اور شیطان نے کلمہ پڑھ لیا

محمد عثمان شہید ، ایڈوکیٹ
ہمیں حیرت نہ ہوتی اگر ببول کے درخت پر گلاب اُگ آئیں ، اگر آم کے درخت پر موسمبی لٹکنے لگیں ، اگر جام کے درخت پر جامن پیدا ہوجائیں ۔ اگر انجیر کے درخت سے شہتوت ٹپکنے لگیں۔ اگر چنبیلی کے منڈوے سے موگرے کے پھول گرنے لگیں۔ اگر ناریل کے درخت سے آم گرنے لگیں۔ اگر بی مینا کوے کے انڈے سینکیں اور طوطے کا بچہ پیدا ہوجائے ۔ اگر شتر مرغ کے انڈے سے بانگ دیتا ہوا مرغ برآمد ہوجائے ۔ اگر سنترے کے درخت پر سیتاپھل سنترے کی جگہ لے لے لیکن ہمیں تو حیرت اس وقت ہوئی بلکہ شدید ذہنی جھٹکا لگا جب ہم نے سُنا کہ مسٹر مودی وزیراعظم ہند نے مسلمانوں کا قصیدہ پڑھتے ہوئے یہ فرمایا کہ مسلمان ہندوستان کے وفادار ہیں۔ وہ یہیں جیئیں گے اور اسی ملک کیلئے اپنی جان قربان کردیں گے ۔

مسلمانوں کی شان میں یہ قصیدہ اور وہ بھی اچانک بغیر تمہید کے ! ہماری عقل و فہم سے بالاتر ہے ۔ ہاں وزیراعظم ہند کا یہ بیان اس وقت منظرعام پر آیا جب یوپی ، راجستھان و دیگر ریاستوں میں منعقدہ اسمبلی کے ذیلی انتخابات میں توقع کے مطابق ان کی پارٹی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور ناکامی کی اس کھٹاس نے لوک سبھا کے انتخابات میں حاصل کردہ جیت کے نشے کو ہرن کردیا ۔ ان انتخابات میں نہ لوجہاد کا منتر کام آیا نہ مودی کا جادو اثر انداز ہوا ۔ مودی کے ذہنی اُفق پر یہ روشنی کیسے پیدا ہوئی ، کیوں پیدا ہوئی ؟ ہنوز غور طلب امر ہے ۔ کیا یہ مودی کی سیاسی کروٹ ہے ؟ کیا یہ مودی کی سیاسی قلابازی ہے ؟ کیا یہ مودی کی سیاسی چال ہے ؟ یا مسلمانوں کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کا حربہ !

ویسے ہم وزیراعظم کو یاد دلاتے چلیں کہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو جو مبینہ طورپر ’’بابر کی اولاد‘‘ ہیں ’’بیرونی حملہ آور‘‘ ہیں ’’کینسر کے کیڑے‘‘ ہیں ’’پاکستان کے وفادار‘‘ ہیں ۔ آپ سے توگاڑیہ سے ، سنگھل سے ، وی ایچ پی سے ہندوواہنی سے ، بی جے پی سے ، آر ایس ایس سے یا ملک کی کسی جماعت یا قائد سے سند وفاداری نہیں لینا چاہتے ، نہ انھیں ایسے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے ۔تم نے تاریخ پڑھی ہے وزیراعظم ! وہ تاریخ نہیں جو پروفیسر پی این اوک لکھ رہا ہے بلکہ وہ تاریخ جو پروفیسر تارا چند نے برسوں قبل تحریر کی تھی۔ اگر نہیں پڑھا ہے تو پڑھ لیجئے کے سب سے پہلے شبستان ہند میں شمع توحید روشن کیا محمد بن قاسم نے ۔ اس نے سندھ کو فتح کیا لیکن بحیثیت فاتح اس نے کسی مندر کو تباہ نہیں کیا ۔ ہم نے کبھی بھی انگریزوں کی طرح اس ملک سے کھلواڑ نہیں کیا ۔ لودھی ، خلجی ، غلامان ، تغلق اور مغل لیکن کسی بھی خاندان نے ہندوستان پر حکمرانی کرتے ہوئے ہندوستان کو نادرشاہ کی طرح لُوٹا نہیں ،تباہ نہیں کیا ۔ انگریزوں کی حکومت کے سیاہ راج کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ جس بے جگری سے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف حصول آزادی کیلئے جانوں کی قربانیاں دیں وہ بے مثال ہے۔ آزادی کے بعد چین سے جنگ ، پاکستان سے تین بار جنگ اور ان جنگوں میں مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں ، جام شہادت کا نوش کرنا دیگر مسلمانوں کا نیشنل ڈیفنس فنڈ میں عطیہ کیا اس ملک سے وفاداری کا ثبوت نہیں !
مودی جی ! تاریخ ہند کے اوراق زریں شاہد ہیں کہ یہی ’’بابر کی اولاد‘‘ نے ہمایوں بن کر گجرات کی رانی کرناوتی کی بہادر خاں روہیلہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور بے مثال مدد کرتے ہوئے رواداری کی شاندار مثال قائم کردی ۔ انھوں نے مسلمان کے خلاف ایک ہندو بہن کی تائید کی ۔

