سید طارق قادری ٗ ایڈوکیٹ
جنرل سکریٹری صوفی اکیڈیمی
آزاد ہندوستان کے ۶۷ سالہ دور میں ہماری ریاست کے اندر ہمیشہ مسلم اوقافی جائیدادیں خارج از نظم Out of Main Streamرہیں جس کے نتیجے میں وقف مافیا کو مسلم سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر منظم منصوبہ کے تحت وقف بورڈ میں بد انتظامی کو ہوا دینا آسان ہوا۔ جب کبھی کوئی سنجیدہ اور فرض شناس عہدیدار متعین ہوا توبرسر اقتدار حکومت ،وقف مافیا اور مقامی جماعت نے مل کر مساویانہ رول ادا کرتے ہوئے ایسے عہدیداروں کو چین سے کام کرنے نہیں دیا۔ ان کے تبادلے کروانا اور انھیں ستانا ایک عام بات ہے ۔ جب بھی کوئی فرض شناس آفیسر وقف مافیا پر قانونی گرفت کرتا تو مسلم جماعت اور برسر اقتدار حکومت ان عہدیداروں کا تبادلہ کردیتی ہے۔ موجودہ وقف بورڈ میں تقریباً 250ملازمین ہیں جبکہ تروپتی دیوستھانم میں 2,500ملازمین اور اسکے علاوہ ہندو اوقاف میں 1,400ملازمین علاحدہ ہیں ان میں سینئر عہدیدار جیسے کمشنر ، اڈیشنل کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، اسسٹنٹ کمشنر اور دوسرے کلاس آفیسرس شامل ہیں جبکہ مسلم وقف بورڈ میں صرف ایک انچارج آفیسر جو اپنی مستقل ملازمت کے ساتھ یہ زائد اور اضافی چارج رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی درکار وقت نہ تو وقف بورڈ کو دے سکتا ہے اور نہ اس کے مسائل پر غور کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ فرصت ہے۔
محکمہ وقف بورڈ میں وقف جائیدادوں کے اصلی دستاویزات اور فائیلوں کی عدم دستیابی نے بیشمار مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ کہ کسی بھی عدالتی کاروائی اور مقدمات کے زیر دوران وقف بورڈ جواب دعویٰ داخل کرنے میں اکثر تاخیر کرتاہے جس کی وجہ سے ۲۰۱۵ء میںہائیکورٹ کے جسٹس ایس ۔سی۔ بھٹ نے اسپیشل آفیسر کو حاضر عدالت کرواکر یہ حکم جاری کیا کہ وقف ریکارڈ کو بورڈ کے مستقل ملازمین کی تحویل میں رکھا جائے تاکہ دستاویزات بروقت عدالت میں داخل کیے جاسکیں۔ ہائیکورٹ کا یہ حکم بھی بورڈ میں ملازمین کی کمی کی وجہ سے عمل درآمد سے رہ گیا اور آج بھی مسلم وقف کا ریکارڈ Contract Employeeکی تحویل میں ہے جو اکثر ایسی ضرورت کے وقت حاضر نہیں رہتے یا خارج بلدہ ہوتے ہیں جس سے وقف مافیا اور مقامی جماعت کی مدد ہوتی ہے اور جائیدادوں کی خُرد بُرد آسانی سے ہوسکتی ہے۔
جدید تلنگانہ ریاست کی نئی برسراقتدار حکومت نے (۱۰) اضلاع کی جگہ (۳۱) اضلاع کا قیام عمل میں لایا تاکہ حکمرانی میں شفافیت اور سہولت پیدا کی جائے Government at your doorstep کے تحت ایسا کیا گیا ۔ تمام ۳۱ضلعوں میں مستقل کلکٹر اور S.P. کا تقرر کیا گیا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جملہ۷اقلیتی محکمات بشمول وقف بورڈ صرف ایک آفیسر اضافی چارج کے تحت رکھا گیا ہے ۔ اس طرح اب تک مستعمل محاورہ 3 in 1 کے بجائے اقلیتی بہبود میں اسے 7 in 1کردیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی سے مقامی سیاسی جماعت اور وقف مافیا کو یہ سہولت اور فائدہ حاصل ہوگیا ہے کہ صرف ایک ملت فروش اور غیر منصف آفیسر کا تقرر کروالینے سے سارے مسائل قابو میں آجاتے ہیں۔ جیسے کہ از روئے قانون Competent Authority, Waqf Boardکے فیصلہ کے خلاف اپیل سکریٹری اقلیتی بہبود کے مجاز ہونے پر اپیل کی سنوائی بھی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے کیوں کہ وہی آفیسر کمشنر وقف سروے ، چیف آفیسر وقف بورڈ اور سکریٹری اقلیتی بہود بھی ہے ۔ اس طرح ؎
وہی قاتل ، وہی مخبر ، وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر ؟
