باغ دکھائے کہ ان باغوں کو چھوڑ کر شہروں میں رہنے لگے ۔ آموں کا موسم آتا تھا تو آم کے پیڑوں پر آم کم لٹکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور ہم ہی ان کی ٹہنیوں پر زیادہ لٹکتے ہوئے پائے جاتے تھے ۔ غرض جب سے ہمارے آموں کے باغ چھن گئے ہیں تب سے ہمارا شمار بھی عوام میں ہونے لگا ہے ۔ یوں بھی آم میں اور عوام میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا کیونکہ دونوں ہی چوسنے کے کام آتے ہیں ۔ سرکار ، افسر ، بیوپاری ، پونجی پتی کون ہے جو عوام کو نہیں چوستا ، آم کو چوسنے کے بعد کم از کم اس کی گٹھلی تو چھوڑ دی جاتی ہے مگر عوام کو ایسی بیدردی کے ساتھ چوسا جاتا ہے کہ بعض اوقات تو ان کی استھیاں بھی نہیں مل پاتیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کا ذائقہ بھی آم کی طرح لذیذ ہوتا ہے ۔ جو لوگ عوام کو چوستے ہیں وہ جانتے ہیں کہ عوام کا ذائقہ پانچ سال میں ایک مرتبہ اُس وقت بہت تلخ ہوجاتا ہے جب عوام ووٹ دینے کے لئے آتے ہیں ۔ لیکن جب سے ووٹوں اور نوٹوں میں ایک تال میل پیدا ہوگیا ہے تب سے عوام کے ذائقہ کی تلخی بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔ اسی لئے تو کہاوت مشہور ہے کہ ’’عوام کے عوام ووٹوں کے دام‘‘ ۔
چاہے کچھ بھی ہو ہر کوئی آم کا رسیا ہے ۔ آدمی تو پھر آدمی ہے ۔ مرزا غالب بھی آموں کے دیوانے تھے ۔ ایک ریسرچ اسکالر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ غالب آم کے موسم میں شعر نہیں کہتے تھے ۔ صرف آم ہی کھاتے رہتے تھے ۔ ایسے میں کوئی انھیں ڈسٹرب کرتا تو اس پر اپنے شعروں سے حملہ نہیں کرتے تھے ، گٹھلی پھینک کر مارتے تھے ۔ آم ہی ایک ایسا پھل ہے جس میں ایک ہتھیار چھپا ہوتا ہے ۔کہتے ہیں غالب کے ایک دوست کو آموں سے چڑ تھی ۔ ایک دن دونوں بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ گلی میں پڑے ہوئے ایک آم کو ایک گدھے نے پہلے تو سونگھا ، کچھ سوچا پھر اسے کھائے بغیر آگے کو نکل گیا ، اس منظر کو دیکھ کر مرزا غالب کے دوست نے کہا ’’دیکھئے ، غالب صاحب ! گدھا بھی آم نہیں کھاتا‘‘ ۔ اس پر غالب نے کہا ’’حضور! میں جانتا ہوں کہ گدھا ہی آم نہیں کھاتا‘‘ ۔ مگر یہ پرانی بات تھی جب گدھے کسی وجہ سے آم نہیں کھاتے تھے ۔ مگر آج حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ ہم جس آدمی کو بھی آم کھاتا ہوا دیکھ لیتے ہیں تو اسے گدھا سمجھنے لگتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے ہماری آنکھوں کے سامنے پورے سو روپیوں میں ایک بڑا الفانسو آم خرید لیا تو ہمیں اس کا ثبوت بھی مل گیا ۔ گدھا بڑا ہوشیار جانور ہے ۔ اس نے ایک صدی پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ ایک دن آم پینتالیس پچاس روپے فی کیلو کے حساب سے بکے گا ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی ہی سب سے بڑا گدھا ہے اور گدھا ہی سب سے بڑا انسان ہے ۔ آموں کی مہنگائی کی وجہ سے ہی ہم آم تو نہیں خریدتے لیکن ان کے دام ضرور پوچھ لیتے ہیں ۔ ایک فروٹ مرچنٹ سے ہم لگاتار چھ دنوں تک آم کے دام پوچھتے رہے ۔ ساتویں دن ہم اس کی دکان پر گئے تو اس سے دام تو نہیں پوچھا البتہ بڑی دیر تک للچائی نظروں سے صرف آموں کو دیکھتے رہ گئے ۔ اس پر دکاندار نے پہلے تو اپنے آموں کو کپڑے سے اچھی طرح ڈھک لیا ۔ پھر بولا ’’آپ دام پوچھیں گے یا میں ہی آپ کو بتادوں؟‘‘ ۔
ہم نے کہا ’’میاں! ہمیں تو ایک ایسے پھل کی تلاش ہے جس کے بارے میں سنا ہے کہ بہت میٹھا ہوتا ہے ۔ لوگ اسے صبر کا پھل کہتے ہیں ، مل جائے گا تمہارے پاس؟‘‘ ۔ دکاندار بولا ’’اب تمہیں زیادہ دن صبر نہیں کرنا پڑے گا ۔ ساٹھ پینسٹھ کے تو لگتے ہی ہو ۔ دوچار برس اور صبر کرلو تو صبر کا یہ پھل تمہیں دوسری دنیا میں جلد ہی ملے گا ۔ اس دنیا میں تو یہ نہیں ملتا ۔ اس وقت تو لنگڑے سے کام چلا لو ورنہ اپنا راستہ ناپو‘‘ ۔
اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں آم صرف دو قسم کے ہوتے تھے ۔ کاٹنے کے اور چوسنے کے ۔ اب دیکھنے کے آم بھی ہونے لگے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ذائقہ اور صورت شکل کے اعتبار سے آموں کی بھی اتنی ہی قسمیں ہوتی ہیں جتنی کہ عورتوں کی ہیں ۔ پھر لطف کی بات یہ کہ دونوں میں بہت سی باتیں ایک جیسی بھی پائی جاتی ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض بہت خوبصورت اور حسین عورتیں اندر سے بہت تلخ ، ترش اور کڑوی کسیلی ہوتی ہیں ۔ صورت اور سیرت میں جو فرق ہوتا ہے اس کا اندازہ ہمیں آم کھانے کے بعد ہی ہوتا ہے ۔جو لوگ آم اور عورت کی خوبی کا اندازہ اس کی صورت سے لگاتے ہیں وہ ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ اکثر ایسا ہوا کہ کسی آم کی صورت تو ہمیں بہت خراب لگی لیکن جب کھایا تو طبیعت باغ باغ ہوگئی ۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ رہے ہیں کیونکہ پچھلے پچاس برسوں سے ہم ایک ایسے ہی آم کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں ۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہم چوسنے کے آم ہی کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ کاٹنے والے آم اس لئے نہیں کھاتے کہ تین آم کھانے ہوں تو ڈیٹول کی پوری ایک شیشی خرچ کرنی پڑتی ہے ۔ آموں کے سینکڑوں نام بھی ہوتے ہیں ۔ بڑے کیوٹ (cute) اور مزیدار ۔ بعض نام تو ان آموں کے قلمی نام (Pen Name) ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمیں تو لنگڑا بہت پسند ہے ۔ کسی نے اس کی شکل و صورت کو دیکھ کر مذاق میں اسکا نام لنگڑا رکھ دیا تھا ۔لیکن اس آم نے الٹا نام رکھنے والے کا مذاق اڑانے کی ٹھان لی ۔ چنانچہ اب یہ آم جتنا چلتا ہے کوئی اور آم نہیں چلتا بلکہ اسے تو آموں کا ملکھا سنگھ بھی کہا جاسکتا ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض قصبے صرف آموں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتے ہیں ۔ ملیح آباد کو ہی لیجئے ۔ اگر یہاں آم نہ ہوتے تو بھلا بتایئے ملیح آباد کو کون جانتا ۔ یہ ضرور ہے کہ ایک زمانہ میں جوش ملیح آبادی نے یہ چاہا تھا کہ ملیح آباد کی شہرت ان کے نام کی وجہ سے بھی ہو ۔ لیکن زمانہ کی دوڑ میں ملیح آباد کے آم پھر آگے کو نکل گئے اور حضرت جوش ملیح آبادی پیچھے رہ گئے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جوش ملیح آبادی جب پاکستان گئے اور وہاں ان کا تعارف پاکستان کے اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا سے کرایا گیا کہ ان سے ملئے یہ جوش ملیح آبادی ہیں تو اسکندر مرزا نے چھوٹتے ہی کہا ’’اچھا تو آپ ملیح آباد کے رہنے والے ہیں جہاں کے آم بڑے مشہور ہیں‘‘ ۔ اس کے بعد اسکند مرزا نے جوش ملیح آبادی سے ملیح آباد کے آموں کے بارے میں تو بہت کچھ پوچھا لیکن ان کی شاعری کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا ۔
آخر میں ہم الہ آباد کے حوالے سے ہی اپنی بات کو ختم کرنا چاہیں گے ۔ کئی برس پرانی بات ہوگی جب جواہر لال نہرو الہ آباد کے آنند بھون میں رہا کرتے تھے ۔ یہی گرمیوں کے دن تھے بلکہ مہینہ بھی شاید یہی تھا۔ ہوسکتا ہے تاریخ بھی یہی رہی ہو ۔ اندرا گاندھی فیروز گاندھی سے شادی کرنے کے بعد ہنی مون منانے کے لئے کشمیر گئیں تو وہاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے انھیں مسحور کردیا ۔ ایسے میں انھیں اچانک نہروجی کا خیال آیا کہ وہ تو الہ آباد کی سخت گرمی میں پریشان ہونگے ۔ لہذا انھوں نے ہمدردی کے طور پر نہروجی کو لکھا کہ کاش میں آپ کے لئے کشمیر کی کچھ ٹھنڈی ہوائیں الہ آباد بھیج سکتی ۔ اس پر جواہر لال نہرو نے اندراجی کو لکھا ’’بیٹی! مجھے تو تم پر ترس آرہا ہے ۔ کشمیر میں بھلے ہی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے ساتھ ہوں گی لیکن تمہارے پاس دسہری اور ثمر بہشت تو نہیں ہیں‘‘ ۔
اور یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد آج نہ تو کشمیر میں ٹھنڈی ہوائیں ہیں اور نہ ہی الہ آباد میں دسہری اور ثمر بہشت نظر آتے ہیں ۔ (ایک پرانی تحریر)