افسوس کہ یہ واقعات اس وقت فراموش کردیئے گئے جب انہی مسلمانوں کے خلاف تمہارے گجرات میں نفرت کی آگ کے شعلے اتنی شدت سے بھڑکائے گئے کہ جن کی حدت سے ہندو مسلم اتحاد کا خرمن سیکولرازم کا گلشن ، ہندومسلم اخوت ، بھائی چارگی ، محبت اور مروت کا گھروندہ ہزاروں مسلمانوں کی زندگی کا چراغ ، معصوم بے گناہ مسلم بچیوں کی عصمت کے گوہر ، بن کھلے غنچے ، گھر ، کاروبار ، کھیت ، دوکانات ، مکانات غرض سب کچھ تباہ کردیا گیا ۔ مودی صاحب اسو قت گجرات کی چیف منسٹر کی گدی پر براجمان تھے ، سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ اگر واقعی انھیں مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی وہ مسلمانوں کو اس ملک کا وفادار سمجھتے ، یہ کہ وہ اس ملک میں جینے اور مرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں تو وہ ہرگز مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ رویہ اختیار نہیں کرتے ، جیسا کہ جسٹس کرشنا ایئر ، جسٹس بی پی ساونت ، جسٹس ایس سریش اور دیگر سیکولر ذہن رکھنے والے ، ملک کے دردمند دل رکھنے والے افراد نے عینی گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد رپورٹ تیار کی تھی ۔ اس رپورٹ کے چند اقتباسات یہاں ہم نقل کرتے ہیں ۔ ’’گلبرگ سوسائٹی میں مسلمانوں کے قتل عام کے وقت 12 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور پولیس تماشائی بنی رہی ‘‘ ۔ ٹائمس آف انڈیا ( مورخہ 2 مارچ 2002ء ) کے نمائندے نے جب پولیس کمشنر پی سی پانڈے سے پولیس کی غیرکارکردگی کے تعلق سے وضاحت چاہی تو کمشنر نے کہا کہ ہم حملہ آوروں کے مقابلے تعداد میں بہت کم تھے ۔ ایس آر پی SRP کے ایک عہدیدار مسٹر کے کے میسور والا نے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے صاف کہہ دیا کہ Today There Are No Order To Save Muslims

اور پولیس والوں نے حملہ آور فسادی غنڈوں کی مدد بھی کی ۔ اس رپورٹ کے صفحہ 41 پر یہ بھی رقم ہے کہ VHP کے لیڈر ڈاکٹر جئے دیپ پٹیل اور بی جے پی کی ایم ایل اے مسز مایا کوڈنانی (جنھیں بعد ازاں عمرقید کی سزا دی گئی ) حملہ آور گروہ کی قیادت کررہے تھے اور انھیں اُکسارہے تھے کہ وہ مسلمانوں کو ختم کردیں ، ان کی عورتوں کی عصمت لوٹ لیں۔ اور مودی تم نے فساد کی روک تھام نہیں کی ۔ پولیس کو سخت احکامات جاری نہیں کئے کہ وہ فساد پر قابو پائیں ، مسلمانوں کی جان و مال عزت و آ برو کی حفاظت کریں۔ تم نے تو فسادیوں کی بالواسطہ ہمت افزائی کرتے ہوئے انھیں تین دن تک لوٹ مار، قتل غارت گری کی کھلی چھوٹ دی ۔ پولیس کو تماشائی بنے رہنے کی ہدایت کی اور پھر کہا ’’ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے گجرات میں یہی ہوا‘‘

