سید جلیل ازہر
ادب تہذیب کا چہرہ ہے اور پوری پوری تہذیبیں اور زمانے اس چہرے سے ہمارے روبرو ہوتے ہیں۔ تاریخ تو فقط خاکہ ہے ، نقوشِ رفتہ کا زمانہ زندہ رہتے ہیں تو فقط شاعری میں اور زمانے بولتے ہیں تو فقط شاعری میں شعراء کے کلام کا مطالعہ سچا اور کھرا ہے جس میں ان کی تخلیقیت تاریخ کی روح روا کلچر کے جوہر کی زبان بن جاتی ہے اور اسے آنے والے ہر زمانہ کیلئے زندہ جاوید بنادیتی ہے ۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر مرحوم معراج فیض آبادی نے بہت پہلے یہ کہا تھا ؎
ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم
اور ہم کو اس دور ترقی نے دیا کیا معراج
کل بھی برباد تھے اور آج بھی برباد ہیں ہم
زمانہ بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے ، ایسے حالات کے باوجود بھی اردو صرف اپنے بل بوتے پر آج بھی زندہ اور جاندار ہے ۔ شاعری کے ذریعہ اس زبان کی اہمیت غیر اردو داں طبقہ میں بھی مقبولیت حاصل کرچکی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ زبان کو سرکاری سطح پر اس کا مستحقہ مقام نہیں مل پا رہا ہے ۔ اردو کی بقاء اس کی ترقی و ترویج کیلئے ملک میں ہر تنظیمیں اس کے جائز مقام کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں، پھر بھی اردو زبان کے ساتھ انصاف نہیں دکھائی دیتا، آج حیدرآباد اپنی مخصوص تہذیب اور روایات کیلئے عالمی سطح پر اپنی ایک منفرد شناخت ہی نہیں شہرت رکھتا ہے اور باصلاحیت قلمکاروں اور شاعروں و ادیبوں کی کوئی کمی نہیں ۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سرزمین دکن کے شعراء کو ملک کے عالمی مشاعروں میں کلام سنانے کا موقع فراہم ہوجائے تو وہ ادب کی اس زرخیز زمین حیدرآباد دکن کو چار چاند لگادیں گے۔ حیدرآباد کے ایک کل ہند مشاعرہ میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر جناب منظر بھوپالی نے کلام سنانے سے قبل ادب کے متوالوں کے مجمع کو دیکھ کر بے ساختہ کہا تھا کہ ہندوستان کا مرکز دلی ہے تو ہندوستان میں اردو کا مرکز حیدراباد ہے ۔ اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ شہر حیدرآباد ہو کہ تلنگانہ کا کوئی بھی ضلع ایسا نہیں جہاں اردو کی ترقی اور ترویج کیلئے کام نہیں ہورہا ہے۔ ہر تنظیم اپنے اپنے طرز پر اردو کے کاز کیلئے بہترین خدمات انجام دے رہی ہے ، اسی طرز پر شہر حیدرآباد کی ایک مقبول شخصیت عبداللہ بن علی بن محفوظ (جدہ) جو عرب میں تاجر ہندوستان میں شاعر کی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت کے ساتھ ساتھ اردو کی تڑپ اور نئے لکھنے والوں، پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کے ساتھی ملک کے نامور صحافی جناب زاہد علی خان مدیر اعلیٰ کی سرپرستی میں ابراہیم بن عبداللہ مسقطی کی رہنمائی میں انجمن شعراء حیدرآباد دکن کا قیام عمل میں لاتے ہوئے مشاعروں کی محفلیں منعقد کرتے ہوئے دکن کے شعراء کی صلاحیتوں کو ادب نواز لوگوں تک پہونچانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اس انجمن کی جانب سے گزشتہ ہفتہ آمنہ پلازا میں ایک شاہ کی محفل سجائی گئی تھی جس میں دکن کے ایک معروف شاعر جناب محمد نورالدین امین کے مجموعہ کلام ’’حقیقت کی پرچھائیاں‘‘ کی رسم اجراء عبداللہ بن محفوظ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس موقع پر ایم اے باسط، عارف سیفی، جمشید علی ، عبدالرحمن مقصود، ممتاز سلطانہ این آر آئی حیدرآباد جو باصلاحیت اشعار لکھنے کے باوجود کبھی سامعین کے درمیان نہیں آئی۔ اب انہوں نے شہ نشین سے باقاعدہ شاعری کرتے ہوئے اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ محترمہ ممتاز سلطانہ کو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل ہے جبکہ محمد نورالدین امیربھی اس رسم اجرائی میں شریک تھے۔ بعد ازاں مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں عارف سیفی نے مشاعرہ کے آغاز پر یوں کہا ۔
میں سچا ہوں یہ میٹھے آم بھی مجھ سے نہیں بکتے
جو جھوٹے ہیں میاں انگور کھٹے بیج دیتے ہیں
ہمارے ملک میں اتنی غریبی ہے کہ مت پوچھو
شکم بھرنے کی خاطر لوگ بچے بیچ دیتے ہیں
جمشید علی اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
ذرا شئے میں بال آیا
تو اپنے دل میں خیال آیا
میں اپنا سر خود ہی اتاروں گا
اگر وفا پر سوال آیا
اب جناب عبدالرحمن مقصود مائیک پر
ہر طرف ہوں گی عمارت جدھر دیکھیں گے
کل کے بچے تو کتابوں میں شجر دیکھیں گے
اب محترمہ ممتاز سلطانہ جو دکن سے ہی تعلق رکھتی ہیں، اب تک صرف لکھتی آئی ہیں۔ پہلی مرتبہ شہ نشین سے ممتاز یوں کہتی ہیں ؎
جہاں میں عشق کی معراج کا یہی ہے بدل
زمانہ اس کو نہیں کہتا شاہ جہاں کی غزل
جو دیکھو سچی محبت کا اک ثبوت ہے یہ
اگر ممتاز نہ ہوتی نہ ہوتا تاج محل
اب محمد نورالدین امیراپنے احساسات کو شاعری کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
چوٹ دل پر اگر نہیں آتی
شاعری رنگ پر نہیں آتی
موت آتی ہے وقت پر اپنے
وقت سے پیش تر نہیں آتی
اب شاعر عرب عبداللہ بن علی بن محفوظ (جدہ)
نظر ان کی نہ لگی ہے تو لگی پھر کس کی
نہ جمی ان کی نگاہ ہم پر تو جمی پھر کس کی
ہم تو گھائل ہوئے صرف ان کی نظر سے محفوظ
وہ ادا ان کی نہیں ہے تو ہے پھر کس کی
مشاعرے سے قبل تمام مہمانوں کا خیر مقدم علی بن صالح لحمدی نے کیا ۔ انجمن کا آئندہ مشاعرہ بیت منعقد کرنے کا عبداللہ بن محفوظ نے اعلان کیا ، یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ علحدہ ریاست تلنگانہ وجود میں آنے کے بعد نئی ریاست کے وزیر اعلیٰ جناب چندر شیکھر راؤ سے ہر طبقہ کو امیدیں وابستہ ہیں اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ اردو کے مسائل سے بہت زیادہ واقفیت رکھتے ہیں، ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی صاحب بھی اقلیتوں کے مسائل پر ٹھوس نمائندگیاں کر رہے ہیں۔ اقلیتیں بھی منتظر ہیں کہ نئی ریاست میں نئے وزیر اعلیٰ اردو کو حقیقی جائز مقام دلاتے ہوئے اسکی ترقی کیلئے ٹھوس اقدام کریں کیونکہ وزیر اعلیٰ خود تمام طبقات کی ترقی کیلئے فکرمند ہیں۔ لہذا اردو زبان کی بقاء کیلئے بھی سنجیدگی سے قدم اٹھائیں۔