اولمپک میڈل ونرز کے ڈوپنگ ٹسٹ مثبت آنے پر کارروائی : آئی او سی

کسی سے کوئی رعایت نہیں برتیں گے ، اینٹی ڈوپنگ کی عالمی ایجنسی کی رپورٹ کے نتائج کا انتظار ، صدر تھامس بوش کا خطاب
کوالالمپور ، 3 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر کا کہنا ہے کہ اولمپکس میں تمغے جیتنے والوں کے ڈوپنگ ٹسٹ مثبت ہونے پر اُن کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ آج یہاں اجلاس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ وہ اینٹی ڈوپنگ کی عالمی ایجنسی کی رپورٹ کے نتائج کے منتظر ہیں۔ بین الاقوامی اولمپکس کمیٹی کے صدر تھامس بوش کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر ماہرین نے یہ شک ظاہر کیا ہے کہ 2001 ء سے 2012ء کے درمیان ہونے والے اولمپکس اور بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیتنے والے ایک تہائی اتھلیٹس نے محدود منشیات یا پھر کارکردگی میں اضافہ کرنے والی ادویات کا استعمال کیا تھا۔ برطانوی اخبار دی سنڈے ٹائمز اور جرمنی کے نشریاتی ادارے اے آر ڈی/ ڈبلیو آر ڈی کا کہنا ہے کہ یہ اطلاعات پانچ ہزار کھلاڑیوں کے خون کے 12,000 نمونے کے نتائج کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں۔اخبار کے مطابق یہ شواہد عالمی پیمانے پر ہونے والے اتھلیٹکس کے مقابلوں میں ’غیرمعمولی دھوکہ دہی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارہ نے بھی افشاء ہونے والے ان شواہد کو دیکھا ہے۔ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے سابق سربراہ ڈک پاونڈ کا کہنا ہے کہ اگر تازہ مشتبہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو کسی بحران سے کم نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق افشاء ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 800 اتھلیٹس یعنی فائل میں موجود ہر سات میں سے ایک اتھیلٹ کے نمونے ڈوپنگ کے بہت قریب یا کم از کم غیر معمولی ہیں۔ جن ممالک کے کھلاڑی شک کے دائرے میں ہیں، ان میں روس اور کینیا کا نام سرِفہرست ہے۔ ایک مقبول برطانوی کھلاڑی بھی ان سات برطانوی کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو شک کے دائرے میں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2012ء میں لندن میں منعقدہ اولمپکس کھیلوں میں دس تمغے ان کھلاڑیوں نے جیتے جن کے ٹسٹ نتائج مشتبہ تھے۔ بہت سے فائنل مقابلوں میں پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے کھلاڑیوں میں سے کم از کم ایک کے ٹسٹ نتائج مشتبہ تھے۔ معروف برطانوی اتھلیٹ محمد فارح اور جمائیکا کے یوسین بولٹ کے خون کے ٹسٹ نتائج مشتبہ نہیں ہیں۔ نمونوں کی جانچ کا کام دنیا کے دو اینٹی ڈوپنگ ماہرین سائنسداں روبن پیریسوٹو اور مائیکل ایشنڈن کو دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ انٹرنیشنل اسوسی ایشن آف اتھلیٹکس فیڈریشنز کی ملکیت ہیں جسے ایک شخص نے افشا کر دیا۔ اگرچہ یہ شواہد ڈوپنگ کا ثبوت نہیں ہیں لیکن اس انکشاف سے سنگین نوعیت کے سوالات اٹھیں گے کہ عالمی تنظیم اسی ماہ بیجنگ میں شروع ہونے والے عالمی اتھلیٹکس چمپئن شپ سے قبل دھوکہ دہی اور فریب کو روکنے کیلئے کتنا کچھ کر رہی ہے؟ آئی اے اے ایف نے جاری کردہ اعداد و شمار کی درستگی پر سوال نہیں اٹھائے ہیں لیکن تنظیم نے سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ ’’آئی اے اے ایف ہمیشہ ڈوپنگ کو روکنے کیلئے نئی اور اعلیٰ درجے کی تراکیب کے استعمال کرنے میں پیش پیش رہی ہے‘‘۔ پیریسوٹو نے کہا ’’میں نے کبھی اس قدر غیر معمولی خون کے نمونے نہیں دیکھے۔ بظاہر کتنے سارے کھلاڑیوں نے ڈوپ کیا اور سزا سے بچے رہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ یہ بات قابل مذمت ہے کہ آئی اے اے ایف بظاہر سستی کا مظاہرہ کرتی رہی اور یہ سب ہونے دیتی رہی۔ ایشنڈن نے کہا کہ جانچ نمونوں کی فائلیں یہ بتاتی ہیں کہ اتھلیٹکس اسی مخمصے کا شکار ہے جس کا لانس آرمسٹرونگ کے زمانے میں سائیکلنگ شکار تھی۔