کیا ایک بیان کے نتیجہ میں تمہارے کارناموں کی سیاہ تاریخ ہم بھول جائیں ۔ آج تم سے وہ ماں پوچھ رہی ہے جو حاملہ تھی جس کا پیٹ چاک کردیا گیااور اُس کی نظروں کے سامنے اس کے نوزائیدہ بچے کو آگ میں پھینک دیا گیا کہ ہمارا قصور کیا تھا مودی؟
آج مرحوم جعفری صاحب ایم پی کی بیوہ پوچھ رہی ہیں کہ اُن کے شوہر کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے آگ میں پھینک دیا گیا یہ کس قصور کی سزا تھی ؟
پولیس والوں نے ، ونزارا نے کس کے اشارے پر سہراب الدین شیخ اور عشرت کا فرضی انکاؤنٹر کیا ۔ امیت شاہ ( موجودہ صدر بی جے پی ) کو کن خدمات کے عوض پارٹی کی صدارت کے عہدے سے سرفراز کیا ۔ یہی کہ اس نے تمہیں مبینہ طورپر برسراقتدار لانے کیلئے ہندومسلم نفرت کی فضاء تیار کی ۔ نتیجتاً مظفرنگر میں فساد ہوا۔ یوپی میں مسلم دشمنی انتہا کو پہنچ گئی ، فائدہ تم کو ہورہا ہے ۔ دیہات دیہات ، قریہ قریہ گھوم کر بی جے پی کے کارکن مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کررہے ہیں کہ 18 فیصد مسلمانوں کی وجہ سے آج ہندوؤں کاجینا حرام ہوگیا ہے ، اس کے لئے ہندوؤں کو چاہئے کہ وہ پوری قوت سے ، متحد ہوکر ان کا مقابلہ کریں۔ ایسی زہرافشانی کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا جارہا ہے ۔
مودی تمہارے برسراقتدار آنے کے بعد مختلف شہروں میں سینائیں، سادھو ، سادھوی خودساختہ لیڈر اتنے منظرعام پر آگئے کہ ان کی گنتی مشکل ہے ۔ مثال کے طورپر پونے میں ہندوراشٹر سینا کا وجود جس کا سربراہ ہے دھننجے دیسائی ، جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچارک ہے ، جس کے خلاف ماردھاڑ ، ضرب شدید ، چوری فساد ، اغوا ، جرم کیلئے اکسانے کے 75 مقدمات درج رجسٹر ہوچکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہندوستان کا مسلمان ہندو ہے اسے خود کو ہندو کہنا چاہئے ۔ ان آر ایس ایس کے نیتاؤں پر کوئی لگام نہیں لگایا گیا ۔ کوئی کہتا ہے کہ ہندوستان ہندو راشٹرا ہے نہیں ہے تو ہم اسے ہندو راشٹر بنادیں گے اور وزیراعظم کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ بی جے پی کا ایک رکن پارلیمنٹ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلارہا ہے ۔ ایڈمنسٹریشن مہربلب ہے ، مودی خاموش ہے !؟
گردش لیل و نہار نے مودی کو وزارت عظمیٰ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز تو کردیا ، لیکن چیتا اپنے جسم کے دھبوں سے کیسے پیچھا چھڑاسکتا ہے !؟
بابری مسجد کی شہادت کا اندوہناک ، دلخراش اور روح فرسا واقعہ آج بھی ہمارے قلب و ذہن پر نقش ہے ۔ بی جے پی نے صرف حصول اقتدار کیلئے مسجد کو شہید کرنے سے قبل مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایسا فضاء تیار کی کہ بڑی تعداد میں ہمارا ہندو بھائی اس زہریلے پروپگنڈے سے متاثر ہوگیا، بالآخر غیرقانونی طورپر اس مسجد کو ڈھا دیا گیا۔ مودی نے ایسے اقدام کی کوئی مذمت نہیں کی !
مسجد کے قاتل آج بھی بی جے پی کے صف اول کے قائدین ہیں۔ مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔ مسز سونیا گاندھی صدر کانگریس نے یہ بیان دیا کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد چھ ہزار ہندو مسلم فساد ہوچکے ہیں یعنی 100 دن کے قلیل عرصے میں ان مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن کا قصیدہ پڑھا جارہاہے ۔ اگر مسلمانوں کے تعلق سے واقعی مودی کے دل میں نرم گوشہ ہوتا اور وہ یہ سمجھتا کہ مسلمان اس ملک کے وفادار ہیںوہ اپنے وطن کی حفاطت کے لئے اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہردم تیار ہیں تو وہ ٹوپی پہننے سے انکار نہ کرتا ۔ عید رمضان کے موقع پر عید مبارک کہنے سے نہ کتراتا۔ آر ایس ایس آج بھی مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کیلئے مختلف انداز سے منصوبے بنارہی ہے ۔ بی جے پی ان مذموم منصوبوں کی عملی صورت گری کے لئے سیاسی قوت حاصل کرچکی ہے ۔ کسی نہ کسی موضوع پر ہندومسلم اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ سب مودی کی ناک کے نیچے ہورہا ہے ۔ سیاسی طورپر کمزور ، لاچار ، بے بس ، اپاہج مسلمان ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایسے بیان سے مسلمان خوش ہونے یا بغلیں بجانے والا نہیں ۔ مسلمان چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ دیگر ابنائے وطن کی طرح سلوک کیا جائے ۔ وہ باوقار زندگی چاہتا ہے ۔ سماجی انصاف چاہتا ہے۔ نوکریوں میں انصاف چاہتا ہے ۔ وہ سیاسی انصاف چاہتا ہے ۔ وہ باعزت طریقے پر جینا چاہتا ہے ۔ وہ ہرگز پاکستان سے ہمدردی نہیں رکھتا اگر رکھتا ہوتا تو تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلاجاتا وہ تو اس وطن کے ذرے ذرے سے محبت رکھتا ہے تبھی تو ہزار ظلم سہنے کے باوجود اس وطن سے ہجرت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا