آر ایس ایس‘ بی جے پی حکومت میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی

ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلانے کی باتیں مسترد، سنگھ پریوار سماج کی خدمت تک محدود، ترجمان رام مادھو کا بیان
جئے پور۔ 18؍مئی (سیاست ڈاٹ کام)۔ آر ایس ایس دفتر ’’کشیو کنی ‘‘ آج سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ہے جہاں بی جے پی قائدین کی مسلسل آمد کا سلسلہ جاری تھا۔آر ایس ایس نے آج کہا کہ وہ مرکز میں بی جے پی زیر قیادت حکومت کی کارکردگی میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی۔ اس نے اس طرح کی باتوں کو مسترد کردیا کہ آر ایس ایس ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ حکومت کو قابو میں رکھے گی۔ آر ایس ایس کے قومی ترجمان رام مادھو نے یہاں ایک تقریب میں کہا کہ سنگھ پریوار نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی کے بعد پارٹی کو کوئی رہنمایانہ خطوط نہیں دیئے ہیں اور نہ ہی مودی کو کچھ ہدایت دی گئی ہے۔ آر ایس ایس کسی کو بھی ریموٹ کنٹرول میں رکھنا نہیں چاہتی۔

سیاست اور حکومت میں آر ایس ایس کا کوئی ریموٹ کنٹرول نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بیان منگل کو بی جے پی پارلیمانی پارٹی اجلاس سے قبل بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین کے درمیان ملاقات کے پیش نظر ہونے والی قیاس آرائیوں کے درمیان آیا ہے۔ بی جے پی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں نریندر مودی کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے سے قبل انہیں پارٹی لیڈر منتخب کیا جائے گا۔ یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ نئی مودی حکومت کے تشکیل میں راشٹرا سیوم سیوک سنگھ کا اہم رول ہوگا اور مودی کی حکومت دراصل آر ایس ایس کا چربہ ہوگی۔ رام مادھو نے کہا کہ عوام کیلئے خاص کر کانگریس کو بہت بڑی تشویش ہے کہ آخر آر ایس ایس کا کیا رول ہوگا۔ کانگریس یہ جاننے کی فراق میں ہے کہ آئندہ آر ایس ایس کیا کرے گی؟ یہی سوال ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کو کوئی کنٹرول کررہا ہے، آیا اٹل بہاری واجپائی کے اشاروں پر کام کیا جارہا ہے جو سابق وزیراعظم ہیں۔ مادھو نے کہا کہ وہ از خود راست ریموٹ کنٹرل ہیں، انہیں کسی ریموٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کے ترجمان نے کہا کہ ہندو دائیں بازو کی تنظیم نے ہرگز سیاسی رول ادا نہیں کیا ہے۔ البتہ اس نے ایک مستقل اور مضبوط متبادل بنانے کی سمت کام کیا ہے۔ رام مادھو نے کہا کہ آر ایس ایس نے رائے دہی کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے انتھک جدوجہد کی ہے۔ عوام کو اپنے حق ووٹ سے استفادہ کی حوصلہ افزائی کی ہے، خاص کر مودی کے حق میں ووٹ دینے کی آر ایس ایس نے کامیاب مہم چلائی ہے۔

اب سنگھ پریوار کا کام پورا ہوچکا ہے اور سنگھ پریوار اپنی بنیادی خدمت پر رجوع بکار ہوگی اور قوم و سماج کی خدمت کرے گی۔ معاشرہ، کردار سازی اور شخصی فروغ کے لئے کام کرے گی۔ آر ایس ایس ترجمان نے مزید کہا کہ اقتدار پر آنے سے قبل بی جے پی نے اپنا ایجنڈہ تیار کرلیا ہے جس کی بنیاد پر ہی عوام نے اسے ووٹ دیا ہے۔ اب پارٹی کی جانب سے مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دی جائے گی۔ سنگھ پریوار کے پاس کوئی ریموٹ کنٹرول نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کوئی سیاسی تنظیم نہیں ہے، البتہ وہ سماجی تنظیم کے طور پر کام کررہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں عوام نے جن لوگوں کو منتخب کیا ہے، وہ سنگھ پریوار کے نظریہ کے حامل ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ انہیں کس طرح کا کام کرنا ہے اور اپنے نظریہ پر کس طرح عمل کرنا ہے۔ ایسے میں آر ایس ایس کوکوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی میں اور سیاست میں مداخلت کرے۔ بی جے پی کے بزرگ لیڈر ایل کے اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اور سشما سوراج کے باعث آیا پارٹی میں کوئی رسہ کشی چل رہی ہے؟

سے متعلق سوال پر آر ایس ترجمان نے کہا کہ ایسی کوئی رسہ کشی نہیں ہے، یہ میڈیا کی پھیلائی ہوئی خبر ہے۔ مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ رام مندر اور آرٹیکل 370 کی تنسیخ جیسے مسائل پر انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے پارٹی کے منشور میں اپنی ترجیحات کو واضح طور پر ظاہر کیا ہے اور یہ تمام مسائل مناسب وقت پر پارٹی کی جانب سے حل کرلئے جائیں گے۔ رام مادھو نے کہا کہ سنگھ پریوار مودی کی حکومت کو لانے کا سہرا اپنے سر نہیں لیتا، البتہ انتخابی فیصد میں اضافہ کیلئے اس نے کوشش ضروری کی تھی۔ آر ایس ایس کو فخر ہے کہ اس کی کوشش سے بی جے پی کے ووٹ میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب اس ملک کو ایک متحرک اور حوصلہ مند قیادت ملی ہے۔ حکومت چلانے کیلئے بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل ہوئی ہے تو نریندر مودی مضبوطی سے حکمرانی کریں گے اور آر ایس ایس اپنے سماج اور عوام کی خدمت پر واپس ہوگی۔ پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن کی کمی پر رام مادھو نے کہا کہ یہ بہت ہی بدبختاینہ صورتحال ہے کہ پارلیمنٹ میں کوئی اپوزیشن پارٹی نہیں ہوگی۔ ایسے میں اسپیکر کو ہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ حکومت کا کام اچھا ہے یا برا ‘ دائیں بازو کی تنظیم کے لیڈر نے میڈیا کے رول کی بھی ستائش کی ہے۔