کراچی، 4 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے شہر کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں جرابوں پر استری کرنے پر مامور ایک نوجوان کو کرکٹ کا شوق انڈر 19 کے زونل ٹرائلز میں لے گیا۔ نوجوان کو یہ معلوم تھا کہ کرکٹ کھیلنے کی صورت میں وہ 150 روپے یومیہ اجرت سے محروم ہو جائے گا۔ تاہم وہ اپنے شوق سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اتفاق سے اس نوجوان کو ایسے ہمدردوں کا ساتھ میسر آ گیا جنھوں نے اس کی کرکٹ ختم نہیں ہونے دی اور آج وہ ٹی 20 انٹرنیشنل میں پاکستان کی سب سے یادگار جیت کے مرکزی کردار کے طور پر دنیا کے سامنے ہے۔ گزشتہ ہفتہ کو انورعلی کے چار چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے صرف 17 گیندوں پر بنائے گئے 46 رنز نے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی ایک وکٹ کی ڈرامائی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انورعلی کہتے ہیں جو سوچا تھا سب کچھ اسی کے مطابق ہوا۔ مجھے گزرا ہوا وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب کئی بہی خواہوں نے میری قدم قدم پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔ میں محنت پر یقین رکھتا ہوں۔
انسان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ’’میں جس وقت بیٹنگ کیلئے گیا تو صورت حال ظاہر ہے بہت مشکل تھی۔ میرے ساتھ عماد وسیم تھے۔ ہم نے یہی سوچا کہ ایک اوور میں ایک باؤنڈری ضروری ہے لیکن اگر اس دوران کسی ایک اوور میں زیادہ رنز بن جاتے ہیں تو یہ بہت ہی اچھا ہوگا۔ لستھ مالنگا کا اوور ہمارے لئے بہت ہی اچھا ثابت ہو گیا اور گیند بلے پر خوب آئی۔‘‘ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انور علی نے اپنی جارحانہ بیٹنگ سے پاکستان کو ہاتھ سے نکلتا ہوا میچ جتوایا ہے۔ 2013 ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن میں اپنے اولین ونڈے انٹرنیشنل میں بھی انھوں نے ناقابل شکست 43 رنز بنانے کے بعد ژاک کیلس اور ڈیوڈ ملر کی وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کی 23 رنز کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔انور علی کہتے ہیں کہ ان کی عمدہ کارکردگی کی ایک بڑی وجہ ان کی مثبت سوچ ہے۔’’میں ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہوں کہ سو فیصد کارکردگی دکھاؤں اور مجھ میں جتنی بھی صلاحیت ہے اس کا کھل کر مظاہرہ کروں۔ نتیجہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے
لیکن نتیجہ اپنے حق میں کرنے کیلئے محنت کرنا میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ انور علی کی کرکٹ میں زون چھ کے اعظم خان اور ظفراحمد کا عمل دخل بہت نمایاں رہا ہے۔ یہ اعظم خان ہی تھے جنھوں نے انور علی کو پہلی بار پاکستان کرکٹ کلب کی نیٹ پریکٹس میں دیکھا اور زونل ٹرائلز میں آنے کیلئے کہا جس پر انورعلی نے کہا کہ اگر وہ ٹرائلز میں آئے تو انھیں فیکٹری سے یومیہ اجرت نہیں ملے گی۔ اس پر اعظم خان نے کہا کہ یہ پیسے وہ انھیں دیں گے، ساتھ ہی انھوں نے کراچی کے سلیکٹر ظفر احمد کو اس نوجوان کی بولنگ دیکھنے کیلئے بھی کہا۔ انور ٹرائلز میں آئے اور سب کو متاثر کیا۔ اعظم خان کے کہنے پر ظفراحمد نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ٹیم میں انھیں ملازمت بھی دلوادی۔ انور علی نے پہلی بار شہ سرخیوں میں اس وقت جگہ بنائی جب انھوں نے 2006ء کے انڈر 19 ورلڈ کپ کے فائنل میں ہندوستان کی 5 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو فتح دلوائی۔ انور علی کے ہاتھوں آؤٹ ہونے والوں میں روہت شرما، چتیشور پجارا اور رویندر جڈیجا بھی شامل تھے۔