انکاؤنٹر یا سفاکانہ قتل

کلدیپ نیر
ریاست جموں و کشمیر میں ایک اور انکاؤنٹر ہوا ۔ میں تو گنتی بھی بھول گیا ہوں ۔ پریشان کن بات تو یہ ہیکہ انسانی حقق کارکن بھی عملاً خاموش ہیں ۔ ان میں سے بمشکل کوئی ریاستی حکومت کے پاس یہ دریافت کرنے جاتا ہے کہ درحقیقت کیا ہوا ہے جیسا کہ حال حال تک ان کا طریقہ کار تھا ۔ اس سے نہ صرف فوج کی زیادتیوں کی حکمت عملی کی منظوری کا احساس ہوتا ہے بلکہ دلچسپی میں کمی بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ مفتی محمد سعید کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ جوابدہ حکمرانی فراہم کرے گی لیکن اس نے اپنا موقف ظاہر نہیں کیا۔ اس گھناؤنے ماحول میں کشمیری پنڈتوں کی واپسی جو وادی کشمیر میں اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے اور بھی زیادہ غیر یقینی ہوگئی ہے ۔ جو لوگ وادی کشمیر میں پنڈتوں کی موجودگی کی وجہ سے رنگارنگ تمدن کا دعوی کرتے تھے اور ان کے خروج پر آنسو بہاتے ہیں انھوں نے بھی ان کی واپسی کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ انتہا پسند سید علی شاہ گیلانی کم از کم اتنے دیانتدار تو تھے کہ انھوں نے چند سال قبل میرے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پنڈتوں کی واپسی کشمیر کے مسائل کی یکسوئی پر منحصر ہے ۔ اسکا مطلب تھا ابدی انتظار ۔ سخت گیر افراد جیسے یسین ملک بھی رنگارنگ تمدن کے کھوجانے کا غم کھاتے ہیں لیکن انھوں نے بھی صورت حال سے سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ کم از کم اتنے صاف گو تو ہیں کہ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ وادی میں کسی نے بھی 1993 ء میں پنڈتوں کے خروج کو روکنے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ پنڈتوں کو خروج سے روکنے کے لئے مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر پر بھی ایک بھی آواز نہیں سنائی دی ۔ پنڈتوں کی وادی کو واپسی کی مخالفت کو انتہا پسندوں نے یہ کہتے ہوئے جائز قرار دیا کہ اس سے آبادیاتی توازن بگڑ جائے گا ۔ وادی کشمیر کا 98 فیصد آبادی کم ہو کر 96 فیصد رہ جائے گی ۔

یہ افسوس ناک بات ہے کہ بنیاد پرستوں کی بات حرف آخر ہوتی ہے ۔ لیکن یہی وہ حل ہے جس کو زیادہ سے زیادہ لوگ مقبول کرنے لگیں گے کہ کشمیر میں ایسا ہونا ہی چاہئے جو تقسیم کے دوران بھی غیر متاثر رہا تھا ۔ یہ طرز فکر بدبختانہ ہے لیکن یہ حقیقت بھی ہے ۔ پنڈتوں کی واپسی کے لئے جنگ خود وادی کشمیر میں ناکام ہوچکی ہے ۔ اگر صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے عوام خود اپنی طاقت کا مظاہرہ نہ کریں تو کوئی بھی دوسری طاقت مددگار نہیں ہوسکتی ۔ رنگارنگ تمدن کے چاہنے والوں میں کمزوری آتی جارہی ہے ۔ مذہب کو بالادستی حاصل ہوگئی ہے ۔ کشمیر پنڈتوں اور پنجابی ہندوؤں کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ وادی کشمیر پر مسلمانوں کا پنجاب میں سکھوں کا غلبہ ہے ۔ انتہا پسند ، مشترکہ بنیاد کو اکھاڑ پھینکنے میں مصروف ہیں۔
درحقیقت ملک گیر سطح پر بھگوارنگ دینے کی جو جھلسادینے والی لو چل رہی ہے اس نے وادی کشمیر کو بھی متاثر کیا ہے ۔ لیکن عوام اس کی مذہبی نوعیت کو محسوس کرتے ہیں روشن خیال افراد کا خیال ہے کہ انھیں اپنی کامیابی کی اب کوئی امید باقی نہیں رہی ہے ۔ یہ بھی ایک افسوسناک بات ہے کہ عام آدمی پارٹی بھی معمولی اختلافات کی وجہ سے انتشار کا شکار ہے ۔ عوام کا ایک گوشہ تو اس حد تک کہتا ہے کہ ان کی شکایات کے بارے میں آواز انھانے کے لئے ایک اور کنونشن منعقد کیا جانا چاہئے ۔ یہ واضح ہے کہ پارٹی کا داخلی ماحول دم گھونٹ دینے والا ہے ارکان میں پھوٹ بدبختانہ ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی تحریکیں جب بھی سیاست میں داخل ہوتی ہیں ، ان میں پھوٹ کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے ۔ سماجی کارکن میدھا پاٹکر کا کہنا ہے کہ سماجی تحریکوں پر بھی سیاست کا رگن چڑھ جاتا ہے۔ سیاست اور اقتدار ان افراد کو بھی بدعنوان بنادیتے ہیں جن کی ساری زندگی اقدار کے لئے جد وجہد کرتے گذری ہے ۔

