تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے لاکھوں معتمرین کو مقدس مقامات مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں طواف کعبہ، سعی اور آب زم زم کے ٹھنڈے ٹھنڈے گھونٹ پی کر گناہوں سے توبہ کرنے والوں یا پھر مدینہ منورہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کرتے ہوئے تشنہ لب لاکھوں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مجھ جیسے ان گنت گناہ گاروں کی قسمت پر خوشی کے آنسو چھلک اُٹھتے ہیںکہ رب کریم نے اپنے گناہگار بندوں کو اپنے اور اپنے رسول ؐکے دَر کی زیارت کا موقع نصیب فرمایا۔ روضہ مبارک کی زیارت کا بار بار موقع ملنے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دست کرم سے جام کوثر کے دو گھونٹ پینے کے لئے بے قراری کے شوق کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے مسجد قباء میں دو رکعت نماز ادا کرکے جب ہمارا قافلہ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی جانب کوچ کرنے کی تیاری کررہا تھا تو مدینہ کی گلیوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، مسجد نبویؐ کے سنگ مرمر کی فرش کی نرم ٹھنڈک گناہگار پیروں کو مابقی زندگی میں دین پر مضبوطی سے قائم رہنے اور دین کا داعی بننے کی تلقین کررہی تھی۔ اپنی تمام زندگی گناہوں کے دلدل میں دھنسا کر مدینہ کی زیارت کو آنے والوں کے لئے باب السلام کا در پوری شفقت و محبت کے ساتھ استقبال کررہا ہوتا ہے اور باب جبرئیل سے گذر کر جب سنہری جالیوں کے سامنے اشکوں سے گذارش کی جاتی ہے تو کوئی بھی بندہ مایوس نہیں لوٹا ہوگا۔ اسے یہ یاد ہوگا کہ یہاں اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اب یہاں سے رخصت لینے والوں کے ساتھ مدینہ کی گلیوں کی بہاریں بھی چلیں گی، یہاں کی مٹی بھی نرالی ہے اس کے کئی دیوانے ہیں جو اس مٹی سے اپنا رشتہ جوڑنے کے لئے مدینہ منورہ کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتے ہیں۔ بیشتر ایسے ہیں جو جنت البقیع میں مل کر اب تو مدینہ کی مٹی ہی بن چکے ہیں۔ میں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ مدینہ اپنی طرف کھینچتا ہے، میرا ایمان تھا اور ہے کہ سراپا نور کا بنایا ہوا مدینہ بھی انوار سے خالی نہیں ہے، جن پر اُترا قرآن قیامت تک کیلئے محفوظ ہے۔
مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہوتے ہوئے میقات پر رُک کر ہم کو عمرہ کی نیت کرنی تھی۔ مسجد میں غسل اور دیگر سہولتیں موثر طریقہ سے فراہم کی گئی ہیں۔ ویسے ہم ہوٹل سے ہی غسل اور احرام باندھ کر نکلے تھے مسجد میں اچھے طریقہ سے وضو کیا اور نیت عمرہ کرکے نماز ادا کی اور ہمارا قافلہ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوا۔ ہم بچپن سے سنتے پڑھتے آرہے تھے اور ٹی وی کے ذریعہ اب حج و عمرہ کے راست مناظر بھی دیکھ چکے تھے تو بس میں سفر کے دوران کعبۃ اللہ حرم شریف کی وہ تصاویر ذہن میں نمودار ہونے لگیں اور ایک معتمر کے لئے کن باتوں کالحاظ رکھنا ہوتا ہے اس پر توجہ کے ساتھ عمل کرنے کی نیت کو پختہ کرتا چلا گیا، اور بس جیسے مکہ معظمہ کی جانب بڑھ رہی تھی یہ خیال شدت سے ذہن کے گوشے میں اُمڈ رہا تھا کہ میرے مالک، میرے رب کریم نے مجھ عاصی کو گناہوں کی پوٹلی سمیت حرم پاک میں طلب کیا، یہاں وہ اپنی رحمتوں سے نہلا کر کرم سے نکھار کر اور اُمید مغفرت سے سنوار کر واپس بھیجے دے گا۔ ہوا بھی یونہی کہ جب ہم مکہ معظمہ پہونچے اور طواف کیلئے حرم شریف میں لرزتے قدم رکھے تو سبحان اللہ، اللہ کی تجلی، جاہ و جلال کے آگے مجھ جیسے گناہگار بندہ کی آنکھ سے آنسو ٹپکنے شروع ہوئے، اس لاشریک نے میری اوقات ہی بدل ڈالی۔ عمرہ کا عزم کرتے ہی تلبیہ کا وِرد کرنے کا تحفہ یہ ملا کہ مکہ معظمہ میں جتنے دن بھی قیام رہا تقریباً تمام فرض نمازیں مطاف کے اندر امام کے پیچھے ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ خانہ کعبہ کی بلند عظمت کے سامنے گناہگار کے ہاتھ دعا کیلئے اُٹھے تو دل تڑپ کر رہ گیا کہ آج اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم موقع دیا کہ اس کے گھر کی زیارت کرنے سے اسے چھونے، غلاف مبارک کو تھام کر گناہوں کی معافی مانگنے اور حجر اسود کا بوسہ لینے کا کئی مرتبہ موقع دیا۔ صفا و مروہ کی سعی سے اس گناہگار جسم کو ایک ایسی قوت ملی کہ قیام مکہ کے باقی تمام ایام کے دوران کئی مرتبہ طواف کا موقع نصیب ہوا۔ اس گناہگار کو یہ یقین دلایا کہ اے میرے گناہگار بندے میری رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا۔ جب بھی طواف مکمل ہوتا میں اسم محبوب رب العالمین کو چومتا اور تکمیل طواف کی سرشاری سے جھوم کر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرتا۔
بزرگوں سے یہ سنا تھا کہ حرم شریف کی خاص کر مطاف کی جگہ فرض نماز کی ادائیگی کی بڑی فضیلت ہے اور اس موقع پر اگر باران رحمت ہوتی ہے تو یہ قدرت کا کرم ہوتا ہے۔ ایک روز نماز ظہر کے لئے جب معتمرین نے صفیں باندھ لیں اور نماز شروع ہوئی تو قدرت کی رحمت برسنے لگی اور ہم تمام باران رحمت سے بھیگ کر سجدہ شکر بجالائے۔ بارش کا یہ سلسلہ عصر تک جاری رہا۔ اس موقع پر لاکھوں بندگان خدا کی یہ خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کے پرنالہ سے گرتے پانی کو حاصل کریں، لیکن بارش اس وقت شروع ہوئی جب تمام گناہگار بندے اپنے مالک کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے اور جیسے ہی نماز ختم ہوئی خانہ کعبہ میں نگرانی کیلئے تعینات پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے معتمرین کو حطیم کے اندر جانے سے روک دیا۔ لوگ تڑپتے رہے لیکن پولیس اور سیکورٹی گارڈس نے راستہ نہیں چھوڑا۔ معتمرین کی یہ آرزو دل ہی میں رہ گئی اور وہ پرنالہ کا پانی حاصل نہیں کرسکے۔ لیکن اس پروردگار کی مہربانیوں نے معتمرین کو حجر اسود کے سامنے کھڑا ہوکر پھر سے طواف کعبہ کا جذبہ دلادیا تو گناہگاروں کا کارواں چلتا رہا۔ یہ اللہ کی ہی مہربانی تھی کہ مجھ جیسے عاصی بندے کی ناک کو جو کاٹے جانے کے قابل ہے غلاف کعبہ کی خوشبوؤں سے معطر کردیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہی سخا تھی کہ میں نے اپنا ماتھا مطاف کے ٹھنڈے فرش پر رکھ کر آتش گناہوں کو سرد کرنے کی دعا کی۔ بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، اگر وہ بے نیاز نہ ہوتا تو شاید کوئی بھی بندہ اس کی مقدس بارگاہ میں کھڑا ہی نہ ہوتا۔ یہ بے نیاز بالذات ہی نہیں بلکہ اپنے بندوں کی سیاہ کاریوں سے صرف نگاہ کرکے انہیں دائرہ مغفرت میں کھینچ لاتا ہے۔ حرم شریف میں فرض نماز کے بعد صلوٰۃ جنازہ ادا ہوتی ہے جس کی ادائیگی بھی مغفرت کے لئے دعا کرنے کا ایک عظیم موقع ہوتا ہے۔
مکۃ المکرمہ کی ان پُرنور فضاؤں میں بھی ابر آلود موسم اور بارش کی جھڑی کے ساتھ کبھی نرم اور گرم دھوپ لینے کا موقع نصیب ہوا تو حرم شریف کے اطراف جاری تعمیرات کی وجہ سے معتمرین کو چند رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ نگران کار پولیس کی پھرتی کا یہ حال ہے کہ ہر فرض نماز سے ایک گھنٹہ قبل ہی مختلف جگہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے معتمرین اور مصلیوں کو مطاف کی جانب جانے سے روک دیتی ہے تاکہ حرم شریف کے اندر اژدھام پیدا نہ ہو۔ اس ترکیب و ترتیب کی وجہ سے فرض نماز کی ادائیگی بغیر کسی دھکم پیل اور گڑبڑ پُرسکون طور پر ادا ہوتی ہے۔ توسیع حرم شریف کی وجہ سے کافی جگہ خالی ہے اور جہاں کہیں جگہ مل جاتی ہے معتمرین نماز ادا کرلیتے ہیں۔ جہاں پر بندہ بے اختیار ہوکر اپنے آپ کو بااختیار کے سپرد کردیتا ہے۔ حرم شریف کے اندر اور باہر دور دور تک مصلیوں کی صفیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ٹھکرائے جانے والے گناہگار بندوں کو اپنی رحمت سے ایک ہی صف میں لاکھڑا کردیتا ہے۔ بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کا بے بہاکرم ہے کہ وہ ہر نماز کی ادائیگی کے دوران اس خوف کو طاری کردیتا ہے کہ نماز ہی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔
kbaig92@gmail.com