محمد ریاض احمد
ایک غریب قبائیلی اپنے کندھے پر ایک بیڈشیٹ میں لپتی ہوئی کوئی وزنی چیز لئے جارہا ہے اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے ہیں ایسا لگتا ہیکہ وہ مجسم سنگ بن گیا ہے اور اس کے کندھوں پر ساری دنیا کا بوجھ ان پڑاہو ۔ اُڑیسہ کے ایک دوردراز گاؤں کی کچی سڑک سڑک پر وہ اپنے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھارہا ہے اس کے ساتھ اس کی اپنی 12 سالہ بیٹی بھی ہے جو مسلسل روئے جارہی ہے اسے تسلی دینے والا کوئی نہیں فضاء اس کی آہ و بکا سے گونج رہی ہے راہ چلنے والے اسے دیکھ کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں ۔ باپ کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہیکہ اس میں اب کسی قسم کے جذبات باقی نہیں رہے ۔ چہرہ بالکل ویران ہوچکا ہے آنکھیں پتھراگئیں ہیں وہ شائد پلک چھپکنا بھی بھول گیا ہے ۔ راستے میں کبھی کبھی وہ سڑک کے کنارے لہلہاتے کھیتوں اور درختوں کے قریب رکتا اپنے کندھے پر لدے بوجھ کو اُتار پھینکتا پھر اسے اپنے کندھے پر رکھ کر اپنی منزل کی جانب آگے بڑھنے لگتا ۔ جس کے ساتھ ہی اس کی بیٹی کی رونے کی چیخیں مزید بلند ہوتی یہ ایک ایسا منظر ہے شائد جس نے ہندوستانی جمہوریت ، حکومت ، حکمرانوں اور ہندوستانی معاشرہ کو ساری دنیا میں شرمسار کردیا ہے ۔ ہاں قارئین اس ہم جس شخص کے کندھوں پر موجود بیڈشیٹ میں لپیٹے ہوئے بوجھ اور ایک روتی بلکتی کمسن لڑکی کا ذکر کررہے ہیں وہ دراصل ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کی منہ چڑاتی حقیقت ہے ۔ وہ تصویر اڑیسہ کے ایک غریب قبائیلی دانا ماجھی کی ہے جس کی بیوی 42 سالہ امنگا ریاست اڑیسہ کے علاقہ بھوانی پٹنہ کے ضلعی اسپتال میں ٹی بی کے باعث فوت ہوگئی تھی چونکہ دانا ماجھی کے پاس اپنی بیوی کی نعش ایمبولنس میں اپنے گاؤں منتقل کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے اور ہاسپٹل انتظامیہ نے بھی اسے ایمبولنس فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا ایسے میں اس نے نعش کو اپنے کندھے پر اُٹھانے میں ہی عافیت سمجھی اس طرح ایک غریب ہندوستانی 10 کلو میٹر تک بیوی کی نعش کا بوجھ اُٹھائے پیدل چلتا رہا ۔
یہ ایسا دردناک منظر تھا جس نے مرکزی حکومت سے لیکر ریاستی حکومتوں کے بلند بانگ دعوؤں کی پول کھول کر رکھدی ۔ ساری دنیا کے میڈیا میں دنیا کی تیزی کے ساتھ ابھرتی معیشت ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کا مضحکہ اُڑاتی اس تصویر کو پیش کیا گیا ۔ دانا ماجھی کی غربت اور اس کی بیوی کی نعش اور اس کی روتی بلکتی بچی آج یقیناً مودی حکومت کی ترقی و خوشحالی ، اچھے دن ، سب کا ساتھ سب وکاس ، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ، میک ان انڈین مہم ، اسٹارٹ اب انڈیا اور اسمارٹ سٹیز پراجکٹ کا مذاق اُڑارہی ہیں ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو دانا ماجھی کے کاندھوں پر اس کی بیوی امنگا کی نعش نہیں بلکہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کے وعدوں کی نعش تھی جس کا بوجھ اُٹھانے پر وہ مجبور ہوگیا تھا ۔ اڑیسہ کے مجبور و بے بس قبائیلی کے کاندھوں پر امنگا کی نعش نہیں بلکہ غربت و افلاس کی چادر میں لپیٹی ہندوستانی جمہوریت کی نعش تھی اور دنیا نے پہلی مرتبہ ایک زندہ نعش کو اپنے کندھوں پر حقیقی نعش لے جاتے دیکھا اور ایسا منظر صرف ہندوستان میں نظر آتا ہوگا ۔ دنیا نے اڑیسہ کے مجبور و بے بس قبائی دانا ماجھی کے کندھوں پر دراصل ہندوستانی حکومت ، حکام ، اسپتالوں کے انتظامیہ اور عوام کی بے حسی کی نعش کا بوجھ دیکھا ہے ۔ ویسے بھی عوام کی بے بسی ، بے کسی ، غربت و افلاس اور معاشرتی بیماریوں کے علاوہ حکومت کی بے حسی ، مجرمانہ غفلت ، اپنے فرائض سے کوتاہی کا بوجھ انسانی نعش کے بوجھ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔ ماجھی کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے کندھوں پر اپنی غربت کی المناک داستان بیان کرتی بیوی کی نعش کے بوجھ کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے وعدوں اور اس کی بے ضمیری و بے حسی کا بوجھ بھی پڑگیا تھا جس کے تلے وہ دبا جارہا تھا اس قدر وزنی بوجھ کے باوجود بھی اس نے دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے شائد مودی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست اڑیسہ کی نوین پٹنائیک حکومت کو یہ پیام دیا ہیکہ جیوتو پوری شان سے جیو ورنہ بلند بانگ دعووں اور وعدوں سے گریز کریں کیونکہ کسی بھی لمحہ کسی قبائیلی کی نعش تمہارے دعووں کھوکھلے وعدوں اور جمہوریت کی پول کھول کر رکھ دے گی ۔
اڑیسہ کا یہ واقعہ ہم سارے ہندوستانیوں کیلئے باعث شرم ہے یہ اور بات ہیکہ دروغ گوئی کے سہارے اور انسانی نعشوں پر سے گذر کر اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والے بے شرم و بے غیرت و انسان نما حیوانوں کو کسی بھی بات پر شرم نہیں آتی ۔ لفظ غریت سے تو ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا ۔ ان کا وجود ضمیر سے خالی ہوتا ہے انسانیت کے پاکیزہ جذبات اُن سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ہندوستانی چھوت چھات ، ادنی اعلی کے فرق ، تعصب و جانبداری کی غلاظت میں وہ ڈوبے رہتے ہیں ۔ آج دانا ماجھی کی مجبوری و بے بسی ہندوستانیوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کررہی کہ میرے ملک کے عام آدمی تو کب تک تجھے حکومت کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ اور بلندبانگ دعوؤں پر یقین کرتا رہے گا؟ کب تک سیاستداں بیوقوف بناتے رہیں گے ۔ کب تجھے پتہ چلے گا کہ ہمارے ملک کے 650 ملین سے زائد نفوس انتہائی غربت میں زندگی گذار رہے ہیں ؟ ہاں ۔ دانا ماجھی کی تصویر اہم ہندوستانیوں کو حقیقت سے آشکار کررہی ہے اس لئے کہ اقوام متحدہ اور برطانوی و مغربی اداروں کی جانب سے 2013 میں کئے گئے ایک جائزہ میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں 650 ملین افراد غربت کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ہر روز مر مرکر جیتی ہے جبکہ یوروپ اور امریکی کی جملہ آبادی بالترتیب 500 ملین اور 320 ملین سے زیادہ ہے ہندوستان کے شہری علاقوں میں حالات کچھ ٹھیک ہیں لیکن ملک کی ستر فیصد آبادی جو دیہی علاقوں میں رہتی ہے ان کی حالت خاص طور پر درج فہرست طبقات و قبائیل کی حالت انتہائی خراب ہے ۔
ہندوستان میں ذات پات اور ادنی واعلی کے فرق نے بھی انسانیت کو بار بار رسواء کیاہے ملک کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہیکہ 16 فیصد ایس سی ، 8 فیصد ایس ٹی ، 35 فیصد او بی سیز اور 14 تا 20 فیصد مسلمان اور 2 تا 4 فیصد دوسچری اقلیتیں ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلی ذات کے ہندوؤں کی ایک مختصرسی تعداد سارے ملک پر کنٹرول رکھے ہوئے نتیجہ میں وہ ذات بات کے نام پر ان غریبوں کو ہر قسم کے استحصال کا شکار بنانا اپنا دھرم سمجھتے ہیں ۔ ہندوستان میں شدید غربت کی اہم وجوہات میں جہاں چھوت چھات ، معاشرتی بے حسی ، تعصب و جانبداری ذمہ د ار ہے وہیں دولت کی مساویانہ تقسیم کا نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔ انفرادی دولت کے معاملہ میں ہندوستان کا شمار دس سرفہرست دولت مند ملکو ںمیں ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ ہندوستان کی ساری دولت چند کارپوریٹ ، سیاسی گھرانوں تک محدود ہوگئی ہے ۔ حکومتیں جن اسکیمات کا اعلان کرتی ہیں اس کے ثمرات غریبوں تک نہیں پہنچ پاتے ۔ رشوت خوری اور بدعنوانی بھی عام ہے ۔ ایسے میں غربت کا خاتمہ کہاں سے ہوگا ۔ بہرحال دانا ماجھی کے کندھوں پر اس کی بیوی کی نعش کی تصویر ہندوستانیوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ ہوئے یہ پیام ضرور دے گی کہ زندگی میں غریب کو ذلیل کرنے والو اسے باوقار انداز میں مرنے تو دو۔
mriyaz2002@yahoo.com