اس طرزِ عمل اور حکمت عملی سے متاثر افراد کی کوئی شنوائی ممکن ہی نہیں ہے اور یہ دستور کی فراہم کردہ گنجائش کا ختم کردینا ہے ۔بہ حیثیت صدر کانگریس اور وزیراعظم اپنے دورِ اقتدار میں مسز اندراگاندھی نے Letter No. 71-PMO/76 بتاریخ ۲۶؍مارچ ۱۹۷۶ء میں حکم جاری کیا تھا کہ اگر اوقافی جائیدادوں پر حکومتی سرکاری ادارے قابض، متصرف ہوں تو انھیں ان جائیدادوں کا تخلیہ کرکے وقف بورڈ کے حوالے کرنا چاہیے اور جہاں سرکاری اداروں نے خاطر خواہ تعمیر کی ہو اور تخلیہ ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں مقامی Market Value کی مناسبت سے بڑی رقم Premium کے طور پر وقف کو دی جائے اور پھر اسے ایک مستقل کرایہ دار کی حیثیت سے مناسب کرایہ کا تعین کیا جائے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان ہی کی پارٹی کے برسر اقتدار ہونے کے بعد اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہوااور نہ اس کے لیے ہماری مقامی سیاسی جماعت اور مذہبی قائدین نے کوئی آواز اٹھائی۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے خود ان کے مفاداتِ حاصلہ پر کاری ضرب لگنے کا اندیشہ تھا۔
کانگریس کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے دورِ حکومت میں مسلم اوقافی جائیدادوں سے بے انتہا لاپرواہی برتی اور وقف مافیا کے ہاتھوں ان کی تباہی و بربادی کا تماشہ دیکھتے رہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہماری ریاست میں مقامی سیاسی جماعت کا رویہ دیکھتے ہوئے برسراقتدار حکومت نے وقف زمینات کو مختلف اشخاص ، اداروں اور کمپنیوں کو فروخت کردیا یا طویل مدتی کرایہ Long Leaseپر دے دیا۔ شہر کے اندر اور باہر کی بعض مشہور جائیدادیں جن کے ساتھ یہ سودا ہوا ہے ان میں اراضی وقف بابا شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ ، درگاہ حسین شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ ،اراضی ٹولی مسجد کاروان، مسجد سلطان باغ ٹینک بنڈاور اس طرح کے دوسرے بیشمار Project مثلاً Film Nagar, Lanco Hills, Hitech City, Horticulture Botanical Garden, Microsoft India Development Centreٰوغیرہ شامل ہیں ۔ ہمارے مقامی سیاسی جماعت کے فلور لیڈر نے اسمبلی میں غیر شرعی بیان دیا تھا (اعتماد بروز جمع بتاریخ ۳۰؍ نومبر ۲۰۰۷ء) کہ اگر وہ ادارے یا کمپنیاں ۱۵ تا ۲۰ فیصد مسلم تحفظات کی طمانیت /ضمانت دیں تو ان کی جماعت ایسے سودے بازی Sales dealsیا Lease deals پراعتراض نہیں کرے گی ۔ اس وقت بھی یہ اعتراض کیا گیاتھا کہ یہ بات غیر شرعی ہے اور یہ کہ اوقافی جائیدادوں پر کسی بھی فرد یا جماعت کو واقف کے منشا کے خلاف فیصلہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ اوقافی جائیدادوں کے سودے بازی کو مختلف برسراقتدار حکومتوں نے تسلیم بھی کیا اور ان کے اس ضمن میں بیانات اخبارات میں موجود ہیں ۔ جبکہ اصولی طور پر اور شرعی نقطہ نظر سے نہ تو وقف کی زمین بیچی جاسکتی ہے اور نہ خریدی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ Once a Wakf Always a Wakfپیش نظر رہے۔
جدید تلنگانہ ریاست کے سربراہ ’’تلنگانہ بندو‘‘نے تلنگانہ تحریک کے دوران اور الیکشن Manifesto میں آندھرائی حکمرانوں کا مسلمانوں پر ظلم اور اوقافی جائیدادیں جو چِھن چکی ہوں اس کو واپس دلانے کا تیقن دیا تھا ۔ اب اس کے برعکس گذشتہ ۳ سالوں میں وقف مافیا اور مقامی مسلم جماعت سے گٹھ جوڑ کرکے فرض شناس عہدیداروں کا مسلسل تبادلہ کیاجارہا ہے اگر یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں مسلم جائیدادوں کا کیا حال ہوگا؟ ساتھ ہی جمہوریت پر سے مسلم عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ برسراقتدار حکومت نے مسلم اوقافی جائیدادوں کی خرد برد اور لوٹ مار کو محسوس کرتے ہوئے KCRصاحب نے اپنی ذمہ داری پر اب وقف پورٹ فولیو اپنے پاس رکھا ہے جس کی وجہ سے مسلم عوام پُر امید نگاہوں سے انتظار میں ہیں۔
آندھرائی حکومت نے باوجود مختصر مسلم اوقافی املاک کے امام کو ماہانہ 5,000تنخواہ مقرر کی ہے جب کہ تلنگانہ میں امام کی تنخواہ 1,000روپیہ ماہانہ ہے۔ مقامی جماعت اس کم تنخواہ پر آج تک آواز یا احتجاج نہیں کیاہے۔
syedtaraqquadri@gmail.com