پنجاب میں عسکریت پسندی کے دور میں انکاؤنٹر ایک مانوس لفظ بن گیا جبکہ اس وقت کے سربراہ پولیس کے پی ایس گل پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی پردہ پوشی کے لئے اسے انکاؤنٹر قرار دیتے ہیں ۔ لیکن یہ اصطلاح طویل قانونی طریقہ کار کے دوران نہیں ٹک سکی اور عدالتوں نے خاطیوں کے خلاف فیصلہ سنایا ۔ گل نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ قانونی نظام اتنا ناقص ہے مقدمہ برسوں چلتا ہے ۔ اگر کسی شخص پر قتل یا عصمت ریزی یا اس سے بدتر الزام بھی ہو تو اس کی ضمانت منظور ہوجاتی ہے اور جیل سے باہر رہنے کی مدت میں وہ یہی گھناؤنا جرم دوبارہ کرتا ہے ۔

آندھرا پردیش میں جاریہ ماہ کے اوائل میں پولیس کے ہاتھوں 20 مزدوروں کی ہلاکت پر اتنا شور و غل نہیں ہوا جتنا کہ اس واقعہ پر ہونا چاہئے تھا کیونکہ مہلوکین مزدور تھے ۔ اشرافیہ کے اس معاشرہ میں پست ترین سطح کے ارکان تھے ۔ اشرافیہ طبقہ ہی قانون بناتا ہے ۔ یا ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ وہ غریب تھے اور معاشرہ کے حاشیہ پر زندگی گذار رہے تھے ۔ جو بھی ہو ، ایسا ہونا حیرت انگیز ہے ۔ آٹھ مزدور ٹاملناڈو کے مقام ویٹاگری پالیم سے پیر کی دوپہر روانہ ہوئے تھے ۔ پہلے وہ تروتنی پہنچے جو آندھرا کی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ وہاں سے وہ بس کے ذریعہ آندھرا پردیش کے علاقہ رینی گنٹہ پہنچے ۔ پولیس نے انھیں راستہ ہی میں گرفتار کرلیا تھا لیکن انکا انکاؤنٹر تروپتی کے قریب سیشاچلم کے جنگل میں ہوا ۔ ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے جو اس بس میں دیگر سات افراد کے ساتھ سوار تھا جسے آندھرا پردیش کی پولیس نے روکا تھا ، کہا کہ دیگر تمام کو بس سے اتار لیا گیا ، اسے چھوڑ دیا گیا کیونکہ وہ ایک عورت کے برابر والی نشست پر تھا اور پولیس نے سمجھا کہ وہ اس کا شوہر ہے ۔

ایک کے بعد دوسرے واقعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ پولیس نے ایک ہی طریقہ اختیار کیا تھا جو برطانوی دور میں بھی اختیار کیا جاتا تھا ۔ وہی بے رخی ، وہی گہرائی سے تحقیقات کرکے وجوہات معلوم کرنے کے بارے میں لاپرواہی ۔ حکمرانوں کو بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ کونسا طریقہ اختیار کیا گیا ، یہاں تک کہ پولیس جو چاہتی ہے کر گذرتی ہے ۔ آزادی کے بعد کے 68 سال کے منظر کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتاہے کہ طریقہ تبدیل ہوجانا چاہئے تھا ۔ لیکن غالباً ایسا اس لئے نہیں ہوا کہ انھوں نے اپنی مرضی کے مطابق مقصد حاصل کرلیا تھا ۔ مقصد تک پہنچنے کے طریقہ کی انھیں پرواہ نہیں تھی ۔

کشمیری پنڈتوں کا طبقہ تعلیم یافتہ اور باشعور طبقہ ہے۔ اگر ان کا حشر حکومت کو متحرک کرسکتا ہے کہ وہ حقیقی وجہ پتہ چلائے جس کی وجہ سے وہ بے گھر ہوئے ہیں تو ان کا اثر و رسوخ ضائع نہیں ہوگا ۔ اگر قوم خود احتسابی کرے تو اسے احساس ہوگا کہ حکمرانی کے نام پر زیادتیاں کرنا برہنہ بے حسی اور سیاسی نشہ کا اثر ہے ۔ منصوبہ بند ہلاکتیں جو انکاؤنٹر کے نام پر کی جاتی ہیں جمہوری معاشرہ کے لئے ناقابل برداشت ہیں ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن ، آندھرا ، انکاؤنٹر میں زندہ بچ جانے والے شخص کو طلب کرلیا اور اس کا بیان درج کیا ۔ وقت گذرنے پر فیصلہ پولیس کو سزا دے گا یا اسے انتباہ دے کر چھوڑ دے گا یہ جلد ہی معلوم ہوجائے گا ۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی عوام کی یادداشت سے محو ہوجائے گا ۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ورنہ ایسے ہی واقعات دوسرے مقامات پر بھی پیش آئیں گے کہ کسی اور وقت اور پولیس اپنی اس کارروائی کو بھی انکاؤنٹر قرار دے گی ۔